اس شہر کی طرف کسی کی کوئی توجہ نہ ہے۔میں پہلے بھی آپ
لوگوں بتا چکا ہوں ۔کہ یہ ایک قدیمی ضلع ہے۔جس کی حد شیخوپورہ تک ہوا کرتی
تھی۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ اس کی طرف کسی نے توجہ کسی نے نہ دی
۔جو اس ضلع کی تحصیل ہوا کرتی تھی آج وہ ڈویژن اور ضلع بن کرترقی کر چکے ہے
یہ وہ بد نصیب ضلع ہے جس کے کسی چوک میں آج تک ٹریفک سگنل نہیں لگائے
گئے۔مگر اس شہرکی بد قسمتی دیکھے کہ یہ آج اگر شہر کا وزٹ کرئے۔ تو شہر کی
اکثریت سڑکوں کو اکھاڑکر رکھا دیا گیا ہے۔اور سیوریج پائپ ڈالے جارہے
ہے۔کئی ٹھیکیدارحضرات کام چھوڑکرآرام سے گھروں میں بیٹھے ہیں۔جبکہ جھنگ سٹی
کے علاقہ میلاد چوک۔محلہ گادھیاں والا۔کچہ ریلوے روڈ۔پکہ ریلوے روڈ۔لاری
اڈا۔بلاک شاہ وغیرہ پر سیوریج کا کام ہورہاہے۔اور جو سیوریج ڈال دی گئی ہے
وہاں پر ابھی تک دوبارہ سڑک نہ بنائی گئی ہے۔حکومت محکمہ لوکل گورنمنٹ۔ٹی
ایم اے ۔پبلک ہیلتھ۔بلڈنگ۔ہائی وے وغیرہ کو ترقیاتی سکیموں کے فنڈ دے رہی
ہے اور ٹینڈر بھی ہو رہے ہے۔مگر شہر کی حالت پہلے سے بھی ابتر ہوتی جارہی
ہے۔تقریب ڈیڑھ دوسال قبل بننے والی سڑک جھنگ روڈ جو تیار تھا ۔اس کو بھی
اکھاڑ کر اس میں بھی سیوریج ڈالا گیا۔یہ سڑک پہلے بڑے عرصہ بعد بنائی گئی
تھی۔پہلے شہر کا برا حال ہوا پڑا ہے۔اب ٹی ایم اے جھنگ کے نئے ٹینڈر محرم
روٹ کے ہوئے ہیں۔جس کاکام ٹھیکیدارحضرات نے شروع کردیاہے۔پتہ نہیں کہ محکمہ
ٹھیکیداروں کو پیمنٹ نہیں کررہا یہ پھر بل لے کر ٹھیکیدار حضرات آرام کررہے
ہے۔تقریبا ڈیڑھ سال پہلے پہاڑئے شاہ پارک کا ٹینڈر ہوا تھا۔جس کی ابھی تک
چاردیواری بھی مکمل نہ ہوئی ہے۔اس میں ابھی تک مٹی بھی نہیں ڈالی گئی اس کا
ٹھیکہ تقریبا پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہوا تھا۔ابھی تک اس کی ٹھیکیدار نے
چاردیواری بھی مکمل نہ کی ہے۔جس کے بارے ٹی ایم اے جھنگ کے افسران کو کئی
بار جاکرمل چکے ہے کہ پہاڑے شاہ پارک کاکام مکمل کروایا جائے۔لیکن نہ جانے
وہ بھی کس مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔جب کہ پہاڑے شاہ گراؤنڈ
میں گندگی کاڈھیر ہوا کرتا تھا۔یہ گونجان علاقہ میں ہیں اس جگہ پارک بنایا
جانا تھا جو ڈیڑھ سال ہونے کے باوجود مکمل نہ ہوا ہے۔افسران نہ جانے کس
مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔آج اگر جن جن ٹھیکیدارحضرات نے
کام لیے رکھے ہے۔ان سب کی میعاد دیکھی جائے ۔توچند ایک ٹھیکیدار ہوگئے ۔جو
اپنے ٹاٹم پر کام مکمل کیا ہو۔ورنہ اکثریت ایسے ہی کام ہو رہے ہیں ۔آج میرا
شہر ترقی کرنے کی بجائے کھنڈرات کامنظر پیش کررہاہے۔آج تو واقعہ ہی ایسے
معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کا کوئی ولی وارث نہیں ۔آج اگر اس شہر کا کوئی
وارث ہوتا تو یہ کھنڈرات کا منظر پیش نہ کررہا ہوتا۔یہاں پہلے سٹرک بنانے
کاٹینڈر ہوتا ہے ۔توبعد میں اس سٹرک کواکھاڑ کر اس میں سیوریج ڈالنے
کاٹینڈر ہوتا ہے ۔اور بعد میں سڑکوں یہ حال ہے کہ جب وہاں سے گزراجائے توہر
طرف آپ کو گردوغبار آپ کو اڑتی نظر آئے گئی۔جھنگ کی عوام تو اپنے اس مسیحا
کے انتظار میں آنکھے لگائی بیٹھی ہے۔کہ کوئی تو ایماندار فرض شناش افسر آئے
گا جوجھنگ کی حالت پر رحم کھائے گا۔جو یہاں کی غریب عوام کا ہمدارد ہوگا۔جس
کے ذہن یہ ہوگا۔کہ اگر سڑک جو نئی بنائی جانی ہے ۔اگر وہاں سیوریج ڈالنا ہے
۔توپہلے سیوریج ڈالے بعد میں سڑک کی تعمیر مکمل کی جائے۔ایسے نہ جواب حالات
جارہے ہیں۔کہ پہلے سڑک بنادی بعد میں سڑک کو اکھاڑ کر اس میں سیوریج ڈالنا
شروع کردیا۔بعد میں انتظار ہورہا ہوگا کہ اب سڑکوں کے ٹینڈر لگے ۔پھر
سٹرکوں مکمل کیا جائے۔ان لوگوں کو کیا یہ سوچ نہیں کہ ایک ہی سڑک پر ڈبل
ڈبل خرچہ کئے جارہے ہیں ۔کیا ان افسران اور انجیینرحضرات کی یہی انجنرنگ
ہے۔ان لوگوں کا تووہ حال ہوگیا نہ کہ ایک غریب آادمی بیمار ہوگیا ۔وہ کسی
بڑے ڈاکٹر کے پاس تو جا نہیں سکتا تھا۔کیوں اس کے پاس اس کی فیس جتنے پیسے
بھی نہیں تھے۔تواس نے اپنے گاؤں کے ڈاکٹر کو چیک کروایا۔تواس نے اس کو
دوائی دی اور دوبارہ کہا کہ کل آنا وہ چلا گیا۔جب دوسرے دن اس ڈاکٹر کے پاس
آیا کہ مجھے ابھی تک آرام نہیں آیا۔تواس نے اس کو انجکشن لگایا اور دوائی
دی اور کہا کہ کل چیک کروانا۔دوبار جب وہ مریض اس ڈاکٹر کے پاس آیاتو اس سے
چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔تواس وقت اس مریض کے ساتھ آنے والوں کو کہا کہ اس
کو شہر لیے جاکر کسی بڑے ڈاکٹر کودیکھاواس کی مرض میری سمجھ سے باہر
ہے۔غریب مرتا کیا نہ کرتا بڑے ڈاکٹر کے پاس شہر گیا ۔تو اس نے مریض کو اپنے
پاس داخل کر لیا۔جب مریض ٹھیک ہوگیا تو وہ اپنے گاؤں کے ڈاکٹر کے پاس
گیا۔اور بولا کہ سستا لوں بار بار اور مہنگا روئے ایک بار۔تو ڈاکٹر بولا
مجھے تیری بات کی نہیں سمجھ آئی ۔تووہ بولا کہ جتنے پیسے تونے میرے سے لیے
ہے دؤا کے اگر وہ میں شروع سے ہی شہر ڈاکٹر کے پاس چلا جاتا تو جو تجھے
دیئے ہے ۔ان کی مجھے بچت ہوجاتی۔یہاں تو جس سکیم کو بھی چیک کیا جائے
۔تودودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔لیکن یہ کرئے گا کون۔یہاں تو
یہ کہ سکتے ہیں ۔کہ اندھا راجا بے دارنگری ۔یہاں آپ کو ایک اور بات بتا دو
کہ ٹی ایم اے جھنگ کے تقریبا آٹھ سب انجینئرز ہے۔لیکن سب سے زیادہ کس سب
انجینئر کو ہردفعہ کام دیا جاتاہے سی سی بیز سے لیکر اب تک جو جو اس نے کام
کئے اور جتنی بھی سکیمیں اس کے پاس تھی ۔اور اس سب انجینئر نے کتنے عمرے
کئے ہیں ۔اور کس سن میں یہ تبادلہ کرواکے جھنگ آیا۔ یہ سب آئندہ کالم میں
آپ کی خدمت پیش کرونگا۔
|