بوڑھے کی لاٹھی ۔ قسط ٣

باپ بیٹے کی ایک سچی کہانی باپ کے بڑھاپے کی جوان بیٹا جب لاٹھی بنا

اس کی سوچ میں یہ تبدیلی ۱۷ سال کی عمر آئی جب جمعہ کی نماز میں اس نے یہ حدیث سنی۔

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا : اس کی ناک خاک آلود ہو ،پھر اس کی ناک خاک آلود ہو : آپ سے سوال کیا گیا یا رسول اللہﷺ وہ کون شخص ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین کو پایا ، ان میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو پا لیا پھر بھی "ان کے ساتھ حسن سلوک کر کے" جنت میں داخل نہیں ہوا۔

شائد اس حدیث کے الفاظ سے وہ اپنے آپ کو کبھی بھی الگ نہیں کرپایا ۔اسے یہی خوف رہا کہیں اس کا ناک خاک آلود نہ ہو جائے۔

قران پاک کے اندر سورۃ بنی اسرائیل میں ان آیات میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم جب اس نے پڑھا کہ
"اور تمھارے رب نے حکم فرمایا ہے کہ اس کےسوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کوپہنچ جائیں تو ان سے ہوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنااور ان سے تعظیم کی بات کہنااور ان کے لئے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کرکہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کرجیسا کہ ان دونوں نے مجھے چھٹپن میں پالا"

تو اب اس کے لئے اللہ تعالی کے حکم سے روگردانی کا سوال پیدا ہونے کا امکان نہیں تھا ۔مقصد اس کے سامنےتھا۔ بوڑھے والدین کو چھوڑنا نہیں۔

کئی سال اپنے ابا جی کو اٹھانے سے وہ خود بھی کمر کی شدید تکلیف کا شکار ہو گیا۔ اور درد دن بدن بڑھتا ہی رہتا۔ خود بھی اسی ڈاکٹر کا مریض بن گیا جو کبھی اس کے ابا جی کا ڈاکٹر تھا ۔عزیز رشتہ دار تو اب آپس میں باتیں کرتے کہ اتنی پر آسائش زندگی اور بے بہا دولت ہونے کے باوجود ملازم کیوں نہیں رکھ لیتا، ان کے لئے۔ خود اٹھاتا، بیٹھاتا، نہلاتا، دھلاتااور نجاست کی صفائی خود ہی کرتا ہے ۔بیمار ہو گیا ہے یہ دولت کس کام کی ہے۔
مگر وہ کیا بتاتا کسی کوکہ انہیں سنبھالنے کا حکم صرف اس کے لئے ہے۔ کیسے سمجھ پائیں گے اللہ تعالی سےاپنی معافی کا راستہ ماں باپ کی خدمت میں نظر آیا اسے۔

اور جس دولت کی وہ بات کرتے ہیں وہ تو آزمائش ہے۔ اللہ تعالی نے اسے اسی خدمت کے صلے میں اسے انعام کیاہے۔ ورنہ وہ اس وقت کو آج تک نہیں بھول پایا ۔جب اس کے ابا جی ولیمے کے دن ایک سوال پر ٹھہر گئے تھے "بیٹا مہمانوں کے لئے کھانا پورا ہو جائے گا"اور یہی سوال ہر دس پندرہ منٹ بعد دہراتے۔

بات ماہ دو ماہ کی ہوتی۔ تو الگ بھی تھی ۔اب تو اس کا پورا وجود اپنے ابا جی کی روح میں ڈھل چکا تھا۔ اسے وہ دن بھی ابھی یاد تھے جب اس بیماری کی اگلی سٹیج میں گھر سے سیر کرنے کے لئے اچانک خاموشی سے نکلتے اور بھول جاتے کہ وہ کون ہیں ،کیا نام ہے ان کا، کہاں رہتے ہیں۔ سڑکوں پر اپنے ہی گھر کے سامنے سے بار بار گزر جاتے اور اپنے گھر کی پہچان بھول جاتے۔ کئی بار تو ایسا ہو چکا تھا !

دنیا میں نیک انسانوں کی کمی نہیں۔ ایک بار تو ایک رکشہ والے کو انہوں نے روکا اور کہا میں اپنا گھر بھول گیا ہوں ۔اس نے ساتھ بٹھایا ۔تو ایک گھنٹہ ان کو لئے پھرتا رہا اور وہ خود ابا جی کو موٹر سائیکل پر گلیوں محلوں میں تلاش کر رہا تھا۔ ابا جی کی اپنے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے پہچان واپس آ گئی تو رکشے والا اتار کر چلا گیا ماں جی نےکچھ پیسے دینے چاہے۔ تو اس نے لینے سے انکار کر دیا تھا ۔ چار بار ہو چکا تھا دو بار تو وہ خود دوتین گھنٹے گلیوں بازاروں میں گھوم گھوم کر ڈھونڈ لایا تھا اور دو بار جنہوں نے ابا جی کی مدد کی وہ انتہائی غریب لوگ تھے۔ وہ ہمیشہ ابا جی کو لانے والوں کو دعائیں دیتا ۔

دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں بدلتے جا رہے تھے ۔ اس کی شادی کوچار سال گزر چکے تھے۔ اسی دوران اس کے ہاں دوسرا بیٹا پیدا ہوا ۔گھر میں سبھی خوش تھے ۔

اب تو اس کے ابا جی کا پیشاب پاخانے پر کنٹرول مکمل ختم ہو چکا تھا۔ باتھ روم لے کر جاتے تو کچھ نہ کرتے واپسی پر چلتے جاتے اور جہاں جہاں سے گزرتے کپڑوں سے لے کر فرش تک نجاست بہہ جاتی ۔

بیٹا میں جان بوجھ کرنہیں کرتا ۔مجھے پتہ ہی نہیں چلتا۔اپنی صفائی وہ خود ہی دینے کی کوشش کرتے ۔

مجھے علم ہے ابا جی !

آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ میں صفائی کردیتا ہوں۔ وہ فوری ابا جی کو تسلی دیتا ۔

یہ تو اب معمول بن چکا تھا ۔کبھی بستر تو کبھی قالین صحن میں دھو کر رکھا جاتا تھا ۔ماں جی کے ساتھ ان کا وقت گزر جاتا تھا ۔

اس کی ماں کی پتے کی پتھری اپریشن نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف بہت بڑھ چکی تھی ۔کئی بار ہاسپٹل میں داخل رہ چکے تھے۔ ڈاکٹر وں کا کہنا تھا کہ اپریشن سے جان کا رسک ہے۔ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ اسے نکلوا دیا جائے۔ ڈیفنس میں ایک ڈاکٹر کا اسے علم ہوا کہ وہ جدیدٹیکنالوجی لیپراسکوپی سرجری کے ذریعے اپریشن کرتا ہے۔ ڈاکٹر سے اس نےبات چیت کی۔ ڈاکٹر نے تسلی دی کہ خطرے والی بات نہیں ہے۔ ہائی بلڈ پریشر، ہیموگلوبن کی کمی اور ہارٹ ان لارج کے باجود اس میں رسک بہت کم ہے۔ کیونکہ اس وقت شہر میں وہ اکیلا ہی اس شعبہ میں تھا ۔سو ایک بڑی رقم کا اس نے تخمینہ بتایا۔ مگر یہاں اسے رقم سے زیادہ اپنی ماں جی کی صحت کی فکر تھی۔ کیونکہ جب سے اس نے اباجی کی زرعی زمین پر خودکاشت کا کام شروع کیا۔ دولت کی ریل پیل تھی ۔

تکلیف اتنی بڑھ چکی تھی۔ کہ اب لمبا انتظار ممکن نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے تیاری کے بعد انہیں بلایا۔ اپریشن کیا اور باہر آکر خوش خبری سنائی کہ اپریشن کامیاب رہا اور ساتھ ہی ایک ایسی خبر جو وہ سننے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔کہ پتھری اتنی بڑی ہو چکی تھی، جگر اس سے متاثر ہوا ہے اور اس نے جگر کے متاثرہ حصے کی بھی سرجری کر دی ہے اور اسے بائیوپسی کے لئے بھجوا دیا گیا ۔ دو دن بعد وہ ماں جی کو لے کر گھرچلے گئے چند روز بعد وہ بائیوپسی کی رپورٹ لے کر ڈاکٹرکے پاس گیا ۔تو وہ خبر اس پر بجلی بن کر گری ۔جگر کا کینسر تشخیص ہوا تھا ۔تفصیل بتاتے ہوئے ڈاکٹرنے کہا ایسے مریض چھ ماہ یا آٹھ ماہ سے زیادہ زندگی نہیں پاتے۔
ڈاکٹر کے یہاں سے نکل کر وہ جناح باغ چلا گیا درختوں کی پناہ میں کھلی فضا میں۔

سگریٹ پہ سگریٹ سلگائے جارہا تھا اور صرف ایک خیال اس کے ذہن میں پیوست ہو کر رہ گیا کیا میری ماں اب مہینوں کی مہمان ہے ۔یہ دن دیکھنا باقی تھا ۔کہ اپنی نظروں کے سامنے ہر پل موت کی طرف جاتا دیکھوں اور دوسری طرف ابا جی کی بگڑتی ذہنی اور جسمانی حالت اور اب یہ روح فرسا خبر ۔

دیر تک اپنے آپ سے جنگ کرتا رہا اور خدا سے اپنے لئے ہمت اور حوصلہ کی دعا مانگتا رہا۔ اس نے پھر ایک نئی طاقت کو اپنے اندر محسوس کیا کہ جس میرے مالک نے مجھے ان مشکلات سے لڑنے کی طاقت پہلے دی۔ اب بھی وہی دے گا اور گھر کی طرف روانہ ہوا ۔

کیا رپورٹ آئی ہے ماں کے سامنےبڑی بہن نے سوال کیا !

بالکل ٹھیک ہے۔ وہ جھوٹ بول گیا اور اسی طرح مسکراتے ہوئے ماں جی سے ہنسی مذاق کرنے لگا ۔

زندگی میں پہلی بار وہ اداکاری کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا ۔مگر بدلا رویہ اس کی چغلی کر رہا تھا۔ نہ جانے اس کی بڑی بہن نے اس ہنسی کے پیچھےدرد کو کیسے دیکھ لیا اور چند روز کے بعد ہی ایک الگ کمرے میں اسی لے گئی اور پوچھنے لگی سچ بتا رپورٹ میں کیا ہے۔ تیرا چہرہ مجھے کچھ اور کہتا ہے۔ وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔دونوں بہن بھائی کافی دیر تک روتے رہے ۔انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ماں جی کو پتہ نہیں چلنا چاہیئے۔ کہیں ان کی ہمت نہ ٹوٹ جائے ۔

ابا جی تو بیماری کے ہاتھوں پہلے ہی ان باتوں سے لاتعلق ہو چکے تھے ۔

اس کی ماں کی دن بدن حالت بگڑتی جارہی تھی۔ اپریشن سے پہلے انہوں نے بیٹے سے کہا تھاکہ اس بار جب فصل آئے گی ۔گھر کے تمام اینٹوں کے بنے ہوئے فرش اکھاڑ کر سیمنٹ کا فرش لگوانا ہےاور سٹور بنانے ہیں۔ صفائی میں بہت مشکل ہوتی ہے اور ایک مجھے اپنے لئے نیا پلنگ بنوانا ہے ۔جس کے پیچھے دراز زیادہ ہوں ۔
جی ماں جی ضرور ! کہہ کر ماں سے وعدہ کیا تھا۔

ڈاکٹر نے زندگی جینے کا وقت مقرر کر رکھا تھا۔ مگراسے ماں سے کئے گئے وعدہ کا پاس تھا ۔فصل کی رقم ملتے ہی اس نے پلنگ کا آرڈر دے دیا ۔جیسا ماں چاہتی تھیں اور گھر کے تمام فرش اکھیڑ دئیے اور مستری سے ایک ماہ میں اسے مکمل کرنے کا کہا ۔ خاندان کے بعض افراد اس بات سے ناراض دکھائی دیئے کہ ایسی بیماری اور گھر میں مرمت کا کام ۔

مگر اسے صرف ایک بات کی خواہش تھی۔ ماں جی نے جو خواہش کی ہے وہ ان کی زندگی میں پوری ہو۔ جسم ان کا سوکھ کر کانٹا بنتا جا رہا تھا۔ کینسر اندر ہی اندر پوری طرح پھیل چکا تھا ۔جب فرش تیار ہو گئے ۔تو اپنی ماں کو اٹھوا کر صحن میں لایا اور اس نے کہا ! ماں جی ! جیسا آپ نے کہا ویسا ہو چکا ہے۔ انہوں نےغور سے صحن کو دیکھا اور بہت دھیمی آواز میں کہنے لگیں میں ٹھیک ہوتی تو اس سے بہتر کام کرواتی لیکن پھر بھی ٹھیک ہے ۔

کینسر نے چھ ماہ میں پورے وجود کو پہلےمکمل زیر کیا۔ پھر اذیت پر اتر آیا۔ درد کی شدت اب بڑھ رہی تھی۔ ڈاکٹر خوش مزاج نہیں تھا بس چیک کرتا اور نسخہ ہاتھ میں دے کر چلتا کر دیتا۔ ماں جی نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔تو نئے ڈاکٹر کا انتخاب کیا گیا۔جو اپنے شعبہ کا ماہر اور نہایت خوش اخلاق خوش گفتار بھی تھا۔ پل پل موت اپنا گھیرا تنگ کر رہی تھی اور ڈاکٹروں کی دی گئی معیاد پوری ہوئی اور آٹھویں ماہ وہ زندگی کی جنگ ہار گئیں۔

انہیں دفنانے کے بعد جب وہ واپس لوٹا۔ تو ابا جی کسی بھی طرح کے رد عمل سے بے نیاز اپنے کمرے میں سستا رہے تھے۔ اور وہ سوچ رہا تھا کہ اب اسے زندگی کی یہ جنگ اکیلے لڑنی ہے۔ ماں کا سہارا ختم ہو چکا تھا۔ ایک دعا دینے والے ہاتھ اب اس کے پیچھے نہیں تھے۔

انسانی دماغ کے خلیات کیسے کام کرتے ہیں۔ میڈیکل میں اسے مختلف نام دئیے گئے ہیں۔ مگر اباجی کے ساتھ جو ہو رہا تھا وہ اسے کیا نام دیتا ۔ کینسر ،دل کی بیماری اور فالج کی معلومات تو اسے کافی تھی مگر اس بیماری کا انجام کیا ہو گا۔ اس بات سے لا علم تھا ۔

روز بروز بڑھتی بیماری اس کے لئے نئی سوچ کے دروازے کھول دیتی۔ ہاتھوں کی انگلیاں مٹھی کی مستقل شکل اختیار کر چکی تھیں۔ جیسے انگلیاں انگوٹھوں کو آزادی نہ دینے کی ضد پر اوپر ایسے جم چکی تھیں ۔کہ ان کا ہلنا بھی ممکن نہ تھا۔ ٹانگیں بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کر رہی تھیں۔

وہ سوچتا کہ کیسے ممکن ہے ۔انسان اچانک ہی کسی بات کو بھول جائے اور پھر یہ بھی بھول جائے کہ ہاتھوں سے گلاس یا چمچ کو کیسے پکڑا جاتا ہے ۔اور انتہا تو یہ کہ دست لگنے کی وجہ سے دو دن پلنگ پر رہنے سے یہ بھول جائے کہ اسے چلنا کیسے ہے۔ اس کے اباجی کے ساتھ یہ سب یکےبعد دیگرے ہو رہا تھا ماں جی کو فوت ہوئے تین سال ہوئے تھے ۔کہ دستوں نے ایسا کمزور کیا پھر انہیں اٹھنے کے لئے کہا تو پوچھنے لگے کیسے چلوں۔ ٹانگیں ان کے دماغ سے آزاد ہو چکی تھی۔ اب وہ کسی حکم کی محتاج نہیں تھیں ۔بلکہ اپنی مرضی کی مالک خود مختار اس جسم کو اپنے اوپر بوجھ محسوس کر رہی تھیں اور پھر اس کی تقلید میں بازو، ہاتھ بھی ساتھ شامل ہو گئے اور خود مختا ری کا باری باری اعلان کرنے لگے-------
باقی آئندہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Mahmood ul Haq
About the Author: Mahmood ul Haq Read More Articles by Mahmood ul Haq: 93 Articles with 87738 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.