پاکستان میں پہلی بار کوئی صدر
اپنے اختیارات کم کرنے کے بل پر دستخط کرے گا۔ اٹھارویں ترمیم کی منظوری سے
1973 ء کا آئین اصل شکل میں بحال ہو جائے گا جس سے ملک کے جمہوری ادارے
مضبوط ہوں گے۔73 کا آئین ذوالفقار علی بھٹو نے دو لخت پاکستان کے اس حصے کو
دیا تھا۔ جسے مغربی پاکستان کہا جاتا تھا۔ بھٹو نے 73 کا متفقہ آئین بنایا۔
لیکن وہ اس آئین کی روح پر پوری طرح عمل نہ کرسکے۔ اپوزیشن ارکان کو اسمبلی
سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا۔ بلوچستان کی جمہوری حکومت ختم کر کے صوبے
میں پہلی بار فوج کا آپریشن کیا گیا۔ صوبہ سرحد کی اے این پی کو خلاف قانون
قرار دیا۔ ولی خان اور ان کی جماعت پر حیدرآباد جیل میں غداری کا مقدمہ
چلایا گیا۔ بھٹو صاحب کی پارہ صفت طبعیت میں ٹہراﺅ نہ تھا۔ وہ ہر آن کوئی
نہ کوئی جنگ جاری رکھتے۔ اپوزیشن سے ان کی جنگ نے انہیں اقتدار اور زندگی
سے محروم کیا۔ اور ملک کو مارشل لاء اور فوجی حکمرانوں کے سپرد کردیا۔ بھٹو
73 کے آئین کی روح پر عمل کرتے تو پاکستان کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ یہ بھی
تاریخ کا جبر ہے کہ بھٹو نے جو آئین بنایا تھا۔ آج ان کے داماد اور ان کی
سیاسی جماعت پیپلز پارٹی ہی اس کا چہرہ سنوار رہی ہے۔ کئی دہائیوں کے بعد
یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کی سیاسی و فوجی قیادت، پارلیمان اور عوام، تمام
سیاسی جماعتوں میں آئین میں اٹھارویں ترمیم کے مسودہ پر اتفاق رائے پایا
جاتا ہے توقع کے مطابق رواں ہفتے کے آخر میں پارلیمان کے دونوں ایوان اس بل
کو منظور کرلیں گے۔ اس ترمیم کی منظوری کے بعد صدر آصف علی زرداری کو حاصل
کئی اہم اختیارات پارلیمان اور وزیر اعظم کو واپس مل جائیں گے اور صدر محض
ایک علامتی سربراہ مملکت ہوں گے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ صدر کو اپنے طور پر حکومت اور پارلیمان کو تحلیل کرنے
یا پھر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔58 ٹو بی کی شق سابق
فوجی حکمران ضیا الحق کے دور میں آئین میں متعارف کرائی گئی اسی شق کو
استعمال کرتے ہوئے ماضی کے پاکستانی صدور نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی
منتخب حکومتوں کو برطرف کیا تھا۔ نئی ترمیم کے بعد مستقبل میں فوجی بغاوتوں
کی حوصلہ شکنی کے لیے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین کی شق چھ میں تبدیلی کر
کے اب دستور کو معطل کرنے کا اقدام بھی سنگین غداری کے زمرے میں آئے گا۔ اس
کے علاوہ ججوں کی تعیناتی کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں
ایک سات رکنی کمیشن تشکیل دیا جائے گا تاہم اس کی سفارشات کی حتمی منظوری
کا اختیار پارلیمان کے ایک آٹھ رکنی کمیشن کو دیا گیا۔ بعض آئینی ماہرین کی
رائے ہے کہ اس شق سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی۔ اس ترمیم میں صوبہ سرحد کا
نیا نام خبیر پختون خواہ تجویز بھی شامل ہے۔ جس پر اے این پی خوشیاں منا
رہی ہے۔ اور خوشیوں کے اس جشن میں دو دن پہلے اس نے ۴۳ افراد کی شہادت دی
ہے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کا بل پارلیمان میں منظوری کے لیے ایک ایسے
وقت پیش کیا گیا ہے جب سپریم کورٹ کی طرف سے حکومت پر اس دباؤ میں مسلسل
اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ وہ صدر زرداری کے خلاف سوئس مقدمات دوبارہ کھولنے
کے لیے فوری اقدامات کرے۔ صدر آصف علی زرداری 58 ٹو بی کی تلوار اپنی نیام
سے نکال کر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو پیش کررہے ہیں۔ جو واقعی بڑے دل
گردے کی بات ہے۔ 58ٹو بی پاکستان کی دہکتی آگ نے ملک کی تین جمہوری حکومتوں
کو جلا ڈالا۔ 58 ٹو بی اور وزیراعظم صدر اختلاف کی تاریخ خاصی ہولناک ہے۔
آج تک جتنی حکومتیں ختم ہوئی ہیں، آمریت آئی یا جمہوری حکومت رخصت ہوئی اس
میں صدر اور وزیراعظم کا کہیں نہ کہیں اختلاف ضرور حکومت اور اسمبلی کے
خاتمے کا سبب بنا۔ اس کی کاٹ کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک ہی
پارٹی کے صدر فاروق لغاری نے اپنی پارٹی کی وزیر اعظم کو اس چھری سے ذبح
کردیا تھا۔ لیکن اب حالیہ ترمیم میں یہ شق ختم کی جارہی ہے۔ اور یہ صدر آصف
علی زرداری کے ہاتھوں سے ہورہا ہے۔ جو اس وقت کسی نہ کسی شکل میں ملک کی
وحدت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ انھیں اس کا کریڈٹ ضرور دیا جانا چاہئے۔ پھر
اس سسٹم کو چلنے بھی دیا جائے۔ تاکہ ملک میں جمہوریت کی روایات پنپ سکیں۔
پاکستان کھپے کا نعرہ ہی نہیں اس کے لئے اب کام بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ اور
اس کے لئے آصف زرداری بہت موزوں شخصیت ہیں۔ |