مدینہ طیبہ کی پُرکیف ساعتیں

حجِ بیتُ اﷲ شریف کی ادائیگی اور بعد ازاں ایک ہفتہ مکہ مکرمہ میں گزارنے کے بعد پانچ اکتوبر کو مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہوئی۔ یہ سطور بھی دیّارِنبی ﷺ سے ہی ضبطِ تحریر میں لائی جا رہی ہیں۔ جوں ہی حرمِ مدینہ شریف میں داخل ہوئے اور نظریں مسجدِ نبوی شریف کے میناروں پر پڑیں تو وہ کیف و سرور ملا جسے بیان کرنے کے لیے الفاظ نا کافی ہیں۔جب مدینہ طیبہ کی حدود میں داخل ہو رہے تھے تو ہما رے قافلے کے سالار مولانا صاحبزادہ غلام جیلانی کی پُرسوز آواز میں قصیدہ محمدیہ اور قصیدہ بُردہ شریف کی صدائے النواز نے اِک نیا ہی سماں باندھ دیا۔ ہر آنکھ اشکبار اور چہرہ تلملاتا دکھائی دے رہا تھا، ایسے میں جب گُنبد خضریٰ کا دیدار ہوا تو ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ایمان کو جلا اور قلب کو سُکون کی ایک خاص کیفیت مل گئی۔ مرشدِقلب ونظر آقائے نامدار محمد رسول اﷲ ﷺ کی بارگاہ کے ادب و احترام کا خیال رکھنا ہر حال میں لازم ہے۔ آپ ﷺ کا ادب و احترام خود رب ِذوالجلال نے قرآن پاک کی سورہ الحجرات میں اہل ایمان کو سکھایا ہے۔ اِس بارگاہ کی ذرہ سی گُستاخی زندگی بھر کی نیکیوں کو غارت کر دیتی ہے۔ نبی کریم ﷺ سے عشق و محبت کا تعلق، آپ کی اطاعت شعاری اور ادب ملحوظِ خاطر رکھنا ایمان کی حفاظت کے لیے ازحد ضروری ہے۔

مسجدِ نبوی شریف کے کئی دروازے ہیں۔ جب مواجہ شریف میں سلام عرض کرنے کے لیے حاضری کا ارادہ ہو تو بابُ السلام سے اندر جانا ہو تا ہے۔ دیواروں پر نبی کریم ﷺ کے اسماء حسنیٰ اور کچھ احادیث مبارکہ کے خوبصورت نقوش ہیں۔ روضہ مبارک کی دیوار پر اور داخلی دروازے پر آپ ﷺ کا یہ ارشادمبارک لکھا ہے ’مَا بَیْنَ بَیْتیِ و مِنبری رَوضَتہَّ مِن ریاضِ الجنِّتہ ‘ کہ میرے گھر اور منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے باغ ہے۔حدیث کی شرح کرنے والے محدثین نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ اپنے حجرہ مبا رکہ سے چل کر منبر تک نماز کی امامت اور خطبات کے لیے تشریف لاتے ۔ جہاں جہاں آپ ﷺ کے قدم مبارک لگے اﷲ کریم نے اس جگہ کو جنت کا ٹکرہ بنا دیا۔ اِن دنوں رش کا فی ہے، البتہ رات کے تیسرے پہر اور صبح نو بجے کے قریب ریاض الجنتہ میں بیٹھنے اور نوافل کی ادائیگی کا موقع قدرے آسانی سے مل جاتا ہے۔ ہمہ وقت ریاض الجنتہ کے ارد گرد ہجومِ عاشقان نظر آتا ہے۔ ہر ایک بے تابی سے منتظر ہوتا ہے کہ وہ کون سا لمحہ کہ اِس مقدس مقام کی حاضری نصیب ہو۔ بعض اوقات دھکم پیل کی صورت میں بے احتیاطی کے مظاہرے بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو یقینا اس مقام کے تقدس کے منا فی ہیں کیونکہ
ادب گا ہسیت زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ مے آید جنید ؓ و با یزید ؓ ایں جا
(آسمان کے نیچے یہ جگہ عرش عظیم سے بھی زیادہ نازک ہے۔ حضرت جنید بغدادی ؓاوربایزیدبسطامیؓ جیسے اولیاء کا ملین بھی یہاں اپنے سانس تک پر قابو رکھتے تھے کہ کہیں سانس کا بے ربط آنا جانا بھی بے ادبی شمار نہ ہو)۔ حضور ﷺ کے قدمین شریفین کی سمت بیٹھے ایک صاحب نظر شخصیت سے ملاقات ہوئی تو فرما نے لگے کہ ’نبی مکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے ہر اہل ایمان کو محنت اور کاوش سے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے، جو لوگ مخلوق خدا پر ظلم کرتے اور نبی ﷺ کی سُنتوں کا لحاظ نہیں رکھتے یا خدانخواستہ ان کا مذاق اُڑاتے ہیں آپؐ ان کی اطراف نظر التفات نہیں فرماتے ‘ ۔ یہ حاضری روایتی طرز پر نہ ہونی چاہیے بلکہ اس عقیدے اور نظریے کا ساتھ حاضر ہو کہ میرے پیارے آقا ومولیٰ ﷺ میرے سلام کا جواب ارشاد فرماتے ہیں بلکہ ہمارا نامہ اعمال آپؐ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ آپؐ ہمارے ایمان کی حقیقت اور کیفیت سے بھی آگاہ ہیں۔ مواجہ شریف کے سامنے جب اس مقام پر حاضری نصیب ہوتی ہے، جہاں سبز دائرے میں ’’رسول اﷲ ‘‘ لکھا ہے تو یہ تصور کر کے آپ ﷺ اِس طرف دیکھ رہے ہیں۔ اِس وقت موبائیل پر تصویریں بنا نا یا فون پر کسی اور سے مخاطب ہونا ہر گز روا نہیں۔ ساتھ ہی دو اور دائروں میں ابو بکر صدیق ؓ اور عمر فاروق ؓ کے نام لکھے ہیں، ان دائروں کے بالکل سامنے ان عظیم المرتبت اصحاب رسول ؓ کے مرقدانوار ہیں۔

گُنبدِ خضری ٰ کے سامنے جنت البقیع کا قبرستان ہے، یہاں حضور ﷺ کی ازواجِ مطہرات، آل بیت اطہار اور جلیل القدور صحابہ کرام ؓ کی قبور ہیں۔ عصر اور فجر کی نما ز کے بعد اس قبرستان کے دروازے زائرین کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔ ترکوں کے دور حکو مت میں یہاں قبور پر کتبے اور قبے موجود تھے لیکن اب کچھ بھی نہیں جس کی وجہ سے قبروں کی نشاندہی بھی کوئی واقف حال ہی کر سکتا ہے۔
منافی اﷲ ہوتے ہیں منافی المصطفیٰ ہو کر
خدا کو ڈھونڈنے والے نبیؐ کے در پہ آتے ہیں۔
 
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 241038 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More