پی ٹی آئی کی ذہنیت اور ایاز صادق کی کامیابی

 پی ٹی آئی کی اعلیٰ ذہنیت سے سارا ملک واقف ہے جس پر تبصرہ کرنا غیر مفید سی بات ہے۔مگر واقعات کی ترتیب بھی اُس وقت تک درست نہیں ہوتی ہے جب تک کہ پی ٹی آئی کی ذہنی کیفیت کا ذکر نہ کیا جائے۔ 122میں ضمنی انتخابی عمل سے قبل عمران خان نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے۔مگر وہ تمام دعوے صرف دعوے ہی رہے اور ایاز صادق 2013 کے انتخابی عمل میں جس مارجن سے کامیاب ہوئے تھے اسی مارجن سے اکتوبر 2015کے انتخاب میں بھی جیتے۔مگر عمران خان اپنی بے صبر طبیعت سے مجبور تھے کہ ان کے سر پر وزارتِ عظمیٰ کا تاج کیوں نہیں سجا؟بس پھر کیا تھا وہ تو آپے سے باہر ہو گئے اور دھاندھلی دھاندھلی کا ایسا شور بر پا کیا کہ کان پڑی آواز تک سُنائی نہ دیتی تھی۔چار ماہ سے زیادہ کا طویل عرسہ ملک کی معیشت کو تباہ کرنے میں دھرنوں کی سیاست میں لگا دیا۔ان کے ذہن میں کسی ماورائی قوت نے یہ بیٹھا دیا تھا کہ اگر تم شور غوغا کرو گے تو فوج حرکت میں آکر میاں نواز شریف کو کان سے پکڑ کر فارغ کرکے، عمران خان کے ماٹھے پر وزارتِ عظمیٰ کا تاج رکھ دے گی۔مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔اب انہوں نے اپنی ناکامی کی خفت کو مٹانے کے لئے نئے نئے پینترے بدلے مگر کہیں سے بھی انہیں سُرخ روئی نصیب نہ ہوئی۔اس کے بعد انہوں نے چار حلقوں چار حلقوں کا شور شروع کر دیا ۔جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن بھی ڈپریس دکھائی دیا اور ایاز صادق کو کو کمیشن کی مبہم رپورٹ کے نتیجے میں ان کی نشست سے فارغ قرار دلا دیا گیا۔جس کے بعد مسلم لیگ اور ایاز صادق نے ایکمرتبہ پھر پی ٹی آئی کا الیکشن کے میدان میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی پا پانی پاکستان کے لوگوں کے سامنے آجائے اور پھر ضمنی انتخاب کے نتیجے نے پی ٹی آئی کے غبارے سے ہوا ہی نکال کر رکھ دی۔ اس شکست پر ُ پی ٹی آئی کے رہنما جسٹس وجیہ الدین کا بھی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی نمائندگی کلیم خان کو نہیں کرنی چاہئے تھی۔ہم سمجھتے ہیں کہ عوام میں سے کسی مضبوط امیدوار کا سامنے آنا بہت ضروری تھا تکہ ان کے دعووں کو تقویت مل جاتی مگر زر کے سامنے ذہن حار گیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو اس عبرناک شکست کی وجہ سے کسی کل بھی چین نہیں آئے گا۔اس انتخابی معرکے میں پی ٹی آئی کے ہر مطالبے کا الیکشن کمیشن نے مثبت حل پیش کیا۔ جس پر ان لوگوں کا کہنا تھا کہ الیکشن کے جو بھی نتائج آئے کھلے دل سے تسلیم کریں گے۔مگر جب لاہور کا معرکہ سجا توعمران خان دبے لفظوں میں اس انتخابی عمل پر بھی بد عنوانی کا الزام لگانے کی کوشش کرتے رہے۔کہیں انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے لاہور آنے پر اعتراض کیا تو کبھی نواز شریف کے کسانوں کے پیکیج پر بات کرنے پر اعتراض ہو ا۔مگر یہ تمام کے تمام حربے انتخاب جیتنے کے تھے۔ جو دھرے کے دھرے رہ گئے۔فوج کی نگرانی میں پُر امن انتخابی عمل چلا اور پھر 11 اکتوبر کی شام کو انتخابی نتائج پر آہستہ آہستہ عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کے پسینے چھوٹنے لگے اور پھر آہستہ آہستہ انتخابی عمل پر لب کشائی کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔اور تو اور سابق گونر پنجاب تک اس عمل پر اول فول کہتے سُنے گئے۔ان کے متعلق اور پی ٹی آئی میں شامل ہونے والوں کے بارے میں لوگوں کا عام خیال یہ ہے کہ بعض لوگوں کو عزت راس نہیں آتی ہے اور اُن کے پارسائی کے دعوے اکثر پانی کے بلبلے ثابت ہوتے ہیں ۔

ن لیگ نے لاہور کا معرکہ سر کر لیا اور ایاز صادق نے اپنی سیٹ اپنے ووٹر کے ذریعے چھین کر عمران کے لوگوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔گذشتہ روز کے اخبارات میں شائع ہونے والے نتائج کے مطابق ایاز صادق نے اپنے حریف علیم خان جن کا تعلق لینڈ پر اپنے قبضے کے ذریعے پیسہ بنانے سے ہے۔ کے 720453 ووٹوں مقابلے میں76204 ووٹ لے کر 4161 ووٹوں کی برتری حاصل کر کے تکبر کے چہرے پر کالک مل دی ہے۔غیر سرکاری نتائج کا آنا تھا کہ عمران خان کے لوگوں نے ماضی کے رونے کے گیت ایک مرتبہ پھر 2015 میں بھی الاپنا شروع کر دیئے۔اصل معاملہ یہ ہے کہ ان کی من مرضی کے نتائج جن کے پی ٹی آئی والے خواب دیکھتے رہے تھے نہ آئے تو پی ٹی آئی والوں کی سُبکیاں نکلنے لگ گئیں ۔

حلقہ122 کے ضمنی انتخاب ہارنے کے بعد جو الزمات وہ لگا رہے ہیں ۔وہ پی ٹی آئی کے ماضی کے الزامات سے ملتے جلتے الزامات ہیں جو ایک مرتبہ پھر سطح آب پر آگئے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ ا ن الزامات کے بارے میں وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان الزامات کے ثبوت ہمارے پاس نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے ریاستی مشینری سے الیکشن جیتا ہے جو دودھ میں مینگنیاں ملانے کے مصداق وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ تحفظات کے ساتھ نتائج تسلیم کرتے ہیں۔جس سیٹ پر پی اٹی آئی نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا وہ سیٹ عمران کے لنگغرے گھوڑے نے ہار دی اورموصوف نے دل کے بہلانے کے مصداق کہنا شروع کر دیا کہ تختِ لاہور کے دو پائے نکال دیئے ہیں ؟؟؟اگلا الیکشن ہمارا ہوگا؟ جب پچھلے دو انتخابات میں تم مسلم لیگ کو پچھاڑ نہیں سکے ۔تو اگلے اتنخا بات کی جیت کے خواب دیکھنا کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔کہ ابھی اس تک پہنچنے میں ڈھائی سال کا عرصہ درکار ہے۔چوہدرری سرور بھی ان کی لے میں لے ملانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔اب پی ٹی آئی کی قیادت کے بیانات ان کے کھسیانے پن کی دلیل کے سوائے کچھ نہیں رہے ہیں۔ایک نیا شوشہ چیئر مین تحریکِ انصاف نے چھوڑا ہے کہ ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کو اخلاقی فتح نصیب ہوئی ہے؟عمران خان بتائیں کہ وہ کونسے اخلاق کی بات کر رہے ہیں کیا کنٹینر والا یا موجودہ الیکشن کے دوران پیش کا جانے والا ؟کیا وہ ہی اخلاق جو آپ کی ماضی اور حال کی تقاریر میں جھلکتا رہا ہے؟

ن لیگ والے کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب آئیں ملک کی ترقی کے لئے مل کر کام کریں۔این اے 122کے لوگوں نے ترقی کے لئے ن لیگ کو ووٹ ڈالا ہے ۔پرویز رشید کہتے ہیں کہ ہم نے ضمنی انتخاب میں عمران کی جھوٹ کی سیاست کو دفن کردیا ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے، کہ دھرنوں کے بعد عمران خان کو آٹھ ضمنی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ ضمنی الیکشنز کے نتائج نے پی ٹی آئی کے بہت سے تصورات کو پاش پاش کر کے رکھ دیا ہے۔جن کی وجہ سے 2013کے انتخابات کی کریڈیبلیٹی کی توسیقووٹرز کی طرف سے کردی گئی ہے۔

دوسری جانب میاں محمد نواز شریف پنجا ب کے ضمنی انتخا بات میں مسلم لیگ ن کی کا رکردگ سے سخت مایوس دکھائی دیتے ہیں جن کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو دو ضمنی حلقوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا․․․․لاہور کی صوبائی نشست کے ہارنے پر نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز نے لیگی نمائندوں کی عوامی خدمت نہ کرنے پر اپنے تحفظات کا شدت کے ساتھ اظہار کیاہے ۔ٹیوٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے واضح کیا کہ وزیر اعظ نوواز شریف نے سب پر واضح کر دیا ہے کہ لیگی ارکان یا تو عوامی خد مت کریں یا گھر جا کر بیٹھیں۔کیونکہ مسلم لیگ ن کے لئے عوام سب سے پہلے ہیں

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213533 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.