ایک جُرأت مندانہ تقریر

وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ کم زور شخصیت کے مالک ہیں، اور جب معاملہ کسی بڑی طاقت یا عالمی اداروں سے ہو تو ہمارے بڑے بڑے سورما بھی بھیگی بلی بن جاتے ہیں، ایسے میں جرأت سے محرومی کی شہرت رکھنے والے وزیراعظم سے کسی بہادری کی امید رکھنا فضول ہی ٹھہرا، لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جب انھوں نے ببانگ دہل کہا،’’مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا اقوام متحدہ کی کھلی ناکامی ہے‘‘ تو بڑی حیرت ہوئی، بہت خوشی ہوئی۔ پاکستان میں ہونے والے سیاسی خاص انتخابی جلسوں اور دیگر اجتماعات میں تو ہمارے راہ نما اپنے مخالفین کے خلاف آگ اگلتے ہیں، مسئلہ کشمیر اور دیگر قومی ایشوز پر لفظوں کی بم باری کرتے ہیں اور بڑی بے باکی سے عوام کے جذبات اور موڈ کے مطابق سب کہہ جاتے ہیں، لیکن کسی عالمی فورم پر، جہاں بولا جانے والا ایک ایک لفظ تولا جاتا ہے، ان راہ نماؤں کی گھگھی بندھ جاتی ہے یا وہ ڈرے سہمے الفاظ میں موقف بیان کرپاتے ہیں، ایسے میں وزیراعظم نوازشریف کی تقریر کیسے حیران نہ کرتی۔ کچھ ہو نہ ہو کم ازکم یہ خوشی اور فخر تو میسر آیا کہ ہمارے وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی منافقت اور دوغلے پن کو اس کے منہ پر اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے نقاب کیا ہے۔

اقوام متحدہ کا ادارہ قوموں کے مابین تنازعات پُرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے وجود میں آیا تھا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد کم زور ممالک کو طاقت ور اقوام کی جارحیت سے محفوظ رکھنا تھا۔ اس عالمی فورم کا کام تھا کہ یہ مظلوموں کو ظالموں کے ظلم سے بچائے، ان کی دادرسی کرے۔ لیکن کیا یہ ادارہ اپنے مقاصد پورے کرسکا؟ نہیں ہرگز نہیں۔ کچھ استثنائی مثالوں کے چھوڑ کر اقوام متحدہ زورآوزوں کی آلہ کار کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ طاقت ور اقوام کے مفادات کی تکمیل اور کم زور قوموں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور ناانصافی سے چشم کشائی اس ادارے کا وتیرہ بن گئی ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے اس خطاب میں اقوام متحدہ میں جامع اصلاحات کی حمایت کرتے ہوئے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ’’سلامتی کونسل کے ارکان کی تعداد بڑھانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ناانصافیوں کو ختم کرنا ہوگا۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے ارکان کی تعداد بڑھا کر اور اس میں بھارت جیسے اپنے ہم سایہ ممالک کی سا لمیت کے لیے مستقل خطرہ بنے رہنے اور اپنی اقلیتوں پر ظلم ڈھانے والے ملک کو اس میں شامل کرنے سے، اس ادارے کی افادیت مزید کم ہوجائے گی۔ سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل کرنا بھارتیوں کا وہ سپنا ہے جو پورا ہوگیا تو برصغیر میں امن کا رہاسہا امکان بھی ختم ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل کے ارکان سے ویٹو کا حق واپس لینا ہوگا۔ یہ ویٹو پاور ہی ہے جس کی وجہ سے فلسطین اور کشمیر جیسے سلگتے ہوئے مسائل پر آنے والی قراردادیں ردی کی ٹوکری کی نذر ہوتی رہی ہیں۔

جہاں تک مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور مظالم کا تعلق ہے تو وزیراعظم نے بروقت اور بالکل درست بات کی ہے۔ سوڈان میں مسیحی اقلیت آواز اٹھائے تو اسے فوراً علیحدہ ملک عطا کردیا جاتا ہے، لیکن فلسطینیوں کا خون بہتا رہے، کشمیر میں بھارتی فوج ظلم کے پہاڑ توڑتی رہے، برما میں مسلمان ظلم کی چکی میں پستے رہیں، اقوام متحدہ آنکھیں بند کیے رہتی ہے، ان مظلوم مسلمانوں کی درد میں ڈوبی صدائیں اسے مدد کے لیے پکارتی رہتی ہیں لیکن اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ اقوام متحدہ کا دوہرا معیار اور دوغلاپن ہی ہے جس نے مسلم ممالک میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کو فروغ دیا۔ انتہاپسندانہ سوچ کے حامل اور مسائل کے تشدد سے حل کرنے کے حامی افراد کے لیے مسلم نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا یہ ٹھوس جواز موجود تھا اور ہے کہ ظلم کا شکار مسلم اقوام کو بچانے کی کوشش کوئی عالمی ادارہ نہیں کرتا، مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر کسی عالمی فورم میں آواز نہیں اٹھائی جاتی، تو پھر کیوں نہ ہم خود ہتھیار اٹھا کر انتقام لیں اور اپنے بھائیوں کو ظلم سے بچائیں۔ اس فکر کے حامل لوگوں نے خود کیا کیا اور ان کی اس سوچ اور انتہاپسندانہ اور پُرتشدد اقدامات نے مسلم امہ کو فائدہ پہنچایا یا نقصان، یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کی منافقت ایسے افراد اور تنظمیوں کی فکر کو آگے بڑھانے میں معاون ومددگار ثابت ہوئی ہے۔ ایک پُرامن اور تشدد سے پاک دنیا کے لیے اقوام متحدہ کو اپنا یہ چلن بدلنا ہوگا اور فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل پر توجہ دینی اور انھیں حل کرانا ہوگا۔

وزیراعظم کے خطاب کا محور کشمیر اور پاک بھارت تعلقات تھا۔ انھوں نے اس حوالے سے جو تجاویز پیش کیں وہ اس حقیقت کی آئینہ دار ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے جو دنیا اور خطے میں امن اور دوستی کا فروغ چاہتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا،’’کشمیر اور سیاچن سے فوجی انخلاء کیا جائے، اسے غیرفوجی علاقہ بنایا جائے، پاکستان اور بھارت کو کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کا احترام کرنا چاہیے، دونوں ممالک کو کسی بھی صورت میں ایک دوسرے کو دھمکیوں اور طاقت سے گریزکرنا چاہیے، اْنہوں نے کہا کہ جھوٹے وعدوں اور سفاک مظالم نے کشمیر کی تین نسلیں اجاڑدیں، مسئلے کے دوطرفہ حل کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ، پاکستان خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کا حصہ نہیں بنے گا، تاہم خطے میں ہونے والی ہرقسم کی تبدیلیوں سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔‘‘ کشمیر میں بھارتی مظالم کا احاطہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے بھارت کو جنگ نہ کرنے کے معاہدے کی پیشکش بھی کی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ناخوشگوار تعلقات کی وجہ سے دونوں ممالک کے دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر وزیراعظم کی تجویز مانتے ہوئے بھارت جنگ بندی کے معاہدے پر تیار ہوجائے اور ان کی پیش کردے دیگر تجاویز تسلیم کرلے تو ان اخراجات میں نمایاں حد تک کمی ہوسکتی ہے، جس کا فائدہ دونوں ممالک کے عوام کو ہوگا اور یہ رقم تعلیم، صحت، ترقی اور سماجی بہبود کے کاموں پر خرچ کی جاسکے گی۔ مگر دہلی کی مذہبی انتہاپسند اور جنگی جنون میں مبتلا سرکار نے یہ تجاویز مسترد کردی ہیں، جس سے ثابت ہوگیا کہ بھارت امن دشمن ہے۔ بھارت، خاص طور پر مودی سرکار سے یہی توقع تھی، لیکن پاکستان نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اپنے موقف اور تجاویز سامنے لاکر دنیا میں بدامنی اور دہشت گردی کی وجوہات کی نشان دہی کردی ہے اور یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ جوہری طاقت ہونے اور اپنی دفاع کی پوری صلاحیت رکھنے کے باوجود امن اور دوستی کا خواہاں ہے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311631 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.