بے لگام ڈینگی اور حکومت
(Raja Tahir Mehmood, Rawat)
پاکستان میں ڈینگی کی وجہ سے ہر
سال کئی افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ڈینگی کی وباء کے خاتمے کے لے
کئی بار مخلصانہ کوششیں بھی کی گئی مگر جیسے ہی حکومت کی توجہ اس طرف سے
ہٹی ساتھ ہی اس وباء نے زور پکڑ لیا ماضی میں پنجاب حکومت نے بڑے احسن
طریقے سے اس وباء پر قابو پائے رکھا لیکن اس سال شاید پنجاب کی سول
بیوروکریسی نے وہ کام نہیں کیا جو ماضی میں کرتی رہی ہے(یا اس سے کرایا
جاتا رہا ہے ) انھوں نے اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دی بلکہ صرف خانہ پری
اور دیکھاوئے کی کاروائی کی جس کی وجہ سے آج ایک بار پھر یہ وباء پھیل چکی
ہے اور نجانے کتنے گھروں کے چراغ گل کرنے کے درپے ہے ۔پاکستان کے صوبہ
پنجاب کے ضلع راولپنڈی میں ڈینگی وائرس ایک وباء کی مانند پھیل رہا ہے اور
سرکاری ہسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں مریض آ رہے ہیں خدشہ ہے کہ
اس کے اگلے اہداف پنجاب کے کئی بڑے شہر بھی ہو سکتے ہیں۔ راولندی سب سے
زیادہ متاثرہ علاقوں میں شامل ہے -
راولپنڈی کے دو بڑے سرکاری ہسپتال ہولی فیملی اور بینظیر بھٹو شہید ہسپتال
میں ڈینگی کے سینکڑوں مریض زیر علاج ہیں جن میں آئے دن اضافہ دیکھنے میں آ
رہا ہے راولپنڈی کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کے لیے الگ سینٹرز
قائم کیے گئے ہیں تاہم ان ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ مریضوں
کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے موجودہ عملہ بھی کم ہے اور ساتھ ساتھ جگہ کم
پڑتی جا رہی ہے اور ممکنہ طور پر دیگر ہسپتالوں میں بھی ڈینگی وارڈز قائم
کرنے پڑسکتے ہیں ۔ایک بات بڑی واضح نظر آ رہی ہے کہ راولپنڈی کے دیگر قصبات
میں اس مرض سے نبرد آزما ہونے کے لئے اس سال حکومت پنجاب نے کوئی خاص توجہ
نہیں دی جس کے وجہ سے لوکل ایریا ز کے لوگوں میں یہ مرض زیادہ دیکھنے میں آ
رہا ہے اور ان علاقوں میں ڈینگی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے وہاں موجود
ڈسپنسریوں میں علاج کی سہولت نہ ہے اور نہ ہی ڈینگی کے خاتمے کے لیے سپرے
کرنے والی ٹیمیں موثر انداز میں اپنا کام کر رہی ہیں اس کی دوسری بری وجہ
اس سال منگوائی جانے والی سپرئے بھی ہے جو کہ انڈیا سے درامد کی گئی ہے
انڈیا سے منگوائی گئی سپرئے میں وہ دم خم نہیں ہے جیسی سپرئے پچھلے سال
جرمنی یا دیگر یورپی ممالک سے درامد کی گئی تھی جس کی وجہ سے کئی علاقوں
میں اس(انڈین سپرئے ) کے خلاف شکایات بھی سننے میں آ رہی ہیں اور یہ بات
بھی سامنے آئی ہے کہ ڈینگی کے سامنے یہ سپرئے بلکل بے اثر ہے لیکن اس غیر
معیاری سپرئے کو درامد کرنے والوں اور اس کو پاس کرنے والوں کے خلاف کوئی
بھی کاروائی نہ کرنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آ تی شاید پنجاب حکومت کے لئے
لوگوں کی زندگیاں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ ڈینگی کے انسداد کے لیے قائم
شعبہ ہیلتھ اینڈ ریسرچ کے سربراہ ڈاکٹر وسیم اکرم کے مطابق ’عموماً ستمبر،
اکتوبر اور نومبر میں ڈینگی کے کیسز زیادہ سامنے آتے ہیں تاہم اس بار جلد
بارشوں کی وجہ سے وائرس جلد پھولاہے۔اعدادو شمار کے مطابق پوری دنیا کے
متاثرہ ممالک کی نسبت پاکستان میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد کم ہے انسدادِ
ڈینگی کے لیے صوبائی ڈائریکٹر برائے کمیونٹی ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرینگ کے مطابق
’لاہور اور فیصل آباد میں صورتحال کنٹرول میں ہے تاہم راولپنڈی اور ملتان
میں اس سے بچاؤ کے لیے ٹیمیں کام کر رہی ہیں امید ہے کہ اس وباء پر قابو پا
لیا جائے گا ۔ماہرین طب کے مطابق اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ
احتیاط ہے جس کی وجہ سے اس وباء سے بچا جا سکتا ہے احتیاطی تدابیرڈینگی
مچھر سے محفوظ رہنے کے لیے چھوٹی استینوں کے استعمال سے گریز کیا جائے پانی
ذخیرہ کرنے والے تمام کنٹینرز کو صاف رکھیں اور کھلا نہ چھوڑیں اس موسم میں
بخار کی صورت میں گھریلو ٹوٹکوں پر عمل کرنے کے بجائے ہسپتال کا رخ کریں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پنجاب اس امر کا جائزہ لے کہ ماضی کی نسبت اب
کی بار ڈینگی کی وباء کیوں اتنی زیادہ پھیل رہی ہے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے
خلاف اور ان کمپنیوں کے خلاف بھی کاروائی عمل میں لائے جنھوں نے غیر معیاری
ادویات درامد کر کے اس قسم کے حالات پیدا کر دیے کہ اب یہ وباء قابو میں
کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتاہے بلاشبہ اس میں بیوروکریسی بھی ملوث ہے
جنھوں نے اپنے مفادات کی خاطر ایک ایسی دوائی کو پاس کیا جس میں ڈینگی سے
لڑنے کی طاقت ہی نہیں ہے اس ضمن میں ہونے والی تمام کاروائی میڈیا سے شئیر
کی جائے تاکہ لوگوں کو اصل حقائق کا پتا چل سکے ساتھ ساتھ جنگی بنیادوں پر
اس پر کام ہونا چاہیے تاکہ نقصان کم سے کم ہو |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.