بچہ جمہورا کے انکشافات

استاد! بچہ جمہورا ادھر گھوم آ۔
بچہ جمہور! لو استاد جی گھوم آیا۔
استاد!بچہ جمہور! اپنے ارد گرد گہری نظر دوڑا ؤ اور مجھے حالات و واقعات کے بارے میں تجزیاتی رپورٹ پیش کرو۔

بچہ جمہورا : میں کچھ ہفتوں سے ملکی و غیر ملکی سیاسی ، سماجی، معاشرتی اور معاشی معاملات کو گہری نظروں سے دیکھ رہا ہوں ۔ مگر ابھی تک کوئی انقلابی تبدیلی آتے نہیں دیکھ رہا۔کرپشن و بد عنوانی کا شور شرابا ہے ۔ نیب نے جرات مندی کے مظاہرے شروع کر دئیے ہیں ۔ صوبہ سندھ کے بعض وزراء اور انتظامی افسروں کو شکنجے میں لیا ہے۔

استاد! بچہ جمہورا! کیا یہ صرف ڈرامہ تو نہیں۔ کیا معاملات اپنے انجام کو پہنچیں گے بھی کہ نہیں۔

بچہ جمہورا!استاد جی! وہ دن آ رہے ہیں جب بڑوں کی لگامیں کھینچ کر انکی صفیں سیدھی کر دی جائیں گی۔
استاد!بچہ جمہورا! مجھے تو امید نہیں کہ کوئی بڑا انجام کو پہنچے گا۔ ان لوگوں کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں۔ فوجی جرنیلوں ، بیورو کریٹس اور جسٹس صاحبان سے ان کی گہری رشتہ داریاں ہیں ۔ دولت کے انبار ہیں۔ بڑے نامی گرامی وکیل ان کی وکالت کے لیے پر تولتے نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں بھلااچھائی کی کوئی امید بر آ سکتی ہے ۔
بچہ جمہورا!استاد جی! آرمی چاہتی ہے کہ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ بد عنوانوں اور کرپٹ مافیاکو بھی پکڑا جائے کیونکہ دہشت گردی کے پیچھے بد عنوانوں کا بھی ہاتھ ہے۔ چند ایک کیس سامنے آئے بھی ہیں ۔ ہماری حساس ایجنسیاں متحرک ہیں اور وہ دور کی کوڑی لا رہی ہیں۔آپ لوگ دعا کریں کہ پاکستان کرپشن سے پاک ہو جائے تو پھر دیکھنا عوام کس طرح خوشحالی و ترقی سے ہمکنار ہوتی ہے۔

استاد! بچہ جمہورا! جب سے مسلم لیگ نے اقتدار سنبھالا ہے ملک عزیز بحرانوں کا شکار ہے ۔ ملک کے کونے کونے سے احتجاجی تحریکیں اٹھ رہی ہیں ۔ کبھی ڈاکٹروں کی تو کبھی نرسوں کی ، کہیں لوڈ شیڈنگ کے خلاف تو کہیں واپڈا کے خلاف کبھی کسانوں تو کبھی مزدوروں کا احتجاج ۔ بچہ جمہورا یہ کیا ہو رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان کشمکش تو کہیں حکمرانوں اور اپوزیشن کے درمیان دھینگا مشتی عجب سماں ہے میرے دیس کا۔
بچہ جمہورا! استاد جی! اب اخیر(End)ہونے والی ہے بس ایک ڈیڑھ سال کی پریشانی ہے پھر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔

استاد! بچہ جمہورا! جمہوریت میں عوام پرائم منسٹر کی بجائے آرمی چیف کو اپنا لیڈر بنا لیں تو کیا محسوس ہوتا ہے۔

بچہ جمہورا!استاد جی! یہ ہمارے سیاستدانوں کی کمزوریاں ہیں ورنہ جمہوری ملکوں میں ایسے تو نہیں ہوتابلکہ فوج جمہوریت کے تابع ہوتی ہے ۔ مگر ہمارے ہاں کچھ عجب سی صورتحال ہے۔ بس بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ۔

استاد جی!بچہ جمہورا! ایم کیو ایم نے کیا کیا تماشے شروع کر رکھے ہیں ۔ ان کی غیر سنجیدگی نے اردو بولنے والوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور پورے ملک کو سیاسی انتشار میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان لوگوں نے بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ سیاسی بلیک میلنگ سے ایم کیو ایم کا اپنا دامن داغدار ہوتا جا رہا ہے۔الطاف بھائی بھی برطانیہ کی پولیس کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ذہنی طور پر بہت گھبرائے ہوئے ہیں ۔ کیا پتہ کب کیا ہو جائے۔ عمران فاروق کے کیس میں بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ رابطہ کمیٹی میں دراڑیں پڑ چکی ہیں ۔ کئی ایک لیڈر زیر زمین چلے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم پر بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے ساتھ گٹھ جوڑ کے الزامات ہیں جن کا برطانیہ نے راز کھول دیا ہے ۔ اور کئی ایک ثبوت پاکستانی حکومت کو دے دئیے ہیں جن کی انکوائری ہونا باقی ہے ۔

بچہ جمہورا! استاد جی!بس کرو آپ دیکھتے جائیے اب کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے ۔ دیر اس لئے ہو رہی ہے کہ ہمارے بعض پڑوسی ممالک مداخلت پر اتر آئے ہیں ۔ بھارتی ایجنسیاں ہمارے بعض صوبوں میں انتشار اور دہشت گردی پھیلا کے ہماری افواج کے اعصاب شل کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ مگر اﷲ کی طرف دھیان دیجئے اور اس سے معافی مانگ کر مدد حاصل کیجئے ۔ انشاء اﷲ دشمن شکست کھائے گا۔ آخر ملک عزیز ایک بہت بڑی اقتصادی اور عسکری طاقت بن کر ابھرے گا۔

استاد! بچہ جمہوا! انشاء اﷲ ہماری افواج ان ظالموں کا قلع قمع کر کے چھوڑے گی۔ چاہے وہ بیرونی یا اندرونی دشمن ہیں۔بے شک عوام فوج کے ساتھ ہے۔ اور ہر نوع کی قربانی دینے کو تیار کھڑی ہے۔

بچہ جمہورا! استاد جی! کچھ بھی ہو دشمن کے عزائم بھسم ہو جائیں گے۔ اور ایک دن ایسا بھی آئے گا جب صاف شفاف جمہوری دور آئے گا ۔ فوج اس کے تابع ہو گی ۔ ہماری فوج جیسی کوئی فوج نہیں ۔ یہ اﷲ کی راہ میں کٹنا جانتی ہے اور محب وطن ہے۔ سیاستدانوں نے جی بھر کے فوج پر تنقید کے گولے چلائے ہیں اور دنیا میں بد نام کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ آخر عوام کی طاقت نے ان کے مقاصد مٹی میں ملا دئیے ۔ اب تو سوشل میڈیا پر صرف اور صرف آرمی چیف راحیل شریف کے نعرے لگ رہے ہیں۔

بچہ جمہورا!جی استاد جی! آپ سو فیصد درست فرما رہے ہیں ۔ ابھی ایک اور سیاسی طوفان اُٹھنے والا ہے جس سے مسلم لیگ کے اقتدار کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ ان کی آپس کی لڑائیاں جھگڑے کسی بڑے طوفان کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔ ن لیگ کے اپنوں میں ٹھن گئی ہے جس کا انجام خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایک سیاسی پیر کامل نے بتایا ہے کہ جنوری 2016ء ن لیگ کے لیے منحوس مہینہ ہو سکتا ہے۔ کالے بکروں کا صدقہ دینے سے شاید بَلا ٹل جائے-
Maqsood Anjum Kamboh
About the Author: Maqsood Anjum Kamboh Read More Articles by Maqsood Anjum Kamboh: 38 Articles with 32765 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.