حالیہ ضمنی انتخابات میں محاذ آرائی کی سیاست عروج پر
پہنچ گئی ہے۔دونوں جماعتوں کے جلسوں،جلوسوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے
ساس بہو کی لڑائی ہو رہی ہے۔اس موقع پر ہمارے دیرینہ دوست ’’فخرو بھائی ‘‘
بھی چپ نہ رہ سکے اور گویا ہوئے کہ بھلا یہ دونوں جماعتیں عوام کو کیا
ڈیلیور کریں گی۔ یہ تو خود ایک دوسرے کے کھاتے کھول کر بیٹھ گئیں ہیں۔یار
الیکشن کم اور سبزی منڈی زیادہ لگتا ہے۔بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی
ہیں۔ایک دوسرے کی بڑھ چڑھ کر کردار کشی کی جارہی ہے۔مقصد عوام کو اپنی طرف
متوجہ کرنا ہے۔بھلا یوں بھی عوام کی ہمدردیاں حاص کی جاسکتی ہیں۔کیا دونوں
جماعتیں مجھے قائل کر سکتی ہیں۔ ذرا دونوں سیاسی جماعتوں کی بولیاں تو
ملاحظہ کریں۔
سب سے پہلے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی بات کرتے ہیں۔ان کے بقول
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے عمران خان کو پاکستان
دشمنوں کا آلہ کار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان میں سیاسی جماعتوں
کو غیر ملکیوں سے فنڈنگ لینے کی ممانعت ہے، عمران خان کی جماعت غیر ملکیوں
کی فنڈنگ سے چلتی ہے، تحریک انصاف کو بیرون ملک سے یہودیوں، ہندوؤں اور
سکھوں سے فنڈنگ ملی، اصولوں کی خلاف ورزی کے باوجود الیکشن کمیشن نے ان کو
نشان کیسے الاٹ کیا، عمران خان کے جرائم پر پردہ پوشی کی جارہی ہے۔
اب سنیے پاکستان تحریک انصاف کی بھی ……
’’پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے شریف برادران اور ان کی
حکومتی کرپشن کے 20سے زائد سکینڈلز کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک
انصاف اقتدار میں آکر شریف برادران اور آصف زرداری سمیت تمام کرپٹ
سیاستدانوں کے ساتھ وہی سلوک کرے گی جو ہم نے خیبرپختوانخواہ میں اپنے وزیر
اور دیگر لوگوں کے ساتھ کرپشن کرنے پر کیا ہے ،(ن) لیگ اقتدار میں فیملی
بزنس بڑھانے اورپیسہ بنانے کے لئے آتی ہے‘وزارت اعلیٰ کے عہدے پر کرپشن کی
وجہ سے 35ارب روپے کا نقصان پہنچا یا‘ نوازشریف نے ایل ڈی اے سے تین ہزار
پلاٹس لے کر لوگوں کو بانٹیں اور اپنی جماعت کو مضبوط کیا‘نندی پور پراجیکٹ
22 ارب سے
84 ارب تک پہنچ گیا ہے۔ نندی پور پراجیکٹ کا آڈٹ ایشیائی ترقیاتی بنک سے
کروایا جائے‘ ہم سے غیر ملکی فنڈز کا حساب مانگنے والے نواز شریف نے اقتدار
میں آکر کرپشن کے ذریعے 140ارب روپے بنایا جن میں بینظیر حکومت گرانے کے
لئے اسامہ بن لادن ، آئی ایس آئی ،مہران بینک سے بھی لئے جانے والی رقوم
الگ ہیں،نواز شریف پاکستان کے تیسرے امیرترین شخص ہیں لیکن ٹیکس دینے والے
پہلے دس ہزار لوگوں میں ان کا نام نہیں آتا ،(ن) لیگ اقتدار میں عوام کی
خدمت نہیں اپنا فیملی بزنس اور پیسہ بڑھانے کیلئے آتی ہے ……وغیرہ وغیرہ۔‘‘
اپنے دوست کی گفتگو سن کر ہم سوچوں کے سمندر میں گم ہو گئے اور آج جبکہ
دونوں جماعتوں میں گھمسان کا رن پڑنے جارہا ہے،دونوں سیاسی جماعتیں آج
عوامی حمایت کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس کے
بعد کیا ہو گا؟
اس سے پہلے عوام پر بھی منحصر ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر انتخابی عمل میں حصہ
لیں کیونکہ ووٹ ایک شہادت ہے۔ آپ جس کو ووٹ دیتے ہیں ۔ اس کے متعلق آپ
گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص دیانتدار اور امانتدار ہے اور اس کام کی قابلیت
اس میں موجود ہے۔ اگر آپ جانتے ہوں کہ اس میں یہ صفات نہیں ہیں۔ تو یہ ایک
جھوٹی گواہی ہے۔ووٹ کی دوسری حیثیت سفارش کی ہے۔ یعنی آپ جس کو ووٹ دیتے
ہیں اس کی اس عہدے کیلئے سفارش کرتے ہیں۔ اس سفارش کے بارے میں اﷲ تعالیٰ
قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ’’جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اس میں اس کو بھی
حصہ ملتا ہے اور جو بری سفارش کرتا ہے تو اس کی برائی میں بھی اس کا حصہ
ہوتا ہے‘‘۔ یعنی ہمارے ووٹ سے جو شخص کامیاب ہوگا، وہ اپنے اگلے دور میں جو
بھی نیک یا بد عمل کرے گا ہم بھی اس میں شریک سمجھے جائیں گے۔لہٰذا ان
لڑائیوں،محاذ آرائیوں اور کی جانے والی کردار کشیوں میں ذرا بہترین قیادت
کاانتخاب بھی کر لیں کیونکہ عوام کی عدالت ہی بہترین منصف ہے۔ |