کیا واقعی 18ویں آئینی ترمیم غریب عوام کے لئے بھی خوش آئند ثابت ہوگی

کیا صدر زرداری کا پارلیمنٹ سے خطاب سنگِ میل ثابت ہوگا......؟

ُٓیہ حقیقت ہے کہ ملک میں متفقہ طور پر منظور کئے گئے1973کے آئین کو بگاڑنے کے ذمہ دار ہمارے یہاں مختلف ادوار میں حیلے بہانوں سے آنے والے وہ سابقہ آمر صدور ہیں کہ جنہوں نے اپنی مرضی و منشا اور اپنی کھلی دھونس و دھاندلی کے ذریعے نہ صرف اراکین ِ پارلیمنٹ کو ڈرا دھمکا یا بلکہ بعض کو تو وزارتوں کا لالچ بھی دے کر اِن کو مجبور کیا کہ وہ اِس 1973کے آئین میں ترامیم کریں اور پھر اِس کے بعد قوم کے حصے میں مایوسیوں اور نااُمیدوں کے ایسے لمبے سائے آئے کہ جن سے قوم آج تک اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکی ہے۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ آمر صدور کی ترامیم سے قبل 1973 کا آئین ایک مکمل طور پر دستوری آئین تھا جِسے اُس وقت کے حبِ الوطن حکمرانوں اور ملک کی تمام بڑی چھوٹی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے خالصتاً ملک کی ترقی و خوشحالی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے متفقہ طور پر بنایا تھا جو یقیناً ملک میں شائد پہلی بار کسی جمہوری حکومت کا ایک اچھا اور قابلِ تعریف کارنامہ تھا۔

مگر محض اِس بنا پر کہ یہ 1973 کا آئین کیوں کہ جمہوری حکومت کا ایک اچھا کارنامہ تھا اِس ہی لئے تو اِس آئین میں جتنی ترامیم ہمارے ملک کے سابقہ آمر صدور نے کرائیں اور جس طرح اُنہوں نے اِس آئین کی اصل شکل بگاڑی ہے اُتنی تو ترامیم شائد سول صدور بھی نہ کرسکے ہیں۔

اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یوں آمریت کے علمبردار اور جمہوریت سے خائف آمر صدور نے جو حشر اِس متفقہ طور پر منظور کئے گئے 1973 کے آئین کا کیا اِس کا خمیازہ برسوں سے ساری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے گویا کہ آمر صدور کے نزدیک اِس آئین کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی ایسا لگتا ہے اُنہوں نے اِسے گیلی مٹی کا ایک کھلونا جان کر ایسا کیا تھا جس کی شکل تبدیل کر کے ہر آنے والے آمر صدر نے اِسے اپنی پسند کے کھلونے میں ڈھالا اور وہ خود بھی کھیلا اور پھر وہ اپنے دوسرے آنے والے آمر بھائی کے کھیلنے کے لئے اِسے چھوڑ گیا۔

اور آج یہی وجہ ہے کہ اگر پاکستان کو پارلیمانی لحاظ سے دیکھا جائے تو اِس کی تاریخی حیثیت جا بجا بے شمار نشیب و فراز اور ایسے پارلیمانی واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جنہوں نے ملک پر اپنے ایسے اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں کہ یاد کر کے قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے اِس حوالے سے ہمارے آمر حکمرانوں کے ایسے ایسے گھناؤنے کارنامے اور اِن کی کارستانیاں ہیں کہ اِنہیں شائد کبھی بھی تاریخ کی کتاب کے اوراق سے آسانی سے صاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔

مگر الحمدللہ یہ کریڈٹ آج ملک کی عوامی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی اِس جمہوری حکومت کے اِس جمہوری صدر جناب آصف علی زرداری کو ہی جاتا ہے کہ جنہوں نے اپنی فہم و فراست اور اپنی دانشمندی اور دور اندیشی سے وہ کام کر دیکھایا ہے جو اِس ملک میں آنے والے آمر صدور کے بعد کسی بھی سول حکومت کے جمہوری صدر کے حصے میں نہ تو آسکا تھا اور نہ اَب اِس کے بعد کسی بھی صدر کے حصے میں اتنا بڑا اور اہم کام کبھی آسکے گا۔ اِس طرح صدر مملکت جناب آصف علی زرداری ہی ملک کے وہ منفرد صدر قرار پائے ہیں کہ جنہوں نے آمرانہ دور کی پارلیمنٹ سے آئین پاکستان میں کرائی گئی17ویں ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے لئے 5اپریل کی شام پارلیمنٹ سے اپنے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران 1973 کے آئین کی اصل حالت میں بحالی اور 18ویں ترمیم کا اعلان کرتے ہوئے قومی و بین الاقوامی ایشوز پر تفصیلی روشنی ڈالی اِس طرح صدر مملکت جناب آصف علی زرداری ملک کے وہ پہلے جمہوری صدر ہیں جنہوں نے مسلسل تیسرے سال پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کا بھی شرف حاصل کیا۔

جبکہ اِن سے قبل پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں 1985سے 2009تک صرف6 پاکستانی صدور ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے 19مرتبہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا جبکہ صدر آصف علی زرداری نے 20 ستمبر 2008 کو پہلا اور 28 مارچ 2009 کو دوسراخطاب کیا اور اِسی طرح 5 اپریل2010 کو موجودہ جمہوری حکومت کے دور میں تیسری مرتبہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر کے پاکستان میں پارلیمانی سال کا آغاز کیا جبکہ ملک کے سابق اور دوسرے وہ آمر صدر ضیاالحق تھے کہ جنہوں نے 23مارچ 1985 کو پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر کے پارلیمانی سال کا آغاز کیا تھا اِس اِس لحاظ سے اِن سے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ضیا الحق ملک کے وہ صدر تھے کہ جنہیں ایک آمر صدر ہونے کی حیثیت سے 5مرتبہ پارلیمنٹ سے خطاب کرنے کا شرف حاصل ہے۔

بہرکیف!ملک کے موجودہ صدر آصف علی زرداری نے 5اپریل 2010 کی شام پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنا تاریخ ساز خطاب کر کے اُن تمام ابہام اور مخمصوں کو یکدم سے خاک میں ملا دیا جو گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں 18ویں ترمیم کے حوالے سے عام تھے جس میں اُنہوں نے والہانہ انداز سے اِس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کو ایک صحیح اور حقیقی معنوں سے جمہوری ملک بنانے اور وطن عزیز کو ایک آئینی ملک بنانے کے لئے ہر صورت میں آمرانہ ترمیم منسوخ کی جانی ناگزیر ہے اور صدر نے کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ کی بالادستی بحال کرنے کا وعدہ پورا اور نئی تاریخ رقم کردی ہے اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے انتہائی پرتباک انداز سے اراکین پارلیمنٹ اور قوم سے مخاطب ہو کر اپنے مخصوص اور منفرد لہجے میں کہا کہ ”جمہوریت کمزور تو ہوسکتی ہے مگر غیر ذمہ دار نہیں“اور اُنہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اٹھارویں ترمیم ہر حال میں بالا تاخیر منظور کرے اور اِس کے ساتھ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے مصائب کا بھی پورا پورا علم ہے ہم اِس کے تدارک کے لئے بھی اقدامات کر رہے ہیں اور ہم یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ قوم کو اِن سے جلد نجات دلوائیں گے۔

اگرچہ صدر مملکت کی یہ تقریر کسی حد تک رسمی تو ضرور کہی جاسکتی ہے مگر اِس کے باوجود بھی سیاسی اعتبار سے صدر کی یہ تقریر ملک کے سیاستدانوں کے لئے ایک سنگِ میل ضرور ثابت ہوگی جس میں اُنہوں نے واضح اور دو ٹوک انداز سے یہ کہا ہے کہ وہ اِس 18ویں ترمیم کے منظور ہوتے ہی صدر کے بیجا اختیارات جو اِن کے پاس تھے فوراً منتقل کردیں گے اور اِس طرح ملک کے سیاسی حلقوں میں پایا جانے والا یہ اثر بھی بڑی حد تک زائل ہوگیا کہ صدر مملکت اپنے وہ اختیارات جو آمر حکمرانوں نے 1973کے آئین میں اپنی مرضی سے ترمیم کرا کے اپنے پاس جبراً رکھے تھے وہ اختیارات صدر مملکت وزیراعظم کو دے دیں گے۔

اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی انتھک محنت اور رات دن کی مشقت کے آج وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں 18 ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر بحث شروع ہوگئی ہے اور اُمید کی جارہی ہے کہ اِس پر بحث کا عمل آئندہ چند ایک دنوں میں مکمل ہوجائے گا اور پھر اِس کے بعد بالا تاخیر 18ویں آئینی ترمیم کو بھاری اکثریت سے پارلیمنٹ سے منظور بھی کر لیا جائے گا جو ملک اور قوم کے لئے شائد کسی حد تک توایک خوش آئندہ امر ہو۔ مگر یہاں اِس کے بعد پھر بھی یہ سوال اور اِس جیسے بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا گارنٹی ہے کہ ملک میں تمام ادارے مستحکم اور مضبوط رہیں گے؟ اور اپنی اپنی حدود میں کام کریں گے.....؟یا یوں ہی لڑتے جھگڑتے رہیں گے.....؟ یہ حکمران جو اَب اٹھارویں ترمیم کی خوشی میں اپنے سینے پھولا پھولا کر جشن بنا رہے ہیں کیا یہ واقعی اِن سوالات کا تسلی بخش جواب دے سکیں گے .....؟جو کافی عرصہ سے اٹھارویں آئینی ترمیم کے لے بیتاب تھے۔

اگرچہ پارلیمنٹ سے اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد بھی شائد ملک کے ساڑھے سوالہ کروڑ غریب اور مفلوک الحال عوام کو تو کوئی ریلیف نہ ملے مگر حکمرانوں کو اپنی کرسی بچانے اور طویل عرصہ تک اپنے اقتدار پر قابض رہنے کا ایک سُنہرا موقع ہاتھ آجائے گا۔ اور جس کے بعد حکمرانوں کے دلوں میں خوف خدا ہوا اور اُنہوں نے اگر چاہا تو ملک کی غریب عوام کو کچھ ریلیف مل سکے ورنہ اِن کے دلوں میں کبھی بھی خوف خدا پیدا نہ ہوا اور اِنہوں نے کبھی بھی ملک کے غریب عوام کی حالتِ زار بدلنے کا نہ سوچا تو یہ سمجھ لیا جائے کہ ملک کے غریب اور بھوک کے مارے عوام 18ویں آئینی ترمیم کے بعد بھی دو وقت کی روٹی کو ترستے رہیں گے اور مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور بیروزگاری جیسے مسائل یوں ہی اِن کا مقدر بنے رہیں گے اور حکمران ایوانوں سے اٹھارویں آئینی ترمیم منظور کرالینے کے بعد خود ہی عیش کرتے رہیں گے اور یہ کہتے رہیں گے کہ یہ حقیقی معنوں میں”18ویں آئینی ترمیم ملک و قوم کے لئے سنگِ میل ثابت ہوگی“.....؟؟
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971989 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.