مبارکبادوں کا شور تھم چکا ہے، طبلے کی
تھاپ پر ناچنے والوں کے پیر رک چکے ہیں، مٹھائیاں کھانے اور کھلانے کا
سلسلہ بھی اب ختم ہوچکا ہے، محترم صدر آصف علی زرداری پارلیمنٹ کے مشترکہ
اجلاس سے ایک ایسے موقعہ پر خطاب بھی فرما چکے ہیں جب 1973ء کا آئین بحال
کرنے کیلئے اٹھارویں ترمیم حتمی مسودے کی شکل میں پارلیمنٹ میں پیش ہوچکی
ہے، بلاشبہ یہ پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے کہ
اُس نے وسیع تر مشاورت اور اتفاق رائے کے بعد اٹھارویں ترمیم کے ذریعے
1973ء کے آئین کو بحال کرنے کی کوشش کی اور جمہوریت کی مضبوطی کی جانب قدم
بڑھایا، لیکن اِس شاندار کوشش اور کارنامے کے باوجود ایک تلخ اور جیتی
جاگتی حقیقت ابھی بھی موجود ہے وہ یہ کہ یہ ترمیم عوام کے دکھوں، پریشانیوں،
احساس محرومی اور مسائل کا حل نہیں ہے، اِس حقیقت کا ادراک خود اِس مسودے
پر دستخط کرنے والے ارکان سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں کے ارکان کو بھی ہے
کہ اٹھارویں آئینی ترامیم کا مسودہ موجودہ عوامی مسائل، احساس محرومی اور
عوام پر گرانی کا بوجھ کم کرنے میں کسی طور بھی مددگار ثابت نہیں ہوسکے گا،
اِن ارکان اسمبلی کا یہ بھی خیال ہے کہ حکومت کو غربت کے خاتمے کے لئے
تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی سمیت بنیادی نوعیت کے مسائل حل کرنے
اور گڈ گورننس پر فوری اور بھر پور توجہ دینی ہوگی، جس کے سردست ہمیں کوئی
آثار نظر نہیں آتے۔
دوسری طرف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب میں جناب صدر کا کہنا تھا
کہ” شہیدوں کا بدلہ نظام بدل کرلیں گے، ہم ملک کو نیا پاکستان بنائیں گے،
اٹھارہویں ترمیم کے بعد بہت کچھ کرنا باقی ہے، ہم نے دو سالوں میں جمہوریت
کو مضبوط کر دیا ہے، مجھے فخر ہے کہ بے نظیر بھٹو کے فلسفے کو آگے بڑھایا
ہے، بے نظیر کے خواب میں ہر پاکستانی خوشحال ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے
نظام بدلنے کی قسم کھائی ہے، میں عوام کی خدمت کرنے کا عہد کرتا ہوں اور
میرے قدم کوئی ڈگمگا نہیں سکتا۔“اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ
ایک طرف جہاں پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے آغاز حقوق بلوچستان، گلگت
بلتستان کے آئینی حقوق، این ایف سی ایوارڈ کی متفقہ منظوری اور اب
اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آمروں کی گندگیوں کو صاف کرنے جیسے تاریخی کام
کئے ہیں، وہیں دوسری طرف یہ تلخ حقیقت بھی منہ کھولے کھڑی ہے کہ موجودہ
حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے عوام مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے
ہاتھوں اِس قدر لاغر اور کمزور ہوچکے ہیں کہ اب اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز
ہوا چاہتا ہے۔
محترم صدر صاحب، عوام آپ کے جذبات کی دل سے قدر کرتے ہیں، آپ کا کہنا کہ”
نظام بدلیں گے اور پاکستان کو نیا پاکستان بنائیں گے“،لائق صد تحسین ہے،
لیکن گستاخی معاف،نظام بدلنے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اور اِس
کی ابتدا سب سے پہلے اپنی ذات سے کرنا ہوتی ہے، اہل علم کا خیال ہے کہ نظام
بدلنے کیلئے پہلے خود کو بدلنا بہت ضروری ہے، لہٰذا اِس کی ابتداء آپ کو
پہلے اپنی ذات اور اپنے ارکان حکومت سے کرنی ہوگی، آپ ذوالفقار علی بھٹو
اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے فلسفے اور فکر و سوچ کے وارث اور آگے بڑھانے کے
دعویدار ہیں، اُن کا فکر و فلسفہ تو یہی تھا کہ عوام کی محرومیاں دور ہوں،
عوام خوشحال ہو، ملک ترقی کرے اور خلق خدا راج کرے، اسلیئے جہاں آپ نے
جمہوری اداروں کو طاقتور بنانے کی جدوجہد کی ہے، وہاں آپ کو عوام کی
محرومیاں دور کرنے کے لئے بھی انقلابی اقدامات کرنا ہونگے، کیونکہ عوام کو
ایسی جمہوریت سے کوئی فائدہ نہیں، جس سے ایک عام آدمی کی زندگی مشکل سے
مشکل تر ہوجائے اور وہ دو وقت کی روٹی کیلئے ترسے۔
اس وقت ایک عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ روٹی، کپڑا اور مکان ہے، اسے اِس
سے کوئی غرض نہیں کہ ایوان صدر کا مکین کون ہے اور وزیراعظم ہاﺅس میں کون
متمکن ہے، اٹھارہویں ترمیم میں کیا خوشخبریاں ہیں اور سترہویں ترمیم میں
آمر کی کیا خرافات شامل تھیں، اسے اِس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ جمہوریت کے
فیوض و برکات کیا ہیں اور آمریت کی ہولناکیاں کیا ہیں، جناب صدر، ایک عام
آدمی کو تو صرف اِس بات سے غرض ہے کہ اُسے دو وقت کی روٹی، بچوں کی تعلیم
اور اسکی ضروریات کے لئے مواقع میسر ہیں کے نہیں؟ اگر یہ مواقع جمہوریت دے
رہی ہے تو وہ جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگائے گا اور اگر یہ سہولت اسے
آمریت میں ملے گی تو وہ آمریت کے گن گائے گا، یوں تو دنیا میں بنیادی طور
پر جمہوریت کے معنی ”عوام کی حکومت عوام کے لئے “سمجھے جاتے ہیں، لیکن
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے، یہاں تو صورتحال اِس کے بالکل
برعکس ہے، ہماری حکومت جو کہ ایک جمہوری اور عوامی حکومت کہلاتی ہے کے دور
میں عوام دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں، اشیا خوردونوش کی قیمتیں اِس
قدر بڑھ چکی ہیں کہ کم آمدنی والے طبقے کے لئے دو وقت کی روٹی تو درکنار،
ایک وقت کی روٹی بھی آسانی سے میسر نہیں، مہنگائی کا عفریت ہے کہ مسلسل
انسانوں کو نگل رہا ہے۔
حال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں چیچہ وطنی میں میاں بیوی جن کی شادی کو صرف چھ ماہ
ہی ہوئے تھے، نے تنگ دستی اور غربت سے دلبرداشتہ ہو کر ٹرین کے نیچے آکر
خود کشی کر لی اور چند لمحوں میں دونوں میاں بیوی کو موت نے اپنی آغوش میں
لے کر دنیا کی وحشتوں اور دکھوں سے آزاد کردیا، اِسی طرح گلشن اقبال کراچی
کے رہائشی عاصم جو کہ ہمددر یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری رکھتا تھا، نے
چار سالہ طویل بے روزگاری سے تنگ آکر گلے میں پھندا ڈال کر اپنی زندگی کا
خاتمہ کرلیا، غربت، بے روزگاری اور افلاس کے ہاتھوں تنگ آکر اپنی زندگیوں
کے خاتمہ کرنے کے واقعات اب ہماری روز مرہ زندگی کا معمول بن چکے ہیں، امر
واقعہ یہ ہے کہ ہر دور میں پیپلز پارٹی نے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کے
سبز خواب دکھائے، لیکن یہ خواب کبھی پورا نہ ہوسکا اور اب تو یہ حالت ہے کہ
لوگ کپڑے کی بات کرتے ہیں نہ مکان کی، بلکہ اپنے حکمرانوں سے فقیروں کی طرح
ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ خدارا ہمیں اور ہمارے بچوں کو ایک وقت کی روٹی سے
محروم نہ کرو، لیکن سماعت اور بصارت سے محروم گونگے، بہرے اور اندھے حکمران
اِس سوال کا جواب کبھی بجلی، کبھی گیس، کبھی پیڑولیم اور کبھی روز مرہ کی
اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھا کر دیتے ہیں، حال یہ ہے کہ خیبر سے کراچی تک
کے عوام حکمرانوں کا نام لے لے کر دہائیاں دے رہے ہیں، انہیں مدد کے لئے
پکار رہے ہیں لیکن اُن کی پکار حکمرانوں کے محلوں کی اونچی دیواروں سے ٹکرا
کر صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے ۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ ِاس معاملے پر حکومت، اپوزیشن اور پارلیمنٹ سب خاموش
تماشائی بنی ہوئی ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو کے ذکر پر آنسو بہانے والے ارکان
اسمبلی کی آنکھوں میں اُن نادار مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کی حالت کا
تصور کر کے نمی تک نہیں آتی جن کو ایک وقت روٹی بھی میسر نہیں، انہیں
سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں دست سوال دراز کرتے مرد و زن اور بچے نظر
نہیں آتے، انہیں گندگی کے ڈھیراور کچرا گھروں سے گلا سٹرا کھانا اٹھا کر
شکم سیری کرنے والے بھوکے نظر نہیں آتے، انہیں ہسپتالوں میں اپنے پیاروں کی
دوا کی فہرست تھامے ڈاکٹروں کی منت سماجت کرتے اور مدد مانگتے غریب و نادار
لوگ نظر نہیں آتے، انہیں کدال، بیلچہ اور پھاؤڑا اٹھائے سارا سارا دن
مزدوری کی تلاش میں بھٹک کر شام کو خالی ہاتھ گھر جانے والے مزدور نظر نہیں
آتے، کیا یہ سب لوگ اِس ریاست کی اولاد نہیں ہیں، کیا یہ ریاست اِن بھوکے
ننگے اور ناداروں کی ماں نہیں .....!یہ کیسی ماں ہے جو روز اپنے ہی بچوں کو
زہر کھا کر، ٹرین کے نیچے آکر، عمارتوں سے چھلانگ لگا کر، نہروں اور دریاؤں
میں ڈوب کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے دیکھ رہی ہے، لیکن ان کے لئے کچھ نہیں
کر سکتی، جس طرف نظر ڈالیئے غربت، بھوک اور افلاس کا راج ہے، جس نے لوگوں
سے جینے کی امنگ تک چھین لی ہے، یہ کیسی اندھیر نگری ہے، جس میں عوام کا
کوئی پرسان حال ہی نہیں، اُن کا کوئی وارث نہیں، جبکہ مملکت کا دستور بھی
اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ ریاست ہر شہری کو بنیادی حقوق کی فراہمی
سمیت تعلیم، روزگار اور اُس کی جان و مال کی محافظ ہوگی اور ہر شہری کو
بنیادی حقوق فراہم کرے گی، لیکن موجودہ صورتحال میں یہ ساری باتیں فرضی اور
کاغذی معلوم ہوتی ہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارا دستور صرف طبقہ اشرافیہ کو
تحفظ فراہم کرنے اور انہیں پناہ دینے کیلئے رہ گیا ہے۔
ایسا کب تک ہوتا رہے گا، 63سال ہوگئے، عوام کو خواب دیکھتے، آس لگاتے اور
امید کے دیئے جلاتے ہوئے، اب تو اٹھارویں ترمیم بھی آچکی ہے، جو چند دنوں
میں منظور ہو کر آئین کا حصہ بن جائے گی، اِس کی اہمیت اور افادیت میں کوئی
کلام نہیں، بہت اچھا ہوا، مبارک ہو کہ وزیراعظم بااختیار ہونے جارہے ہیں،
مبارک ہو کہ نواز شریف کیلئے تیسری بار وزیراعظم بننے کے دروازے کھل رہے
ہیں، مبارک ہو کہ وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد گھٹ جائے گی اور قومی
خزانے سے وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج کے اخراجات کا وزن کچھ کم
ہوجائے گا، بہت کچھ بدل رہا ہے اور شاید بہت کچھ بدل جائے، تبدیل ہوجائے،
لیکن اگر نہیں بدلے گا اور نہیں تبدیل ہوگا، تو وہ ہوگا عوام کا مقدر، جو
کبھی نہیں بدلے گا، نہیں نکلے گا تو ان کے دکھوں، پریشانیوں، احساس محرومی
اور مسائل کا حل نہیں نکلے گا، خلق خدا اِسی طرح روتی، بلکتی اور سسکتی رہے
گی، چنانچہ اِس تناظر میں ہمارا ارباب اقتدار سے بہت ہی سادہ سا سوال ہے،
کہ کب اس ملک کی عوام کو غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات ملے گی
.....؟،کب اِس ملک میں ترقی و خوشحالی کا سنہری دور آئے گا.....؟،کب اِس
ملک کی غریب عوام کو امن و امان، تحفظ اور چین نصیب ہوگا.....؟،کب اِس ملک
کی عوام کی جان آئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے خون چوسنے والے اداروں سے
چھوٹے گی .....؟،کب بھٹو اور بے نظیر کے خواب کے مطابق ہر پاکستانی خوشحال
ہوگا.....؟اور کب وہ دن آئے گا، جب اس ملک پر خلق خدا راج کرے گی. . . . .
.! |