لاہور کا ضمنی الیکشن کا معرکہ ……کون سر کرگیا ؟

لاہور کے ضمنی انتخابی دنگل کے لیے تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے درمیان گھمسان کا رن جاری ہے ،اور دوسرے کو چاروں شانے چت کرنے کے لیے دونوں جماعتیں، تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون سردھڑ کا بازی لگا رہی ہیں،گیارہ اکتوبر کی شام بیلٹ بکسز کے نتائج ایاز صادق کو جتوائیں یا کامیابی کا تاج علیم خان کا مقدر بنا دیں، ہر فریق ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیر نے میں ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کی کوشش میں ہے، دونوں جانب سے روپیہ پیسہ سیلاب کے پانی کی طرح بہا جا رہا ہے ،پابندی کے باوجود وفاقی و صوبائی وزراء ایاز صادق کی انتخابی مہم کے معرکہ میں کود پڑے ہیں، ظاہر ہے جہاں وفاقی و صوبائی وزرا ہونگے وہاں سرکاری وسائل بھی بروئے کار آئیں گے اس سے سرکار کو فائدہ ہو نہ ہو مگر سرکاری مشینری اور وسائل استعمال کرنے کا پراپیگنڈہ کرنے کا مخالفین کو بہترین موقعہ ہاتھ لگ گیا ہے، تحریک انصاف نے لاہور میں سمن آباد کی ڈونگی گراونڈ میں جلسہ کیا جس سے عمران خاں سمیت صف اول کی تمام قیادت بشمول ’’ونگارے‘‘ ہوئے شیخ رشید احمد پنڈی وال نے خطاب کیا اور لاہوریوں کے جذبے اور ولولے کے ساتھ ساتھ انکے لہو کو خوب گرما،جبکہ مسلم لیگ نون اس ھوالے سے کوئی بڑا جلسہ ابھی تک نہیں کرسکی، البتہ حمزہ شہباز ،عابد شیر علی، خواجہ سعد رفیق سمیت بہت سے جوشیلے مقرر لاہوریوں کو ایاز صادق کو وٹ دینے کی طرف راغب کرنے کو جہد مسلسل کررہے ہیں ،لگتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور شہباز شریف کی جانب سے انہیں ’’ لاہور پر قبضہ‘‘برقرار رکھنے کا خصوصی ٹاسک دیا گیا ہے۔

دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزامات لگائے جا رہے ہیں، ہاں ایک بات جو مسلم لیگ نون کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی موجب بن رہی ہے وہ یہ کہ لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں کمی نہ ہونا ہے، تحریک انصاف عوام کو وزیر اعلی شہباز شریف کے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے دو ہزار تیرہ کے انتخابی مہم اور اسکے قبل زرداری حکومت کے خلاف ’’تمبو‘‘ سٹنٹ کے دوران کیے گئے وعدے یاد دلا رہی ہے، جبکہ مسلم لیگ نون کے وزرا اور راہنما لاہور کے ترقیاتی منصوبوں کو پیش کرکے حلقہ این اے 122کو سر کرنے کی کوشش میں ہے،نتیجہ کیا نکلتا ہے اسکا گیارہ اکتوبر کی شام تک انتظار کرنا ہوگا مجھے تو لگتا ہے کہ مسلم لیگ اس معرکہ کی فاتح قرار پائے گی کیونکہ مسلم لیگ کے امیدوار ایاز صادق کو بہت سارے Advatige حاصل ہیں، یہ میرا محض قیاس اور حالات کا تجزیہ ہے، اور یہ خوف بھی دامن گیر ہے کہ مسلم لیگ اس انتخابی معرکے کو کسی قیمت پر بھی ہارنے کو تیار نہیں ہوگی کیونکہ لاہور جو مسلم لیگ کا گڑھ ہے وہاں سے اہم عہدے پر رہنے والیشخصیت ایاز صادق کا شکست سے دوچار ہوجانا مسلم لیگ نون کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا-

اس معرکے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ معرکہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے مابین ون ٹو ون لڑا جا رہا ہے ، ون ٹو ون اس لیے کہ اس حلقے میں پیپلز پارٹی کہیں دور دور تک کھڑی دکھائی نہیں دے رہے اور نہ ہی کو اور سیاسی جماعت اور کوئی بڑا ہیوی ویٹ آزاد امیدوار مدمقابل ہے، مزے کی بات یہ بھی ہے کہ اس حلقے سے عمران خاں کے فسٹ کزن علامہ طاہر القادری کی عوامی تحریک کا بھی ایک امیدوار سکوٹر کے انتخابی نشان پر میدان میں موجود ہے، ایک اور بات جسے نظرانداز کرنا درست نہ ہوگا وہ یہ کہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف خود بڑی سیاسی جماعتیں ہونے کا دعوی کرتی ہی نہیں بلکہ حقیت بھی یہی ہے لیکن اس کے باوجود دونوں جماعتیں دوسری چھوٹی موٹی سیاسی و مذہبی تنظیموں کی حمایت و تعاون کے حصول کے لیے دوڑ دھوپ میں مصروف ہیں تحریک انصاف جماعت اسلامی ،وحدت مسلمین اور دیگر سے اور مسلم لیگ ا نون اپنے پرانے اتحادیوں کے ناز نخرے اٹھا رہی ہے اور انکے مطالبات و مفادات کو پورا کرنے کے وعدے ہی نہیں بلکہ انہیں پورا کرنے کے احکامات بھی جاری کیے جا رہے ہیں ۔

اگر یہ کہا جائے کہ اکیلی مسلم لیگ نون انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر رہی ہے تو یہ حقائق کو جھٹلانے والی بات ہوگی کیونکہ تحریک انصاف کے امیدوار اس میں پیچھے نہیں ۔اسکی وجوہات میں اوپر بیان کرچکا ہوں کہ دونوں نے اس ضمنی انتخاب کو زندگی اور موت کا مسلہ بنایا ہوا ہے خصوصا مسلم لیگ اس ضمنی انتخاب کو ہر صورت اپنے نام کرنا چاہتی ہے کیونکہ یہاں سے اس کی شکست اسکے لیے بہت سارے مسائل کھڑے کردے گی حالانکہ اس انتخاب کو جیت بھی جائے تب بھی اس پر تنقید ہوتی رہے گی کیونکہ وہ برسراقتدار پارٹی ہے اور اسکے وزرا اس میں پوری طرح مصروف کار ہیں، اسلیے بہتر تو یہی ہوگا کہ مسلم لیگ اس انتخاب کو اپنی انا اور عزت کا سوال نہ بنائے کیونکہ اس انتخاب میں ہارنے سے کم از کم اس پر دھاندلی کے الزامات کی انگلیاں تو نہیں اٹھیں گی-

دونوں سیاسی جماعتوں کو سارا زور اس انتخاب کو متناعہ بنانے سے بچانے پر دینا چاہیے اورایک دوسرے پر گندے اور ایسے االزامات لگانے سے اجتناب برتنا چاہیے جنہیں ثابت نہ کیا جا سکے اور محض عوام کو گمراہ کرنے کا مقصد پیش نظر ہو، کیونکہ ایسے طرز عمل سے جمہوریت اور سیاست دونوں بدنام ہوتی ہیں اور سیاسی جماعتیں اور سیاستدان کمزور ہوتے ہیں سب سے اہم بات یہ کہ ایسے انداز سیاست سے ہمیشہ غیر سیاسی عناصر فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ ہمارے ماضی سے عیاں ہوتا ہے۔ عالمی برادری بھی ہماری ایسی سیاست پر ہنستی ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ کو یہ پراپیگنڈا کرنے کا موقعہ ہاتھ لگ جاتا ہے کہ پاکستانی سیاستدان جمہوریت کو چلانے کے قابل نہیں…… نواز شریف اور عمران خاں اور دیگر سیاسی قائدین کو اس بات کی طرف توجہ دینا کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جمہوریت کا تسلسل سے جاری رہنا ہی ہم سب کے مفاد میں ہے۔ ہر کھیل کی طرح انتخابات کے میدان میں بھی ہار جیت ،فتح و شکست لازی ہے لہذا جس طرح بہترین کھلاڑی ایمپائر کے غلط فیصلوں کے باوجود اپنی ہار تسلیم کرکے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتا ہے اسی طرح سیاستدانوں کوبھی انتخابی نتائج کو تسلیم کرکے سپورٹس مین سپرٹ کا ثبوت دینا چاہیے۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144534 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.