فتح یا شکست
(Tariq Hussain Butt, UAE)
لاہور کو مسلم لیگ (ن) کا
لاڑکانہ کہا جاتا ہے لیکن کیا لاڑکانہ میں مخالف امید وار س طرح کا تہلکہ
مچا سکتا ہے جیسا تحریکِ انصاف نے لاہور کے ھلقہ ۱۲۲ میں مچایا ہے۔؟لاڑکانہ
میں تو پی پی پی یکطرفہ جیتتی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کو جیتنے کیلئے ناک سے
لکیریں نکالنی پڑی ہیں یہ سچ ہے کہ اس معرکے میں مسلم لیگ (ن) فتح سے
ہمکنار ہوئی ہے لیکن اس فتح میں اس کی شکست کے آثار بڑے نمایاں ہیں۔۲۴۴۳
ووٹوں سے علیم خان سے جیت کے کیا یہ معنی نہیں ہیں کہ مسلم لیگ (ن) زوال کی
جان محوِ سفر ہے؟عمران خان جیسی قد آور شخصیت سے آٹھ ہزار کے فرق سے جیتنے
والا امید وار حکومتی سر پرستی کے باوجود کسی بڑے مارجن سے جیتنے سے محروم
رہا ہے جو اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ مسلم لیگ (ن)کے دن گنے جا
چکے ہیں۔فرض کریں کہ سردار ایاز صادق حکومتی سرپرستی کے بغیر میدان میں
اترتے تو پھر ان کا حشر کیا ہوتا اس کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے
بلکہ ہر سیاسی کارکن کو اس بارے میں مکمل آگاہی ہے۔ہمارے ہاں انتخابی دنوں
میں جس طرح سے ووٹرز پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور جس طرح سے ناجائز ہتھکنڈوں
سے ان کے ووٹ ہتھیائے جاتے ہیں وہ سب کے علم میں ہے ۔ووٹروں کو پھانسنا،
انھیں فریب،لالچ اور ترغیب دے کر ووٹ حا صل کرنا ہمارے ہاں ایک معمول بن
چکا ہے جس کی بدولت سر دار ایاز صادق اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں
لیکن اگلے انتخابات میں ہارنے کے خوف کی جو تلوار سردار ایاز صادق کے سر پر
لٹک رہی ہے وہ انھیں چین نہیں لینے دے رہی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علیم
خان ایک مالدار آسامی ہیں اور اس ضمنی انتخاب میں ا نھوں نے پیسہ پانی کی
طرح بہایا ہے لیکن کہاں تک؟ایک طرف حکومت کی مکمل مشینری تھی اور دوسری طرف
اکیلا علیم خان تھا جس کیلئے حکومتی وسائل کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں تھا
اور شائد یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت کی طرح ووٹ خریدنے میں کامیاب نہیں ہو
سکے۔حکومتی دباؤ کو برداشت کرنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں ہوتا جس کا ہر
حکومت بھر پور فائدہ اٹھاتی ہے لہذااس طرح کے چند ہزار ووٹ حکومتی امیدوار
کی جیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن میں دولت
ایک انتہائی اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ کردار کی
عظمت کی اہمیت کو گہنانے سے قاصر رہتی ہے۔لاہور کے انتخاب نے اسی بات کو
ثابت کیا ہے کہ علیم خان دولت مند ہونے کے باوجود کردار کی شفافیت سے محروم
تھے۔ان پر قبضہ مافیا کے جو الزامات لگ رہے تھے اس نے تحریکِ انصاف کی جیت
کو منڈھے نہیں چڑھنے دیا۔عمران خان کے لاہور میں بنفسِ نفیس جانے کے باوجود
علیم خان کی ہار اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ ان کی داغدار شہرت
نے ان کی کامیابی پر روک لگا دی ہے ۔اگر ان کا دامن بھی شعیب صدیقی کی طرح
پاک و صاف ہوتا تو سردار ایاز صادق کیلئے اس انتخاب کو جیتنا ناممکن ہو
جاتا۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ شعیب صدیقی اور علیم خان ایک ہی جماعت کے
امیدوار تھے لیکن دولت مند انتخاب ہار گیا اور ایک کارکن انتخاب جیت گیا
حالانکہ شعیب صدیقی کا مقابلہ میاں برادران کے خا ندان کے فرد سے تھا۔اگر
میاں برادران اتنے زیادہ مقبول ہوتے تو پھر ان کے خاندان کا اہم فرد محسن
لطیف ، جو کہ بیگم کلثوم کا بھتیجا ہے الیکشن کیسے ہارتا؟ محسن لطیف کو تو
یہ انتخاب آسانی سے جیت جانا چائیے تھا لیکن حکومتی ہتھکنڈوں کے باوجود
ایسا نہیں ہو سکا تو اس کے معنی یہی ہیں کہ شعیب صدیقی محسن لطیف سے بہتر
امید وار تھا۔علیم خان کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی تھا کے تحریکِ ا نصاف کے
جس الیکشن ٹربیونل نے پارٹی انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کرنی تھیں اس
نے علیم خان کی پارٹی رکنیت معطل کر رکھی تھی لیکن عمران خان نے اسئی علیم
خان کو حلقہ ۱۲۲ میں پارٹی ٹکٹ تھما کر سنگین غلطی کی تھی۔عمران خان کا
علیم خان کو ٹکٹ دینا بالکل غلط فیصلہ تھا ۔عوام کیلئے کسی داغدار شخصت کے
حق میں ووٹ ڈالنا آسان نہیں تھا اور اس پر مستزاد یہ کے مسلم لیگ (ن) نے اس
بات کو کافی اچھالا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکمتِ عملی کامیابی سے ہمکنار
ہوئی اور یوں عمران خان کو ضمنی انتخاب میں حفت کا سامنا کرنا پڑا۔،۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اس وقت تحریکِ انصاف لاہور میں مسلم
لیگ (ن) سے زیادہ مقبول ہے ۔عمران خان کو امیدواروں کے انتخا ب میں احتیاط
سے کام لینا ہو گا۔انھیں یہ با ور کر لینا چائیے کہ کہ اگر ان کا عام
امیدوار میاں برادران کے خاندان کے فرد کو شکست سے ہمکنار کر سکتا ہے تو
پھر کسی دوسرے فرد کا ان کے امیدوار کے سامنے ٹکنا ممکن نہیں ہے لیکن اس
کیلئے شرط یہ ہے کہ عمران خان کا امیدوار ان کے پروگرام اور نعروں پر پورا
اترتا ہو۔عمران خان پاکستان میں عدل و انصاف اور پرپشن کے خاتمے کے نعرے کے
ساتھ میدان میں اترے ہوئے ہیں لیکن اگر ان کے اپنے امیدورا کا دامن اسی طرح
کے الزامات سے داغدار ہو گا تو پھر ان کے نعرے کی قوت انتہائی مدھم ہو جائے
گی لہذا عمران خان کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ کالی بھیڑوں کے ساتھ مید ان
میں اترنا چاہتے ہیں یا با اصول اور دیانت دار لوگوں کے ساتھ انتخا بی
معرکہ سر کرنا چاہتے ہیں ۔؟اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت
پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور پاکستانی عوام ان کی ذات میں تبدیلی کی
راہ دیکھ رہی ہے۔عمران خان کو ذولفقار علی بھٹو کی سیاست سے سبق سیکھنا ہو
گا جھنوں نے متوسط طبقے سے نئی قیادت پیدا کر کے بڑے بڑے برج الٹ دئے تھے ۔جس
طرح ووٹ بھٹو کا تھا اسی طرح آج ووٹ عمران خان کا ہے لیکن اس کے لئے عمران
خان کو ایک لکیر کھینچنی ہو گی۔اگر انھوں نے یہ لکیر کھینچ لی تو پھر کسی
بھی جماعت کیلئے ان کے سونا می کا سامنا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔مجھے علم ہے
کہ یہ لکیر کھینچنا اتنا آسان نہیں ہے لیکن مقصد کے حصول کی خاطر ایسا کرنا
ناگزیر ہے ۔یاد رکھو یہی لکیر عمران خان کے اقتدار کی ضمانت ہے اور انھیں
دیر یا بدیر یہ لکیر کھینچنی ہو گی۔ان کے کئی ساتھی انھیں اس طرح کے
اقدامات سے دور رکھنے کی کوشش کریں گئے لیکن انھیں اپنے ساتھیوں کے اس طرح
کے مشوروں کو ٹھکرانا ہو گا کیونکہ اسی میں تحریکِ انصاف کی کامیابی کی
نوید ہے۔کامیابی کے لئے بڑے فیصلے درکار ہوتے ہیں اور بڑا فیصلہ یہی ہے کہ
جس نعرے پر قوم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے وہ اس کے تقاضوں کا پورا
کریں۔قوم سیاست کے مروجہ انداز سے تنگ آ چکی ہے اور اگر تحریکِ انصاف نے
بھی سیاست کے مروجہ انداز کو ہی اپنا نا ہے تو پھر عوام کی نجات کی راہ
کیسے بر گ و بار سے ہمکنار ہو گی؟
پی پی پی نے اس انتخاب میں ثابت کیا ہے کہ وہ ایک مردہ گھوڑا ہے جس کا
پنجاب کی انتخابی سیاست میں کوئی مقام نہیں ہے۔ حلقہ ۱۲۲ میں میں بھی جوڑ
توڑ کی سیاست کو عروج حاصل رہا۔میاں برادران کی طرح آصف علی زرداری بھی
تحریکِ انصاف سے خوف زدہ ہیں لہذا انھیں جہاں کہیں بھی مسلم لیگ(ن) کو
بچانا مقصود ہوتا ہے وہ وہاں پر اپہنا امیدوار کھڑا کر دیتے ہیں۔آصف علی
زرداری کو علم ہوتا ہے کہ پی پی پی جیت تو نہیں سکتی لیکن اس طرح پی پی پی
کے ووٹ تحریکِ انصاف کے پلڑے میں جانے سے محروم ہو جاتے ہیں ۔لاہور کے ضمنی
انتخا ب میں اگر پی پی پی اپنا امیدورا کھڑا نہ کر تی تو پھر پی پی پی کے
سارے ووٹ تحریکِ انصاف کے امیدوار علیم خان کے پلڑے میں پڑ جاتے اور یوں بے
شمار خامیوں کے باوجود تحریکِ انصاف کا امیدورا کامیابی سے ہمکنار ہو
جاتا۔تحریکِ انصاف سے خوف کی سوچ نے پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی
خاموش مفاہمت کو کسی نہ کسی رنگ میں زندہ رکھا ہوا ہے اور شائد عمران خان
اسے ہی مک مکاؤ کی سیاست ک کہتے ہیں ۔پی پی پی کو سوچنا ہو گا کہ پنجاب کی
سب سے مقبول جماعت کا یہ حشر کیوں ہوا ہے؟آصف علی زرداردی کی سیا ست کے
حاشیہ برداروں کو اس بات کا تجزیہ کرنا ہو گا کہ پارٹی کی موجودہ تباہی کا
اصل ذمہ دار کون ہے؟اگر وہ حقائق کا کھلے دل سے جائزہ لیں گئے تو انھیں
معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہو گی لیکن بدقسمتی یہی ہے
کہ ایسے افراد کیلئے مفادات کی عینک انھیں حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی راہ
میں رکاوٹ ہے اور یہی رکاوٹ پی پی پی کی تباہی کی بنیاد بنی ہوئی ہے۔ کاش
موقعہ پرست عناصر ملک گیر پارٹی کو تباہی سے بچانے کیلئے اپنے چیرمین کے
سامنے حقیقی تصویر پیش کریں تا کہ پی پی پی ملکی سیاست میں اپنا فعال کردار
ادا کرنے کے قابل ہو سکے۔،۔ |
|