ساری دُنیا میں عام اتفاق رائے
یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمان بڑی کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں،اور یہ کہ
اُن کا پرسانِ حال کوئی نہیں۔اِدھر ہندوستانی مسلمان بھی اِ س حقیقت کے
سلسلے میں دو رائے نہیں رکھتے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ سارے عالم کے مسلمان
زبوں حالی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔کل ملا کر کیفیت یہ ہے کہ پونے دوسو
کروڑ نفوس پر مشتمل یہ عالمی قوم اپنی ذلّت و نکبت کے بد ترین دور سے گزر
رہی ہے۔بد بختی کے اِس گہرے کالے سمندرمیں خوشحالی کے کچھ چمکدار جزیرے
اِدھر اُدھر موجود ہو سکتے ہیں،بلکہ ہیں،لیکن ان کے ہونے نہ ہونے سے اِتنی
عظیم آبادی کی زبوں حالی میں کچھ فرق واقع نہیں ہوتا۔پھر اِس پر مستزاد یہ
کہ اِسے کم از کم اِس کسمپرسی کے ساتھ ہی سہی، چین سے جینے تک نہیں دیا
جاتا بلکہ اِس کے خلاف ظلم و ستم کی بھٹیاں سلگتی رہتی ہیں۔کیونکہ طاقتور
قومیں کمزور اقوام کو بہت کم برداشت کرپاتی ہیں۔اِس صورتحال سے گھبرا کر
نوجوانانِ قوم یا تو ہتھیار اُٹھا لیتے ہیں یا کاسۂ گدائی تھام لیتے ہیں
اور ظالم کی خوشنودی اِن کی زندگی کا نصب العین بن جاتا ہے۔ ہتھیار
اُٹھالینا چونکہ متعدد وجوہات کی بنا پر سارے ہی نوجوانوں کے بس کی بات
نہیں ہوتی، اِس لیے آخری چارۂ کار کے طور پر جو چیزاِن کے لیے باقی رہ جاتی
ہے وہ حقوق کے حصول کی مہم جوئی ہوتی ہے ……چاہے یہ پرامن ہی کیوں نہ ہو اور
جمہوری سیٹ اپDemocratic Setup میں حاصل اِجازت کے تحت ہی کیوں نہ چلائی
جائے۔دلچسپ مگر عبرت انگیز بات یہ ہے کہ جو عناصر اِس صورتحال کو پیدا کرنے
کے ذمہ دارہوتے ہیں وہی مسلمانوں کی اُمیدِ حق و انصاف کا مرکز بن جاتے ہیں
اور اِن ہی سے وہ اپنے حقوق کے طلب گار بن جاتے ہیں۔نہ صرف ہندوستان بلکہ
ہندوستان سے باہر بھی جہاں کہیں مسلمان آباد ہیں کم وبیش اِسی طریقۂ کارکے
خوگر نظر آتے ہیں۔حقوق انسانی کے لشکر وں نے بھی اِنہیں آدابِ گدا گری کے
درس خوب سیکھائے ہیں، کہ کیوں اور کس طرح ظالموں کو رام کیا جائے یا اپنے
حقوق کی اِن سے لڑائی کس طرح چھیڑی جائے۔ اوّل تو یہ اِنہیں اقلیت و اکثریت
کا فلسفہ سکھا تے ہیں،پھریہ باور کراتے ہیں کہ اقلیت کواکثریت کے در پر
سوالی بن کر بس مانگتے رہنا چاہیے،چاہے اکثریت دینے پر راضی ہو کہ نہ
ہو۔اِس ذہنیت کو فروغ دینے والوں کی ذہنی سطح اس قدر پست ہوتی چلی جاتی ہے
کہ یہ بالآخر اقلیتوں کو بھیک منگوں کا گروہ بنا کررکھ دیتے ہیں۔اِس کا
نفسیاتی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اقلیتیں مانگتے رہنے ہی کو بھی ایک حق ہی
سمجھنے لگتی ہیں اوراِس کے لیے مہمات سر کرنے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔پھرجب
یہ جدوجہد ’’کامیاب‘‘ ہوجاتی ہے تو اِس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ اِن کے اِس حق
کو ملک کے دستور میں جگہ نصیب ہوتی ہے اور انہیں اپنے حقوق طلب کرنے کی
اجازت مل جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ ایک حق کے طور پر مانگتے رہنے ہی
کوConstitutional Status حاصل ہو جاتا ہے،یعنی اُن کے سر کے اقلیتی تاج میں
دستوری بھکاری کا طرہ ٹانک دیا جاتا ہے،تاکہ وہ خوب اچھی طرح محسوس کر لیں
کہ اُنہیں اب مانگنے کا حق حاصل ہو گیاہے۔پھر اِس حق کے حصو ل کے لیے
پارٹیاں بنتی ہیں، لیڈر شپ وجود میں آتی ہے اور احتجاجات ،نعرے،جلوس، وعدے،
تجاویز ، جلسے، دھواں دار تقریریں، غرض کہ ہاؤہو کا بازار گرم ہوجاتا
ہے۔اکثریت نواز سیاسی پارٹیوں کی سیاسی دکانیں خوب چمکتی ہیں۔مسلمانوں کے
صحافی، قلمکار، ادیب ، شاعر، دانشور، سیاسی رہنما، مذہبی رہنما، مذہبی
جماعتیں سب کے سب ایک آواز میں اِنہیں یہی درس دینے میں مصروف ہو جاتے ہیں
کہ اُنہیں چونکہ’’ صاحبِ کاسہ‘‘ ہونے کا ’’شرف‘‘ حاصل ہو گیا ہے،اِس لیے
حقوق کی لڑائی پوری’’آن بان‘‘ کے ساتھ لڑنی چاہیے،جو اُنہیں از روئے دستور
حاصل ہیں۔
سوچیے کہ یہ کس قوم کا حال ہے !!یہ اُسی قوم کا حال ہے جس کا دستورِ زندگی
ایک ایسی کتاب ِ پاک تھی جس میں اپنی ذات کے لیے کسی حق کو طلب کرنے کا
کہیں اِشارہ تک نہیں ملتا۔ بلکہ یہ ایک’’ مظلوم حقیقت ‘‘ہے کہ اِس کتاب نے
اِس کے ماننے والوں کو صرف دینا سکھایا تھا، لینا یا مانگنا نہیں۔کتاب اﷲ
کے مومنوں سے ہم مخاطب ہیں کہ ہمیں بتایا جائے کہ قرآن پاک کے کہیں کسی
مقام پر اِشارۃً بھی یہ بات موجود ہے کہ ہمیں کسی سے کچھ لینے کی نصیحت کی
گئی ہے؟ بخدا……! قرآن تو بس دینے اور دیتے رہنے ہی کی نصیحت نہیں بلکہ
تاکید ہی تاکید کرتا ہے،اور مستحقین کے لیے Paymentsمیں کسی قسم کی غفلت پر
عذاب کی وعیدیں سناتا ہے۔
اِس مضمون میں ہم حقوق کی طلبگاری کی مہم جوئیوں کے درمیان گھرے ہوئے
مسلمانوں کی اور اِن کے مصروفِ حقو ق طلبی رہنماؤں کی یاد دہانی کرانے کی
کوشش کریں گے کہ کتاب اﷲ نے حقوق طلبی کے سلسلے میں مسلمانوں کوکیا پیغام
دیاتھااورخاتم النبین صلی اﷲ علیہ و سلم نے اِن کے لیے کیا نمونہ چھوڑا ہے۔
پھرپیغمبروں نے اپنے اپنے زمانے میں کن مہمات کی قیادت فرمائی تھی اور آج
مسلمان کن مصروفیات میں اپنے آپ کو اُلجھا رکھا ہے۔
قرآن پاک کی اوّلین سورۃ ہی میں ہمیں ایک آیت کا ایک ایسا فقرہ ملتا ہے جس
میں واضح طور پرکہا گیا ہے کہ مدد صرف خالقِ کائنات سے طلب کی جاسکتی ہے
اور کی جانی چاہییـ:’’……اِیاک نستعین‘‘ (تیری ہی ہم (مدد……اور)اِستعانت کے
طلبگار ہیں )۔جو قوم دن میں پچاسوں بار صرف خدا سے مدد طلب کرنے کا
باوضودعویٰ کرتی ہے ،کیا اُس کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں میں
کاسۂ گدائی لیے مختلف دروازوں پر بھیک مانگتی پھرے، چاہے یہ بھیک حقوق ہی
کی کیوں نہ ہو۔!!یہ بات عقل میں سماتی بھی نہیں کہ کوئی کیسے کسی کو دینے
کے قابل ہو سکتا ہے جب کہ اِس کائنات کی ہر شے اُسی خالق و مالک کے در کی
بھکاری ہے،جس کی مدد طلب کرنے کا ہم ہرلمحہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں!سورۂ رحمٰن
(۵۵) میں اﷲ تعالےٰ نے اِرشاد فرمایا ہے:’’آسمانوں اور زمین(کے چپہ چپہ
میں)جو شے بھی موجود ہے(اُس کی بارگاہ میں)دستِ سوال دراز کیے کھڑی ہے ( تو
دوسری جانب ان سائلوں کی دست گیری کرنے میں وہ ایک نئی شان کے ساتھ ہر دن (مسلسل
برسرِ کار ہے)۔‘‘(۲۹)اِسی طرح سورۂ حج (۲۲)کی ایک آیت بھی ہمارے لیے عبرت
کا سامان فراہم کرتی ہے:’’اے کرّۂ ارض کے باشندو!ایک تمثیل پیش کی جاتی
ہے،جسے توجہ سے سماعت کرو:اﷲ کے بجائے(یہ جو تم)جن جن کوپکارتے رہتے
ہو،یہ(سب کے سب) ایک مکھی کو معرض ِ وجود میں لانے کے لیے مجتمع ہو
جائیں(تو تم دیکھو گے کہ) وہ ایک مکھی کی بھی ہر گز تخلیق نہیں کر پائیں
گے۔(تخلیق تو دور کی بات ہے) اگر کوئی مکھی اِن سے کوئی شے جھپٹ لے جائے تب
بھی وہ اُس کی باز یافت نہیں کر سکیں گے۔(یہ تمثیل اِس حقیقت پر مہرتصدیق
ثبت کردیتی ہے کہ کس قدر)ضعف زدگی کا مارا ہوا ہے، طلب گار بھی اور وہ بھی
جس سے طلب کیا جارہا ہے۔‘‘(۷۳)۔
دراصل مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ وہ امیر ہو ں کہ غریب،صاحبِ مال
ہوں کہ تنگ دست اُنہیں بس عطا کرتے رہنا ہے،اﷲ کے ضرورت مند بندوں کو دیتے
رہنا ہے۔ اﷲ ایسے ہی رحم دل انسانوں کو پسند کرتا ہے۔کتاب اﷲ میں لیتے رہنے
کا کہیں ذکر ہی نہیں ملتا۔ سورہ ٔ آل عمران(۳) میں کتنے صاف الفاظ میں یہ
بات کہی گئی ہے:’’جولوگ ہر حال میں انفاق کرتے ہیں، خواہ بد حال ہوں یا
خوشحال، جو اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں، اورانسانوں کے قصوروں کو معاف کردیتے
ہیں۔ سلوکِ احسن کرنے والے ایسے ہی لوگ اﷲ کو بڑے محبوب ہیں۔‘‘(۱۳۴)۔
اِس انسانیت نواز تعلیم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی کچھ اس انداز میں ذہن
سازی کی گئی تھی کہ لوگوں کو دیتے رہنے کے اِس عمل کا کوئی صلہ حاصل کرنے
کی آرزو اُن کے حاشۂ خیال میں تک نہ آنے پائے۔بلکہ وہ لوگوں کو عطاکرتے
ہوئے اعلان کریں کہ یہ سب کچھ صلے سے بے نیاز ہو کر کیا جارہا ہے۔رب تعالےٰ
نے سورۂ دہر(۷۶)میں ہمیں اِس کا درس دیا ہے:’’(اپنے عطیات پراِن منکسر
المزاج انسانوں کا موقف یہی ہوتا ہے جس کا وہ بار باراپنے کردار سے اظہار
کرتے رہتے ہیں کہ:) درحقیقت تمہاری جانب ہمارا یہ دست تعاون بڑھانا ( حصولِ
رضائے الٰہی )کے لیے ہے،(ورنہ) ہم تم سے کسی صلے کے متمنی نہیں ہیں، نہ(اِس
کے کہ) تم ہمارے مشکور(یا ممنونِ کرم) ہو جاؤ۔ ‘‘(۹)
برا ہو مادہ پرستی کا کہ اُس نے بندگانِ خدا پر خرچ کرنے کونقصان کا سودا
باور کرایا اور قلاش ہو نے کے خوف کو لوگوں کے دلوں میں کچھ یوں بٹھایا کہ
لوگ بخیل سے بخیل تر بنتے چلے گیے ، جن میں کثیر تعداد میں اب مسلمان بھی
شامل ہیں ۔ حالانکہ سورۂ بقرہ (۲)میں صاف طور پربیان فرمایا گیا تھا: ’’جو
لوگ اپنے مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے،
جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو
دانے ہوں۔ اسی طرح اﷲ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ
دست بھی ہے اور علیم بھی‘‘(۲۶۱)۔اِسی طرح سورۂ طلاق(۶۵) کی اِن آیتوں میں
اﷲ نے مسلمانوں سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ :’’……اور جو اﷲ سے ڈر تا رہے گا
اپنی ہرسرگرمی میں،تقویٰ کرتا ہوگا،تو اﷲ پریشانی کے معاملات میں اُس کے
لئے باہر نکلنے کا راستہ( یعنی Exit )بنادیگا اور اسے ایسی جگہ سے رزق
Provisionsفراہم کریگا،جس کا اس نے سوچا بھی نہ ہوگا اور جوکوئی اﷲ پر توکل
کرتا ہو ، اُس پربھروسہ کرتا ہو،تو اﷲ اس کو کافی ہوجائے گا……‘‘(۴،۳)
آج ہم اپنی بد بختی کا رونا روتے پھرتے ہیں۔ ہمیں شکایت ہے کہ زمین میں
ہمیں قرار نصیب نہیں۔ہماری ہوا اُکھڑ گئی ہے۔لیکن ہمیں یہ تجزیہ کرنے کی
کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ یہ صورتحال آخر پیداکیوں ہوئی اور اس کے اسباب کیا
ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ جو قوم بندگانِ خدا کے لیے نفع بخش نہیں ہوتی وہ یا تو
دنیا میں بے اثر ہو کر رہتی ہے یا مٹا کر رکھ دی جاتی ہے۔ سوررعد (۱۳)کی
اِس آیت کا مضمون اِسی حقیقت پر دلالت کرتا ہے: ’’ اﷲ نے آسمان کی بلندیوں
سے بارش نازل کی،سو…… اپنی اپنی مقدار میں ندی نالے بہہ نکلے اور یہ
بہاؤجھاگ اُٹھا لایا یاپھولا ہواکچرا اور معدنیات سے زیورات اور قیمتی
کارآمد اشیاء بنانے کیلئے جب آگ میں تپایا جائے تو اُس میں بھی اسی طرح
جھاگ ابھرتا ہے۔ اس طرح بیان کرتا ہے اﷲ حق اور باطل کو۔ تو جو جھاگ یا
کچرا ہوتا ہے وہ سوکھ کرمعدوم ہوجاتا ہے اور جو انسانوں کے لئے نفع بخش
ہوتا ہے، اسے اﷲ زمین میں ٹھہراؤ عطا کرتا ہے،Establish کرتا ہے(اُسے)،اس
طرح بیان کرتا ہے اﷲ مثالیں۔ ‘‘ (۱۷)۔
ہم زمین پر بے اساس ہیں تو اِس کا سبب یہی ہے کہ ہم انسانیت کے لیے منفعت
بخش نہیں رہے۔ ہم مانگنے والی قوم بن کر رہ گیے، دینے والی نہیں۔ہم نے کتاب
اﷲ کو کیا چھوڑا کہ شیطان نے ہمیں اُچک لیا اور ہر چہار جانب سے یہی درس
ہمیں ملنے لگا کہ ہم کو اپنی زندگی مانگتے ہوئے گزارنی ہے۔ دُنیاسے ہمیں بس
لینا ہے، دنیا کو دینا نہیں ہے۔
یہ بھی تو سوچیے کبھی تنہائی میں ذرا دُنیا سے تم نے کیا لیا دنیا کو کیا
دیا……(حفیظؔ میرٹھی)
جس نبی (صلی اﷲ علیہ و سلم )کی پیروی کا ہمیں دعوی ہے، وہ کیا تھے، اور
اُنہوں نے کیا اُسوہ ہمارے لیے چھوڑا ۔ سورۂ انبیاء(۱۲) کی اس آیت میں خود
رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:’’ ہم نے(اے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم) آپ کو
سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ‘‘(۱۰۷)۔
رحمت بناکر بھیجے جانے کا مطلب کیا ہے؟یہی نا کہ دنیا جن کی کرم فرمائیوں
سے زیر بار ہو جائے۔کیا کوئی مانگنے والی قوم کسی کے لیے رحمت بن سکتی
ہے؟نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم خرچ کرنے سے متعلق گفتگوؤں کو آیاتِ قرآنی
اور احادیث کے ذریعہ اِس قدر عام فرما دیا تھا کہ آپ ؐ سے لوگ خود ہی حاضر
ہو کر پوچھتے رہتے کہ کیا اور کن مدوں پر خرچ کیا جائے۔!!جیسا کہ سورہ
بقرہ(۲) کی اِس آیت میں نظر آتا ہے:ــ’’ اے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم ،لوگ آپؐ
سے دریافت کرتے ہیں : ہم کیا خرچ کریں؟جواب دیجیے کہ جوخیر بھی(جیسے نیکی،
حسنِ سلوک، بھلائی، مال یا وقت) تم خرچ کرو، اپنے والدین پر، رشتہ داروں
پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرواور خیر(کے ان کاموں میں سے
) جوبھی کام تم انجام دو گے، اﷲ اُس سے باخبر ہوگا۔‘‘
(۲۱۵)۔پھر وارننگ بھی دیتے کہ کسی پر احسان جتانے کی ضرورت نہیں،سورۂ
بقرہ(۲) کی اِس آیت میں یہ وارننگ موجود ہے:’’اے ایمان والو! اپنے صدقات کو
، احسان جتا کر اورجذبات کو ٹھیس پہنچا کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ
ملادو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے۔‘‘(۲۶۴)۔
پھرکسی پر خرچ کرنے کی جو اسپرٹ تھی وہ سورہ ٔدہر( ۷۶)کی اِن آیتوں میں کچھ
اِس طرح بتائی گئی:’’ اور اﷲ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کوطعام
فراہم کرتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف اﷲ کی خاطر کھلا رہے
ہیں، ہم تم سے نہ بدلہ چاہتے ہیں نہ ہدیۂ شکریہ۔‘‘(۹،۸)۔
دوسری سورۂ بقرۃ(۲) کی اِس آیت میں نیکیوں کی جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ
یہ ہے کہ:’’محض، اپنے چہروں کومشرق و مغرب کی سمت پھیر لینے کا نام نیکی
نہیں ہے۔‘‘(۱۷۷)۔پھر اصل نیکیوں کی جو فہرست گنائی گئی ہے اِس کا بیشتر حصہ
لوگوں کو دینے ہی سے عبارت ہے جیسے حبِّ الٰہی کی بنیاد پراپنے اقرباء کی
مالی امداد،یتیموں کی مالی امداد،مسکینوں غریبوں اور محتاجوں کی مالی
امداد،مسافروں(یا راستوں میں مختلف مقاصد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والوں کی)
مالی ضروریات اور Public Utilities itemsسے جڑی خدمات پر خرچ ،دستِ سوال
دراز کرنے والوں کی (بخوشی)مالی اعانت،متنوع Liabilities کے نرغے میں پھنسے
ہوئے لوگوں(یاقیدیوں) کا مالی (و قانونی) تعاون……،زکوٰۃ کی ادائیگی کا
اہتمام……‘‘
اپنے اپنے زمانوں میں دیگر پیغمبروں نے بھی کبھی اقتدارِ وقت سے کوئی حقوق
طلب نہیں کیے۔ قرآن حکیم نے جن جن پیغمبروں کے تذکرے رکارڈ کیے ہیں ، یہ سب
کے سب اِس حقیقت پر گواہ ہیں ۔ہر پیغمبر نے اپنے سرکش مخاطبین سے یہی کہا
کہ میں جو کچھ پیش کر رہاہوں ، اِس کا تم سے میں کوئی اجر نہیں چاہتا۔میرا
اجر تو اﷲ کے پاس محفوظ ہے۔
آخر میں ہم وہ مقدس Statement پیش کریں گے جن میں نہایت واضح الفاظ میں
حضور صلی اﷲ علیہ و سلم نے مسلمانوں کے طرزِ زندگی کو ایک صحیح سمت عطا کی
تھی اور آج بھی ان امور کے مطابق اپنی زندگی کا لائحہ عمل متعین کرنے میں
ہماری عزت و آبرو کی بازیابی اور ہماری بقا کی ضمانت مضمر ہے:
’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے رب نے مجھ کو نو
باتوں کا حکم دیا ہے:۱)…… چھپے اور کھلے، ہر حال میں اﷲ سے ڈرتا
رہوں۔۲)……ناراضی اور خوشی ، ہر کیفیت میں انصاف کی بات کروں ۔۳)…… تنگ دستی
اور مالداری،ہر حالت میں میانہ روی اختیار کروں۔ ۴)…… جو مجھ سے کٹے ،میں
اس سے جڑوں ۔۵)…… جو مجھے محروم رکھے ،میں اسے عطا کروں۔۶)…… جو مجھ پر ظلم
کرے ، میں اسے معاف کردوں ۔ ۷)…… میری خاموشی غورو فکر کے لئے ہو۔۸)…… میرا
بولنا اﷲ کی یاد اور ذکر کے تحت ہو۔۹)…… میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو،
معروف اور اچھی باتوں کا حکم کرتا رہوں اور منکرات اور بری باتوں سے منع
کرتا رہوں۔‘‘
گدائی رب کے در کی کیا بھلا دی
اُٹھا رکھے ہیں ہم نے کتنے کاسے……(عزیزبلگامی)
کیا ہم اِن’’ کاسوں‘‘ کوکسی دور دراز کے گہرے کالے سمندر میں پھینک آنے کے
کبھی قابل بھی بن پائیں گے؟……کیاہم اپنے رب کی رحمتوں کے طلبگار بھی کبھی
ہو سکیں گے۔؟یا اﷲ، مالک |