ماہِ محرم الحرام و عاشورہ کی فضیلت و اہمیت

اسلامی سال کا پہلا مہینہ جسے محرم الحرام کہا جاتا ہے اپنے گوناگوں پیچ و خم، عشق و وفا، ایثار و قربانی اور بے شمار فضیلت ومرتبت کی دولتِ بے بہا سے معمور و سربلند ہے۔ محرم الحرام کے مہینے میں ایک دن ایسا بھی ہے جسکے مراتب و فضائل کلام الٰہی قرآن مجید و احادیث نبویہ اور سیرت و تاریخ کی کتابوں میں بھرے ہوئے ہیں۔ وہ دن ’’ یومِ عاشورہ‘‘ کہلاتا ہے۔ ارشادِ باری ہے پارہ 10 سورہ توبہ آیت نمبر 36ِترجمہ: بے شک مہینوں کی گنتی اﷲ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں۔ اﷲ کی کتاب میں جب سے آسمانوں اور زمین کو بنایا، ان میں سے چار مہینے حُرمت والے ہیں ۔ یہ سیدھا دین ہے، تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کروــ،‘

اس آیت کریمہ میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قمری سال کے مہینوں کی تعداد کا ذکر فرمایا اور حُرمت کا اعلان فرمایا ہے اور اس بات کی وضاحت کی ہے کہ بلا شبہہ اﷲ نے مہینوں کی تعداد بارہ ہی مقرر فرمائی ہے۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے ایسے ہیں جن کو اﷲ نے خصوصی فضیلت اور حرمت (بڑائی) سے نوازا ہے ان چار مہینوں کو حرمت والے مہینوں کا نام دیا جاتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فتح مکّہ سے قبل جب مسلمان مدینہ منورہ پہنچنے لگے تو کہنے لگے کہ کہیں مکہ کے کافر حرمت والے مہینے میں ہمارے ساتھ جنگ نہ شروع کر دیں تو اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرً …… نازل فرمائی۔

خطبہ حجتہ الوداع : حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ‘ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ۱۰ ذوالحجہ کو خطاب کیا اور فرمایا: زمانہ چکر کاٹ کر اسی ہیّت پر آگیا، جس ہیّت (حالت) پر آسمان و زمین کی پیدائش کے دن تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہے، جن میں سے چار حُرمت (بڑائی) والے ہیں۔ تین پے در پے یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام اور ایک رجب المرجب (تفسیر مظہری جلد 5 صفحہ 272 ۔ تفسیر روح البیان جلد 3 صفحہ 421 ) یومِ عاشورہ کا لفظی معنیٰ دسواں دن یا دسویں تاریخ ہے۔ مگر اب عرف عام میں یومِ عاشورہ کا اطلاق محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو ہوتا ہے جس دن حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ‘ نے اپنے 72 نفوس قدسیہ کے ساتھ مذہب اسلام کی خاطر حق کیلئے راہ خدا میں جامِ شہادت نوش فرمایا تھا۔

یومِ عاشورہ کے فضائل :
یومِ عاشورہ کے فضائل کے تعلق سے صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ عنہ‘ فرماتے ہیں کہ مجھے اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس پر غالب گمان ہے کہ عاشورہ کا روزہ ایک سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ، اسی فضیلت کے متعلق حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم ماہِ رمضان کے علاوہ روزہ رکھنا چاہتے ہو تو عاشورہ کا روزہ رکھو کیونکہ یہ اﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ اس ماہ کی فضیلت قرآن پاک میں آئی ہے اور اس مہینہ میں ایک دن ایسا بھی ہے جس میں اﷲ سبحانہ‘ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور دوسری قوم کی توبہ کو قبول فرمائے گا۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ‘ نے فرمایا کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس بات کی طرف رغبت دلائی کہ وہ یومِ عاشورہ کو (توبتہ النصوح) کی تجدید کریں اور اﷲ کی بارگاہ میں توبہ استغفار کی قبولیت کے لئے خوب گڑ گڑائیں۔ کیونکہ اس دن جس نے بھی اﷲ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہی تو اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ جس طرح اس سے پہلے والوں کی توبہ قبول فرمائی تھی۔ یومِ عاشورہ پر بزرگانِ دین کی بہت سی کتابیں موجود ہیں۔ یومِ عاشورہ اپنی بے شمارنعمتوں اور ان گنت فضیلتوں سے مالا مال ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اس دن کو متبرک اور بہت خیر و برکت والا بتایا ہے۔ اس کا اندازہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ‘ کی کتاب ’’ ماثبت بالسنتہ ‘‘ جس میں آپ لکھتے ہیں کہ ’’ ابن جوزی نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنھماسے ذکر فرمایا کہ محرم کی دسویں تاریخ ایسی منفرد اور بے مثال تاریخ ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا ٭ اس دن ان کو جنت میں داخل کیا اور اسی دن ان کی توبہ قبول فرمائی۔ اسی دن عرش و کرسی، جنت و دوزخ، زمین و آسمان، چاند و سورج، لوح و قلم کو پیدا فرمایا۔ اور بعض علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ یوم عاشورہ کو یہ نام اس لئے دیا گیا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس دن دس انبیاء کرام علیھم السلام کو دس عظمتوں سے نوازا ( غنیتہ الطالبین صفحہ 55)

یومِ عاشورہ کا دوسرا نام :
یومِ عاشورہ کو ’’یومِ زینت‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس دن کا یہ نام حدیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے۔ عَنْ اِبْنِ عُمَرِ (رضی اﷲ تعالیٰ عنھما) قَا لَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّیٰ اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَنْ صَامَ یَوْمَ الزِّیْنَتِ اَدْرَکَ مَا فَاتَہُ مِنْ صِیَامِ السَّنَۃِ ۔۔ (یعنی یومِ عاشورہ) ترجمہ: ابن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے یومِ زینت یعنی یومِ عاشورہ کا روزہ رکھا اس نے اپنے باقی سال کے فوت شدہ کو بھی پا لیا، ( غنیتہ الطالبین جلد 2 صفحہ 54 ، ما ثبت من السُنَّتہ صفحہ 10)

یومِ عاشورہ کے اہم واقعات:
اﷲ تعالیٰ نے اس دن آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی ٭ حضرت ادریس علیہ السلام کو اس روزمقامِ بلند کی طرف اُٹھا لیا ٭ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اس روز جودی نامی پہاڑ پر ٹھہری تھی۔ ٭ اسی روز حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل بنایا اور انہیں اسی روز نارِ نمرود (آگ) سے محفوظ فرمایا۔ ٭ ااسی روز حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ اﷲ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ ٭ اسی روز حضرت سلیمان علیہ السلام کو حکومت واپس ملی، ٭ اسی یومِ عاشورہ کو ہی اﷲ تعالیٰ نے حضرت ایوب السلام کی تکلیف دور فرمایا ٭ عاشورہ کے دن ہی اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سلامتی سے سمندر پار کرایا اور فرعون کو غرق کر دیا تھا۔ ٭ یہی دن تھا جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات عطاء فرمائی تھی ۔ ٭ اسی دن اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا تھا۔ ٭ اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹائی گئی اور بنی اسرائیل کیلئے دریا میں راستہ اسی دن بنایا گیا تھا۔ ٭ آسمان سے زمین پر سب سے پہلی بارش یومِ عاشورہ کو ہی نازل ہوئی تھی حتیٰ کہ حدیث پاک کے مطابق قیامت بھی اسی دن آئے گی، اسی دن کا روزہ بھی پہلے فرض تھا اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے اسی دن کا روزہ رکھا اور اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اس دن کا روزہ رکھا تو وہ چالیس سال کا کفارہ ہوگا اور جس نے عاشورہ کی رات عبادت کی گویا اس نے ساتوں آسمان والوں کے برابر عبادت کی۔٭ اسی یوم عاشورہ کے دن قریش خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے اور اسی یوم عاشورہ کے دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ رسول ﷺ و جگر گوشہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو کربلا میں شہید کیا۔ اپنے وقت کے نابغہ روزگار و مایہ ناز فقیہ حضرت ابراہیم ابن محمد کوفی نے فرمایا کہ جس نے یوم عاشورہ کو اپنے عزیز و اقارب و اہل و عیال کو خوش رکھا اور ان پر خوش دلی اور دریا دلی کے ساتھ خرچ کیا تو اﷲ پاک پورے سال کو اسکے لئے خیر و برکت و فراخی رزق مقرر فرما دیتا ہے۔ مفسرین فقہا و علماء فرماتے ہیں کہ عاشورہ کے دن اگر کسی شخص نے یتیم و مسکین کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا تو اﷲ تعالیٰ اس کے بالوں کی مقدار کے مطابق ثواب عطاء فرمائے گا۔ (نزھتہ المجالس صفہ 347 جلد اول۔۔ غنیتہ الطالبین جلد دوم صفحہ 55)

یومِ عاشورہ کے اعمال :
یومِ عاشورہ کا روزہ بہت فضیلت رکھتا ہے ۔ یوم عاشورہ کا روزہ اسلام سے قبل اہل مکہ اور یہودی لوگ بھی رکھا کرتے تھے۔ حضرت عروہ رضی اﷲ عنہ‘ سے مروی ہے کہ اُمُ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا ’’ قریش زمانہ جاہلیت میں یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے آپ ﷺ بھی زمانہ جاہلیت میں اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ پھر جب حضور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے ، تب یومِ عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا گیا، جس کا جی چاہے وہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے، چنانچہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ عاشورہ کے دن انبیاء کرام روزہ رکھا کرتے تھے۔ حضور محسن کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔اور فرمایا نو ، دس کا رکھو یادس،گیارہ کا رکھو۔

صُوْ ْمُو یَوْمَ عَا شُوْرَآءَ یَوْمَ کَا نَتِ الْاَ نْبِیْآ ءُ تَصُوْ مُہ‘ (ترجمہ) : عاشورہ کے دن کا روزہ رکھو، کیونکہ یہ وہ دن ہے کہ اس کا روزہ انبیاء کرام رکھتے تھے۔ (الجامع الصغیر جلد 4 صفحہ 215) یومِ عاشورہ کا روزہ رکھنا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے عام معمول میں شامل تھا اور آپ اس دن کا روزہ خاص اہتمام کے ساتھ رکھتے تھے۔ ایک حدیث پاک میں حضورنبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے چار معمولات کا ذکر ہے کہ آپ ﷺ انہیں کبھی ترک نہ فرماتے تھے۔ ان چار معمولات میں ایک یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا بھی ہے۔ روایت اس طرح سے ہے کہ حضرت حفصہ رضی اﷲ عنھافرماتی ہیں کہ چار چیزیں ایسی تھیں جنہیں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی ترک نہیں کیا۔ یومِ عاشورہ کا روزہ اور ذو الحجہ کا عشرہ یعنی پہلے نو دن کا روزہ اور ہر ماہ کے تین روزے (یعنی ایام بیض) کے روزے اور فرض نماز فجر سے پہلے دو رکعت (یعنی سنّتیں) (رواہ النسائی و مشکواۃ شریف صفحہ 180) جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اسے ایک ہزار شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ اور ایک روایت کے مطابق ساتوں آسمانوں میں بسنے والے فرشتوں کا ثواب ملتا ہے۔ جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اﷲ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں 60 (ساٹھ) سال کی صوم و صلواۃ کی صورت میں عبادت کا ثواب لکھ دیتا ہے۔ (غنیتہ الطالبین جلد 2 صفحہ 53)

یوم ِ عاشورہ میں دسترخوان وسیع کرنا:
عاشورہ کے دن سخاوت کرنا یعنی غریب پروری کرنا، اپنے گھر کے دسترخوان کو وسیع کرنا، گھر والوں پر خرچ کرنا رزق کے اندر وسعت و فراخی کا باعث بنتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے سیدنا حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ‘ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے عاشورہ کے دن اپنے اہل و اعیال پر نفقے (خرچ) کو وسیع کیا اﷲ پاک سارا سال اس پر رزق کی وسعت فراخی (زیادتی) فرماتا ہے۔ حضرت سفیان ثوری رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اسے بالکل ایسے ہی پایا۔ (مشکواۃ شریف صفحہ 170 غنیتہ الطالبین جلد 2 صفحہ 54) کشادگی رزق والی حدیثیں مختلف روایتوں کے ساتھ ملتی ہیں۔روایات کی کثرت اس حدیث مبارکہ کی صحت کو ثابت کرتی ہیں۔

یومِ عاشورہ اور واقعہ کربلا:
یومِ عاشورہ ماہِ محرم الحرام کا دسواں دن مندرجہ بالا فضیلتوں و باتوں کے برعکس اپنے اندر ایک بالکل مختلف پہلو بھی رکھتا ہے۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ اسی دن سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کے چھوٹے نواسے حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ‘ کو میدان کربلا میں شہید کر دیا گیا۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نہایت شفقت آمیز لہجہ میں ارشاد فرمایا کہ ’’ حسن اور حسین میرے لئے دو مہک (خوشبو) دار پھول کی مانند ہیں‘‘ اسی حدیث پاک کی ترجمانی حضرت مولانا احمد رضا خان قدس سرہ فرماتے ہیں
کیا بات ہے رِضَا اس چمنستانِ کرم کی
زہر اہے کلی جس میں حسین و حسن پھول

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اتنے زیادہ محبوب ان دونوں نواسوں میں حضرت حسین رضی اﷲ کو حضور ﷺ کے وفات کے کم و بیش 50 سال کے عرصہ کے بعد 60 ھجری میں 10محرم الحرام کو شہید کر دیا گیادسویں محرم یعنی عاشورہ کے دن نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دی ہوئی مٹی شیشی (بوتل) کے اندر خون ہوگئی۔ ترمذی شریف جلد دوم میں ہے کہ دس تاریخ (یوم عاشورہ) کو ایک عورت حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہاکی خدمت میں مدینہ شریف کے اندر حاضر ہوئی اسنے دیکھا حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہااشک بار ہیں عورت نے رونے کی وجہ پوچھی تو حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہانے بیان کیا کہ میں نے ابھی ابھی خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سر اور ریش مبارک (داڑھی) مبارک گرد و غبار سے الجھے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کیا اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کیا بات ہے۔ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ابھی میں کربلا سے آ رہا ہوں آج میر ے حسین کو شہید کر دیا گیا۔ حضرت اُم المو منین رضی اﷲ عنہانے فرمایا کہ مجھے وہ مٹی یاد آ گئی جو حضرت حسین رضی اﷲ عنہ‘کی پیدائش کے وقت حضرت جبرائیل امین نے میدان کربلا سے لا کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو دی تھی اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے وہ مٹی مجھے دے کر فرمایا تھا کہ ’’ اے اُم سلمہ اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھو، کیونکہ جس دن میرا حسین شہید ہوگا یہ مٹی بھی خون ہو جائے گی۔‘‘ آج جب میں نے دیکھا تو وہ مٹی خون ہو چکی ہے جسے میں نے ایک شیشی کے اندر سنبھال کر رکھا تھا۔ آخیر کیسا تھا وہ بر گزیدہ اﷲ کا بندہ جس نے باطل حکمرانوں کے آگے سر نہ جھکایابے یار و مددگار ہو جانے کے باوجود اﷲ کے شیدائی نے محض اپنے رب سے لو لگائے ہوئے شہید ہو جانے کو نہایت جوانمردی کے ساتھ قبول کر لیا اور اپنے بعد آنے والی اُمت کے سامنے یہ مثال پیش کر دی کہ باطل قوتیں اور طاغوتی طاقتیں اسلئے نہیں ہوا کرتیں کہ امت مسلمہ کا کوئی فرد ان سے خوف کھا کر ان کے سامنے جھکنے کو تیار ہو جائے یا گوارا کر لے۔ امت مسلمہ کے ہر فرد کا تو یہی عمل ہونا چاہیے کہ وہ ہر باطل سے لڑ کر صرف حق کی سر بلندی کی تگ و دو میں لگا رہے اور خالقِ کائنات کے آگے سربہ سجود ہو جائے۔ واقعہ کربلا کے اس واضح پیغام سے ہمیں اپنے آپ کو مالامال کرناچاہئے اور اس تاریخ ساز مبارک دن کو کھیل تماشہ میں نہیں گذارنا چاہیے۔کیونکہ اس دن کو ایسی ذات سے نسبت ہے جس کی قربانی ملتِ اسلامیہ کو ماتم و نوحہ خوانی کی طرف دعوت دیتی ہے بلکہ وہ درسِ عبرت دیتی ہے کہ اپنے نظام حیات کے اصولوں پر قائم و ثابت قدم رہیں اور اﷲ کی بارگاہ میں یقین و ایمان ، جذبہ ایثار، اور امید و رجاء کے عظیم سرمایہ حیات کو پیش کرتے رہیں کیونکہ اس میں کامیابی و کامرانی کے ر از مضمر ہیں۔ اﷲ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو یومِ عاشورہ وو اقعہ کربلا شہادتِ امام حسین رضی اﷲ عنہ‘کے سلسلہ میں صحیح سوچ اور صحیح فکر عطاء فرمائے آمین! اور ہم گناہ گاروں کو راہِ راست و راہِ اعتدال پر قائم و دائم فرمائے۔ آمین! ثم آمین
Mohammad Hashim Quadri Misbahi
About the Author: Mohammad Hashim Quadri Misbahi Read More Articles by Mohammad Hashim Quadri Misbahi: 167 Articles with 195886 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.