سب جانتے ہیں کہ قوموں کی ترقی میں مادری اور قومی
زبان نہایت ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ، زبان سے ہی اشخاص اور معاشرے کا
تہذیب و تمدن منسلک ہوتا ہے۔ قومی زبان کے نفاذ کے لئے میڈیا نے بھی اپنی
زمہ داری احسن طریقے سے نبھائی ہے۔ مختلف طبقہ فکر کی جانب سے اردو کے نفاذ
کے لئے پاکستان سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا۔ پاکستان سپریم کورٹ کے
ججز صاحبان نے مقدمہ کو خصوصی دلچسپی سے سنا ، اور نفاذ اردو کے لئے حکومت
سے جواب طلب کیا گیا۔الحمد اﷲ اہل قلم، اہل فکر حضرات کی محنت رنگ لائی
اوربالاآخر 6 جولائی 2015 ء کو وفاقی حکومت نے پاکستان سپریم کورٹ میں جواب
داخل کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ نفاد اردو کے لئے حکومتی سطح پر کوششیں
کی جارہی ہیں ۔ تین ماہ کے اندر پاکستان کے تمام سرکاری اداروں میں سرکاری
و قومی زبان اردو نافذ کردی جائے گی، اس کے بعد کابینہ ڈویژن نے وزیر اعظم
پاکستان کی منظوری کے بعد 6 جولائی 2015 ء کو تمام وفاقی وزارتوں اور
ڈویژنوں کو ایک مراسلہ بھیجا جس کے مطابق ان تمام اداروں کو 3ماہ میں اپنی
پالیسیاں، قوانین ، اور ویب سائٹس اور ہر طرح کے فارم کا اردو ترجمہ کروانے
کا حکم دیا گیا اور تمام عوامی جگہوں پر اردو کے سائن بورڈ آویزاں کرنے کو
کہا گیا۔ مگر اس میں صرف پاکستان سپریم کورٹ کی جانب سے عملی پیش رفت
دیکھنے میں آئی ہے کہ پاکستان سپریم کورٹ کے سابق اور منتخب چیف جسٹس
صاحبان نے اردو میں حلف اٹھایا اور اردو میں تقریر کی۔ اس کے علاوہ حکومتی
سطح پر کوئی اقدامات قابل بیان نظر نہیں آئے۔
ڈیڑھ ماہ قبل عدالت اعظمیٰ پاکستان کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی
میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے
26 اگست2015 ء کو محفوظ کیاگیا نفاذ اردو کا تاریخ ساز فیصلہ پڑھ کر سنا یا
جس میں قرار دیا گیا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل251 کے تحت پاکستان کی قومی
و سرکاری زبان اردو ہے۔ اردو زبان کے نفاذ کے لئے تفصیلی فیصلے میں جو
میعاد میں مقرر کی گئی ہے اور جو خود حکومت نے مقرر کی ہے یعنی (مراسلہ
مورخہ6 جولائی 2015) ،کی ہر حال میں پابندی کی جائے جیسا کہ اس عدالت کے رو
برو عہد کیا گیا ہے۔فیصلے میں سپریم کورٹ واضح کیا ہے کہ آئین کا اطلاق ہم
سب پر فرض ہے، وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت چلانے کیلئے ایک غیر ملکی
زبان کا استعمال غیر ضروری ہے، صدر مملکت، وزیر اعظم اور تمام وفاقی سرکاری
نمائندے اور افسر ملک کے اندر اور باہر اردو میں تقاریر کریں، تین ماہ کے
اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا
جائے۔فیصلے میں جوائنٹ سیکرٹری کابینہ وتمام وزارتوں اور ڈویژ ن کے
سیکرٹریز اور ایڈیشنل سیکرٹریز ،انچارج صاحبان ، سیکرٹری برائے وزیر اعظم ،
وزیر اعظم آفس ، سیکرٹری وزارتِ اطلاعات، نشریات و قومی ورثہ حکومتِ
پاکستان اسلام آبادسمیت دیگر اداروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ وفاق کے زیر
انتظام کام کرنے والے تمام ادارے (سرکاری و نیم سرکاری) اپنی پالیسیوں کا
تین ماہ کے اندر اردو ترجمہ شائع کریں۔ وفاق کے زیر انتظام کام کرنے والے
ادارے(سرکاری و نیم سرکاری) تمام قوانین کا اردو ترجمہ تین ماہ میں شائع
کریں۔ وفاقی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والے تمام ادارے(سرکاری و نیم
سرکاری) ہر طرح کے فارم تین ماہ میں انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی فراہم
کریں۔ تمام عوامی اہمیت کی جگہوں مثلا عدالتوں، تھانوں، ہسپتالوں، پارکوں،
تعلیمی اداروں، بینکوں وغیرہ میں رہنمائی کے لیے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو
میں بھی بورڈ تین ماہ کے اندر آویزاں کیے جائیں گے۔ پاسپورٹ آفس، محکمہ
انکم ٹیکس، اے جی پی آر، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، واپڈا، سوئی گیس، الیکشن
کمشن آف پاکستان، ڈرائیونگ لائسنس اور یوٹیلٹی بلوں سمیت تمام دستاویزات
تین ماہ میں اردو میں فراہم کریں۔ پاسپورٹ کے تمام اندراجات انگریزی کے
ساتھ اردو میں بھی منتقل کیے جائیں۔ وفاقی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے
والے تمام ادارے(سرکاری و نیم سرکاری) اپنی ویب سائٹ تین ماہ کے اندر اردو
میں منتقل کریں۔ پورے ملک میں چھوٹی بڑی شاہراہوں کے کناروں پر راہ نمائی
کی غرض سے نصب سائن بورڈ تین ماہ کے اندر انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی نصب
کیے جائیں۔ فیصلے کے مطابق تمام سرکاری تقریبات/ استقبالیوں کی کارروائی
مراحلہ وار تین ماہ کے اندر اردو میں شروع کی جائے۔‘‘
مگر وفاقی حکومت کی جانب سے نفاذ اردو کیلئے پاکستان سپریم کورٹ کو دیا گیا
تین ماہ کا عہد (مراسلہ مورخہ6 جولائی 2015) کی پاسداری نہیں کی گئی، اور
اس طرح نفاذ اردو کی پہلی ڈیڈ لائن6 اکتوبر2015 ء کو ختم ہوگئی ،اس دوران
نفاذ اردو کے لئے حکومتی اداروں کے عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں
آئے۔حکومتی اداروں ، ماتحت عدلیہ اور سرکاری دفاتر میں انگلش ہی کا راج
ہے،جس سے عام آدمی متاثر ہورہا ہے۔ لہٰذا حکومت اور حکومتی اداروں کو سست
روی ترک کرتے ہوئے فوری طور پر نفاذ اردو کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات
کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان بھر کے عوام کے لئے اردو ہی وہ زبان ہے جسے
تقریباً ہر فرد ہی اپنی مادری زبان کے بعد سب سے زیادہ بہتر طریقے سے بول،
سمجھ اور لکھ سکتا ہے۔ قائداعظم نے 24مارچ 1948ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں
طلبہ سے خطاب میں فرمایا کہ اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر
ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو اس کی سرکاری زبان اردو ہی ہو سکتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں قومی زبان اردو کو اس کے تاریخی اور آئینی مقام سے بے
دخل کرنے کی باتیں کی جا تی رہی ہیں۔ جبکہ پاکستانی عوام ایک عرصے سے زور
دے رہے ہیں کہ قومی زبان اردو کو تمام تر سرکاری اداروں اور عدلیہ میں نافذ
العمل قرار دیا جائے۔ نفاذ اردو کے لیے ہمارے دوست کالم نگاروں، ادیبوں اور
صحافیوں کی خدمات بھی لائق تحسین ہیں ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سست روی ترک
کرتے ہوئے فی الفور پاکستان سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل درآمد
کروائے ۔ ہائی کورٹس ، ماتحت عدلیہ سمیت تمام سرکاری ونجی دفاتر میں بولنے
اور لکھنے میں اردو استعمال کی جائے ، اور سرکاری اداروں کی ویب سائٹس اردو
زبان میں بنائی جائے ، تمام انگریزی فارموں اور یوٹیلٹی بلز اردو میں بنائے
جائیں تاکہ عوام پاکستان بھرپور طریقے سے ان سے استفادہ کرسکیں اور ملک و
ملت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ |