پاکستان میں حقیقی سیاسی کردار کی بحالی کی ضرورت!

ملک کی اصل طاقت ہی وہ سیاسی کردار ہوتا ہے جو عوام کے ذریعے ملک کوعملی اقدامات اور پالیسیوں کے لئے فکر و عمل کی مضبوط اور پائیدار راہیں،فراہم کرتا ہے۔جس طرح آئین و قانون کی مکمل پاسداری کو یقینی بنانا،ملک میں بدترین طبقاتی نظام اور محض عوام کو ادنی مقام پر مخصوص رکھنے کی صورتحال کا خاتمہ ملک کی سلامتی اور بقاء کے لئے لازمی عناصر کی حقیقت کے طور پر سامنے ہیں، اسی طرح یہ بات بھی ناگزیر ہے کہ ملک میں حقیقی سیاسی طریقہ کار کی ترویج کی جائے،سیاسی جماعتوں کو شخصی،خاندانی حاکمیت کے بجائے سیاست کے مروجہ طریقہ کار کا پابند کیا جائے
ملک میں سیاست کو بدنا م کہنا کسر نفسی کہلا سکتا ہے کہ اسے رسوائے زمانہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔کیا تمام ملکوں میں سیاست اتنی ہی بد کردار ہوتی ہے؟پاکستان کا سیاسی کردار تو مضبوط تھا،اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کمزور اور ختم کر کے اس سیاست کی داغ بیل ڈالی گئی جس کی بدترین صورتحال ملک و عوام کو درپیش ہے۔اس نقصاندہ سیاست کے نقصانات گنواتے ہوئے اسے ناکارہ اور غیر مفید قرار دیتے ہوئے تمام اداروں اور محکموں کے چلن کو عوام اور ملک میں مفاد میں قرار دینا کافی مشکل ہو جاتا ہے ۔فوج کی بالا دستی تو ملک کا مستقل مسئلہ ہی نہیں بلکہ ملک کا نصیب بنا نظر آتا ہے۔لیکن اس سیاسی کردارکے ساتھ عوامی،پارلیمنٹ کی بالا دستی کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا جو سیاست خاندانی، شخصی، علاقائی اور فرقہ وارانہ گروپوں کے طور پر کار فرما ہے۔یہ درست ہے کہ پاکستان کو '' ڈی ٹریک '' کرنے والے سابق آمر جنرل ایوب خان نے ملک میں حقیقی سیاسی جماعتوں کو خاتمے کی راہ پہ ڈال کر مفاد پرستی کی سیاست کے وہ بیج بو ئے جس کی فصل تیار ہونے پرآج سب پریشاں و نالاں ہیں۔لیکن مفاد پرستی کی دوڑ میں سیاسی جماعتوں میں سیاسی اصولوں ، بنیادی طریقہ کار کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی ۔اب جبکہ ''تخلیق کاروں'' کی طرف سے ہی اپنی تیار کردہ ''سیاسی مخلوق''کی بد اعمالیوں کے جرم کو ''ٹول '' کی طرح استعمال کرنے کے محرکات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

سیاسی جماعت کا صدر مجلس عاملہ(ورکنگ کمیٹی) کے فیصلوں کا پابند ہوتا ہے۔اگر پارٹی صدر کو از خود تمام فیصلوں کا کلی اختیار حاصل ہو تو اسے ''ڈکٹیٹر شپ'' کہتے ہیں،جمہوریت نہیں۔ہماری نام نہاد سیاسی جماعتوں کے لیڈر ''سیاہ و سفید '' کے مالک ہوتے ہیں۔ملک میں سیاسی جماعتوں کے نام پر شخصی، خاندانی،علاقائی اور فرقہ وارانہ گروپ قائم ہیں۔پارٹی کے نظریات و افکار کی روشنی میں جماعت کے فیصلوں اور اقدامات پر تنقید کرنے والے کسی بھی سیاسی جماعت کی اصل قوت ہوتے ہیں لیکن ہماری سیاست میں تنقید کو دشمنی اور بغاوت سے تعبیر کرتے ہوئے تادیبی کاروائی کے قابل سمجھا جاتا ہے۔سیاسی جماعتوں کے اجلاس اول تو ہوتے ہی نہیں،اگر ہوں بھی تو بے مقصد،نمائشی انداز میں۔ اس طرز عمل کی سیاسی جماعتوں میں الیکشن میں کام آنے والوں اور جماعت کے افراد کو مالی ،مادی مفادات کی فراہمی ناگزیر تصور کیا جاتا ہے۔جنرل ضیاء الحق کی اسمبلی کے متعلق کیا جاتا تھا کہ اس میں کونسلر کے معیار کے نمائندے آ گئے تھے ،لیکن اب ''جمہوری دور حکومت '' کے عوامی نمائندوں کا معیار بھی بحیثیت مجموعی قابل تعریف نہیں کہا جا سکتا۔ہماری رائج الوقت سیاست میں پارٹی لیڈر کے منظور نظر رشتہ دار ہی نہیں،ان سے اچھے تعلقات رکھنے والے اور ان لیڈروں کے ملازم کے اثر و رسوخ پر بھی رشک کیا جاتا ہے۔ہر حکمران،ہر بالا دست اپنے عرصہ معیاد کے مفادات کی دنیا میں ہی جیتا ہے،یہی اس کی دنیا ہے اورملک کی بہتری کو اپنی بہتری سے تعبیر کرتے ہوئے ملکی بہتری کو تقدیر پر چھوڑ رکھا گیا ہے۔
ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کی حامی سیاسی جماعتیں درجنوں کی تعداد میں ہیں اور دوسری طرف چند ہی ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی جگہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتی ہیں،یہ الگ بات ہے کہ پارلیمانی بالادستی کا مطالبہ رکھنے والے ہی قانون سازی کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کو آئینی تحفظ فراہم کرتے نظر آتے ہیں۔سیاسی جماعتوں کی مہلک ترین غلطی '' مقدس گائے'' کے تصور کی تقدیس کو آئین و قانون کا تحفظ دینا ہے۔ پاکستان کی بیورو کریسی ،ملک و عوام کی بد حالی اور بربادی کے '' کسٹو ڈین'' کے طور پر نمایاں ہے۔ملک میں وفاقی بیورکریسی کی طرف سے چھوٹے صوبوں سمیت آزاد کشمیر کے معاملات کو جاگیردارانہ ذہنیت کے ساتھ ''ڈیل'' کرنے کا انداز نمایاں ہے۔ ملک کے ان خطوں کو دوسرے ،تیسرے درجے کی مخلوق کی طرح' برتا' اور 'روا 'رکھا جاتا ہے۔ملک میں سیاسی کردار کی گراوٹ اور تباہی نے بیورو کریسی کو فیصلہ سازی میں سیاسی کردار پر حاوی کر دیا ہے۔ بادشاہت کے نظام والے کسی ملک کے درباریوں کی طرح ہماری بیوروکریسی، ملک کی پسماندہ معاشی حالت کے باوجود پر تعیش ،شاہانہ طرز زندگی کا ایسا اعلی معیار رکھتے ہیں کہ جیسے پاکستان کے قیام کا مقصد انہیں، عوام کی حالت زار کے برعکس، شاندار و محفوظ طرززندگی کو یقینی بنانا ہی تھا۔بیورو کریی بھی ملک کے چند ان بالا طبقات میں شامل ہے جس کی زندگی بھی شاندار اور ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے خاندانوں کی زندگیاں بھی تابناک ہونا یقینی بنا دیا گیا ہے۔

ملک کی اصل طاقت ہی وہ سیاسی کردار ہوتا ہے جو عوام کے ذریعے ملک کوعملی اقدامات اور پالیسیوں کے لئے فکر و عمل کی مضبوط اور پائیدار راہیں،فراہم کرتا ہے۔جس طرح آئین و قانون کی مکمل پاسداری کو یقینی بنانا،ملک میں بدترین طبقاتی نظام اور محض عوام کو ادنی مقام پر مخصوص رکھنے کی صورتحال کا خاتمہ ملک کی سلامتی اور بقاء کے لئے لازمی عناصر کی حقیقت کے طور پر سامنے ہیں، اسی طرح یہ بات بھی ناگزیر ہے کہ ملک میں حقیقی سیاسی طریقہ کار کی ترویج کی جائے،سیاسی جماعتوں کو شخصی،خاندانی حاکمیت کے بجائے سیاست کے مروجہ طریقہ کار کا پابند کیا جائے،سیاسی جماعتوں کے مروجہ سیاسی طریقہ کار کی مکمل پابندی کی جائے۔اگر ملک میں سیاست کو حقیقی سیاسی نظام کے مطابق ڈھالنے کی راہ اختیار نہ کی گئی تو ملک میں حقیقی پارلیمانی حاکمیت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ کوئی بھی نظام، ملکی نظام چلانے والوں کو پرتعیش،اعلی ترین طرز زندگی عطا کرنے اور عوام کو دوسرے ،تیسرے درجے کے ادنی درجے پر رکھنے کی اجازت نہیں دیتا،بالخصوص پاکستان جیسے ملک میں جو ایک سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے عوامی جدوجہد کے اعجاز سے قائم ہوا۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے حقیقی کردار کی بحالی تک ملک میں بہتری ،مضبوطی کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔کم ترین ہی سہی لیکن ملک میں آج بھی باکردار افراد موجود ضرور ہیں لیکن جس طرح ملک میں ملک وعوام کے وسیع تر مفادات کے برعکس طبقاتی مفادات پر مبنی ملک و عوام کے مفاد کے برعکس منفی انداز کی ترویج جاری ہے، اس سے پاکستان کے خلاف پاکستان دشمن قوتوں کے دیرینہ ناپاک عزائم کو ناکام اور نامراد کرنا مشکل ہی نہیں مشکل ترین نظر آتا ہے۔اسی حوالے سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا ایک واقعہ پیش خدمت ہے جس سے اس نا صرف اس عظیم رہنما کے کردار کی ایک جھلک نظر آتی ہے بلکہ اس سے سیاسی رہنما ہونے کے وہ لازمی عناصر بھی سامنے آتے ہیں جس سے آج کی سیاست یکسر محروم ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے چھوٹے بھائی احمدعلی جناح پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے بزریعہ ہوائی جہاز مملکت پاکستان کے دارلحکومت کراچی پہنچے اور ٹیکسی بھی بیٹھ کر سیدھا گورنر جنرل ہائو س پہنچے۔وہ اس زعم میں تھے کہ وہ اپنے بھائی کے پاس گورنر جنرل ہائوس جارہے ہیں جو پاکستان کے با نی اور ملک کے پہلے گورنر جنرل ہیں۔احمد علی جناح کی شکل قائد اعظم محمد علی جناح سے بہت ملتی تھی اور قائد اعظم اپنے چھوٹے بھائی احمد علی جناح سے بہت پیار کرتے تھے۔گورنر جنرل ہائوس کا عملہ قائد اعظم محمد علی جناح کی شکل کے ایک نوجوان کو دیکھ کر حیران ہوئے۔احمد علی جناح نے کاغذپہ اپنا نام لکھ کر دیا'' احمد علی جناح،برادر آف قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان''۔قائد اعظم نے وہ پڑھا تو اپنا قلم نکال کر اس کاغذ پہ تحریر ''قائد اعظم'' اور '' گورنر جنرل پاکستان ''کے الفاظ کاٹ دیئے،اور کہا ''احمد علی جناح ،محمد علی جناح کا بھائی ہے،قائد اعظم یا گورنر جنرل پاکستان کا نہیں''۔قائد اعظم نے کہا ''اس (احمد علی جناح)سے کہوں کہ یہ گورنر جنرل ہائوس ہے،شام کو گھر پہ آنا''۔احمد علی جناح یہ جوا ب سن کر واپس ہندوستان چلا گیا اور پھر کبھی نہیں آیا۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 616044 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More