حکومت اور عوام کے لیے لمحۂ فکریہ !

صد شکر! لا ہور اور اوکاڑہ میں ہونے والے ضمنی الیکشنوں کا انجام بخیر ہوا ، قومی اسمبلی کے دو اہم حلقوں میں ضمنی انتخابات کی جوبساط بچھائی گئی تھی اکثر دانشوران اور حکمران جماعت کے مطابق وہ بازی مسلم لیگ (ن) لے گئی اور پی ٹی آئی کے ساتھ ایک بار پھر ’’ہاتھ کوآیا منہ نہ لگا‘‘ والا معاملہ ہوا جبکہ غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ (ن) کو مجموعی طور پر ان انتخابات میں مات ہو ئی ہے اور صرف چند ہزار ووٹوں کی برتری سے صرف ایک حلقہ میں کامیابی ملی ہے اوریہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ اس جیت کے لیے دونوں پارٹیوں نے تگ و دو میں تمام قوانین و ہدایات کو روندکر صرف خزانوں کے منہ ہی نہیں کھولے بلکہ ایک دوسرے کے حفظ مراتب کو پس پشت ڈالتے ہوئے بیانات ،الزامات او رنت نئے القابات کے بھی اندھا دھند گولے داغے اور اتنے تک ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سرکاری مشینری اور سرکاری کارندے بھی اس الیکشن مہم کا حصہ رہے اور اس جیت کو ’’تخت لاہور کا فیصلہ ‘‘ قرار دیتے رہے ۔یہ انتخاب اس لیے بھی اہم تھا کہ دونوں حلقوں لاہور این اے 122 اور اوکاڑہ این اے 144سے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ممبر اسمبلی الیکشن ٹر بیونل فیصلے کی وجہ سے نا اہل قرار پائے تھے اور حلقہ این اے 122اس حوالے سے بھی اہم تھا کہ عمران خان جن چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کرتے رہے یہ ان میں سے ایک حلقہ تھا جس میں عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق 93ہزار سے زائد ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 84 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے اور انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس نتیجے کو عمران خان نے حکومتی سازش اور ملی بھگت قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا تھااور 2013 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے’’دھرنا سیاست ‘‘ میں ناکامی کے بعد الیکشن ٹریبونل سے رجوع کیا ،جس پر غوروفکر اور تحقیقات کے بعد الیکشن ٹریبونل نے حلقہ این اے 122کا نتیجہکالعدم قرار ددیتے ہوئے اس حلقہ میں دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم صادرکیا تھا۔اس فیصلہ پر کافی چہ مہ گوئیاں بھی ہوئیں اورپارٹی قائدین کا یہ مؤقف بھی سامنے آیا کہ اس فیصلہ کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جائے گا مگر پھر میاں نواز شریف نے اس فیصلہ کو عوام کی عدالت پر چھوڑ دیا تھا ،اورانتخابات کے لیے ایاز صادق کو ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) نے میدان میں اتار دیا جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف شش وپنج میں مبتلا تھی کہ اس متنازعہ الیکشن کو کسی غیر متنازعہ امیدوار سے لڑوانا چاہیئے اور اس میں پارٹی کے اندر اختلافات بھی پیدا ہوئے مگر عمران خان نے علیم خان کو امیدوار نامزد کر دیا ۔جبکہ پی پی پی کا امیدوار بھی موجود تھا مگر پی پی پی کہیں بھی نظر نہیں آئی ہر جگہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا ہی کانٹے کا مقابلہ رہا ،مگر اب کی بار پھرایاز صادق نے بازی مارلی جو کہ چند ہزار ووٹوں سے علیم خان کو شکست دے دی ۔دوسری جانب اوکاڑہ میں مسلم لیگ (ن) کہیں نظر نہیں آئی او بازی ایک آزاد امیدوار، ریاض الحق نے بازی مار لی اور پی پی پی 147میں بھی مسلم لیگ (ن) کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ، یوں صوبائی ا سمبلی کی دو سیٹیں ان کے ہاتھ سے نکل گئیں ،یہ جیت مسلم لیگ (ن) کے لیے لمحۂ فکریہ ہونی چاہیئے کہ لاہور جو مسلم لیگ (ن) کا ’’گڑھ‘‘ کہلاتا ہے اس میں صرف چند ہزار ووٹوں سے جیت وہ بھی سب جانتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں جیت ہمیشہ مقتدر حکومت کی ہی ہوتی ہے جبکہ حیرت انگیز یہ ہے کہ الٹا یہی کہا جا رہا ہے کہ عوام نے نہ صرف اس انتخاب کا فیصلہ دے دیا ہے بلکہ تخت لاہور کا فیصلہ بھی کر دیا ہے اور اسی پر بس نہیں کیا گیا میاں شہباز شریف نے تو جلتی پر تیل پھینکا اور کہا ’’ نون نے قارون کو شکست دے دی ‘ایسے میں پرویز رشید کیسے پیچھے رہتے انھوں نے بیان داغا کہ عمران خاں چوتھی بار بولڈ ہو گئے ہیں ،اور خواجہ آصف نے تو ہمیشہ کی طرح پھبتی کسی کہ ’’کوئی شرم ہوتی ہے ،کوئی حیا ہوتی ہے ‘‘ ویسے یہ بات سچ ہے اگر پارٹیزراہنماؤں کی تقاریر کو سنیں تو عوام بھی بے ساختہ یہی پکار اٹھتے ہیں ’’کوئی شرم ہوتی ہے ،کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ اور اب بھی ان نتائج کے بعد یہی عوام کو کہتے سنا جا رہا ہے ۔کیونکہ لاہوریوں نے مبہم فیصلہ دیا ہے جو کہ اس بات کا عندیہ ہے کہ ان ترقیاتی منصوبوں سے کسی کو کچھ لینا دینا نہیں لوگوں کو اپنی بنیادی ضروریات سے مطلب ہے ویسے بھی ان منصوبوں سے چند خواص ہی مستفید ہو سکیں ہیں جبکہ ملک کی مجموعی حالت پر نگاہ دوڑائیں تو آنسو،آہیں ،سسکیاں اور گرانی ہی گرانی ہے ،میاں صاحب کاش اپنے ملک کے شہروں کے بھی دورے کر کے دیکھیں کہ لوگوں کی کیا رائے ہے اور کیسے غریب دو وقت کی روٹی کھا رہا ہے ۔مگر یہاں مسلم لیگ (ن) کی سٹریٹیجی ہی کچھ اور نظر آئی کہ وہ اقربا پروری اور موروثی سیاست کو پروان چڑھاتے نظر آرہے ہیں ،یوں محسوس ہو تا ہے کہ انھوں نے لاہور کی ذمہ داری مکمل طور پر اپنی تیسری نسل کو منتقل کر دی ہے اوروہ اپنی نسل کو مستقبل کی قیادت کے لیے تیار کر رہے ہیں ،کیونکہ اس انتخاب میں جو کہ مسلم لیگ (ن) کے لیے عزت کا بھی مسئلہ تھا اس میں مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی براہ راست شرکت مفقود تھی ،سوال یہ اٹھتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے لیے کیا یہ الیکشن اتنا غیر اہم تھا یا انھیں اپنی جیت کا پہلے سے ہی اندازہ تھا ؟ کیا مسلم لیگ (ن) اب حمزہ شہباز شریف کو لاہور کی قیادت کے لیے تیار کر رہی ہے ؟ یہ سوالات تو وہ ہیں جو ہر با شعورشہری آج سوچ رہا ہے در حقیقت وہ جماعت جو دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئی اور بر سر اقتدار آئی وہ اپنی اصل کھو رہی ہے اور یہ کہنا آج بے جا نہ ہوگا کہ پی ٹی آئی مسلسل ملک کی دوسری بڑی زوردار جماعت بن کر ابھر رہی ہے اور اس کی مقبولیت کا گراف بلند ہوتا جا رہا ہے یہ الگ بات کہ پی ٹی آئی اپنی کمزور حکمت عملیوں کی وجہ سے اور موقع پرست راہنماؤں کی دھڑے بندیوں کی وجہ سے مسلسل پریشان نظر آرہی ہے مگرموجودہ نتائج نے پی ٹی آئی ورکرز کو یقین کی دہلیز پر لا کھڑا کر کے انھیں ہمت اور لگن بخشی ہے کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کچھ مختلف ہونگے ۔جہاں تک بات ہے بد عنوانیوں اور الیکشن کمیشن کی ناک کے نیچے پیسوں کے بے دریغ استعمال کی تو فی الوقت مالی اعتبار سے کسی متوسط تعلیم یافتہ شخص کے لیے انتخاب میں حصہ لینا نا ممکن ہو گیا ہے ،ارکان کی دو تہائی اکثریت جاگیر دار طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور وہ طبقہ صنعتوں پر ہی نہیں تمام جگہوں پر قابض ہو چکا ہے ایسے میں غریب تعلیمیافتہ شخص کا اقتدار میں ہونا سراب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ،ایسا ہی حال آزاد امیدواروں کا ہے جبکہ کسی بھی جمہوری ملک میں آزاد امیدوار کا تصور ہی نہیں ہوتا مگر ہمارے ہاں ایسے لوگ ہر انتخاب میں پیدا ہوتے ہیں ،اور ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنا ہوتا ہے ملک و قوم سے ان کو کچھ لینا دینا نہیں ہوتا ،افسوس ایسے امیدواران کی کھیپ عوام کے جذبات سے زیادہ کھیلتی ہے ۔مگرتاحال تو مسلم لیگ (ن) عوام ہی نہیں اپنے لیڈران سے اقربا پروری کے عفریت میں الجھ کر کھیل رہی ہے اور مسلسل اس دلدل میں دھنستی جا رہی ہے اگر مسلم لیگ (ن) نے پرانے مخلص قابل پارٹی ورکرز اور راہنماؤں کو نظر انداز کرنا اور عوام کے وعدوں کو ایفا کرنے پر نظر ثانی نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب پی پی پی کی طرح مسلم لیگ (ن) بھی بس تحریروں میں رہ جائے گی اور اس کے راہنما دوسری پارٹیز میں سائبان تلاش کرنے نکل کھڑے ہونگے ۔مسلم لیگ (ن) کو سوچنا ہوگا کہ وہ جماعت جسے پوری قوم کی محبتیں حاصل تھیں اور سب کی امیدیں اس سے وابسطہ تھیں ،اس کے مد مقابل بھاری اکثریت سے ایک پارٹی مسلسل مقبولیت حاصل کرتی جا رہی ہے ایسا کیوں ہے ،یہ بات ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ حلقہ 122سے ایاز صادق کا چند ووٹوں سے جیت جانا اور میاں برادران کے گھر کا نمائندہ محسن لطیف کا ناکام ہو جانا اور پھر فیصل آباد کے چوہدری شیر علی کا براہ راست بنیادی قیادت کوالٹی میٹم ۔۔خواجہ آصف اور چوہدری نثار کی اختلاف رائے اور اسی طرح کے کئی دیگر معاملات کہہ رہے ہیں کہ یقینا مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت کو ان کے ہی لوگ صرف اس لیے آنکھیں دکھانا اور بگڑنا شروع ہو گئے ہیں کیونکہ انہیں کوئی بہتر نعم البدل نظر آنے لگا ہے ،اگر بلدیاتی انتخابات کا آغاز ایسا ہے تو بعد از الیکشن بھیانک ہو سکتا ہے جو یقینا حکومت ہی نہیں عوام کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ اگر ملکی پارٹیاں سیاسی ہار جیت اور اپنی دھڑے بندیوں میں ہی الجھی رہیں تو ایسے میں عوام کا کون پرسان ہوگا ؟؟؟
Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 103248 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.