مُردوں کو پوجنے والے

ہم چند دوست محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش گاہ (جس کو آج کل اکثر و بیشتر ایک ”سب جیل“ کا درجہ بھی حاصل رہتا ہے) پر ان سے ملاقات کے لئے موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب ابھی ملاقات کے کمرہ میں تشریف نہیں لائے تھے اس لئے اس نشست گاہ میں موجود الماری میں رکھی کتابوں پر نظر ڈالی تو حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوئی۔ کتابوں میں قرآن کریم کی تفاسیر، احادیث کی کتابیں، مسلم مشاہیر کے بارہ میں کتابیں اور شعر و شاعری کی کتابیں وافر مقدار میں موجود تھیں۔ جب ڈاکٹر صاحب تشریف لائے اور ان سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تو محسوس ہوا کہ وہ قید تنہائی کی وجہ سے کس کرب میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اڑھائی تین گھنٹے کی اس ملاقات میں ان سے ڈھیروں باتیں ہوئیں۔ وہ ایک عظیم سائنسدان تو ہیں ہی لیکن وہ ایک بہت اچھے مسلمان اور انسان بھی ہیں۔ انتہائی ملنسار، مہمان نواز، خدا ترس اور انسان دوست! کم و بیش چوہتر برس کی عمر ہونے اور تمامتر اوچھے حکومتی ہتھکنڈوں اور ان کے نتیجے میں اذیت محسوس کرنے کے باوجود ان کا دل دھڑکتا ہے تو اپنی مادر وطن کے لئے، ان کے دل میں اس ملک اور قوم کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ ایک سیلاب، ایک سمندر کی طرح محسوس ہوا۔ ڈاکٹر صاحب سے ماسوائے ایٹمی معاملات کے، دنیا جہان کی باتیں ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب حکومت وقت اور سیاستدانوں سے سخت نالاں اور مایوس نظر آئے۔ وکلاء کے باہم دست و گریبان ہونے کو انہوں نے ایک المیہ قرار دیا اور کہا کہ وکلاء اس قوم کی آخری امید ہیں۔ ہم ان تک رسائی کیسے حاصل کر پائے، کتنے کٹھن مراحل طے کر کے ان سے شرف ملاقات حاصل کیا، اس کو انشاءاللہ کسی اور کالم میں بیان کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب سے گفتگو کے دوران، واپسی پر راستہ میں سوچتا رہا کہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان نے ایک ایسے ہی سائنسدان کو مسلمان ہونے کے باوجود (مسلمان بے شک نام کا ہی مسلمان ہو لیکن ہوتا تو مسلمان ہی ہے....!)اپنا سب سے بڑا عہدہ دے دیا، اسے کرسی صدارت پر براجمان کردیا جبکہ ہم نے اس کے مقابلے میں اپنے محسن اور ہیرو کو ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کی، جرنیلوں کی گردنوں کو بچانے کے لئے اس کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو لمبی اور صحت مند زندگی عطا فرمائے، انہیں ان کے اس قوم کے لئے جذبات کے مطابق کچھ کر گزرنے کا موقع عطا کرے اور اس قوم کو بھی ان کے شایان شان رویہ اپنانے کی سعادت نصیب کرے لیکن ابھی تو ہم انہیں قید تنہائی کی اذیت دے رہے ہیں، ابھی تو ہم ان کو ان حقوق سے بھی محروم رکھے ہوئے ہیں جو ایک عام شہری کو حاصل ہوتے ہیں، ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ہرگز علم کی طرف توجہ نہ دیں، اس ملک اور قوم کی خدمت کا کوئی جذبہ اپنے دل میں پنپنے نہ دیں کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گے اور اس ملک کی عظمت، اس کی حفاظت یا خدمت کے لئے ان سے کوئی ”گناہ“ سرزد ہوگیا تو انہیں بھی محسن پاکستان کی طرح قید تنہائی کی سزا دی جائے گی....! یا ہم نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ چوری اور سینہ زوری میں اپنا نام پیدا کریں، کرپشن کے بے تاج بادشاہ بننے کی کوشش کریں کیونکہ اس ملک میں عزت و توقیر اور اعلیٰ عہدے ان کا مقدر بنتے ہیں جن میں مؤخر الذکر خصوصیات ہوتی ہیں۔ یہی باتیں سوچتا ہوا اور کڑھتا ہوا جب واپس پہنچا تو راستہ میں ایک ”بزرگ“ دوست سے ملاقات ہوگئی۔ مجھے پریشان دیکھ کر جب انہوں نے وجہ پوچھی تو میں جیسے پھٹ ہی پڑا، سارا حال انہیں سنایا، میری تلخ باتیں سن کر کہنے لگے کہ ہم تو مردوں کو پوجنے والے لوگ ہیں اور ڈاکٹر صاحب تو ابھی زندہ ہیں، میں نے حیرت سے دیکھا تو وہ دوبارہ گویا ہوئے۔

کہنے لگے جنرل ایوب خان کے دور کے آخری ایام میں ذوالفقار علی بھٹو ایک سکہ بند لیڈر کے طور پر ابھرے جنہوں نے روٹی، کپڑا اور مکان جیسا مقبول عام نعرہ دیا اور پاکستان کے غریب عوام میں اس طرح چھا گیا جس کی مثال ماضی اور حال میں نہیں ملتی، ایک ایسا لیڈر جس کو بچے کھچے پاکستان کے عوام کی اکثریت کی حمایت و تائید حاصل تھی اس کو ایک فوجی آمر نے عدلیہ کی مدد سے پھانسی گھاٹ پر پہنچا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے طرز حکومت سے اتفاق بھی کیا جاسکتا ہے اور اختلاف بھی لیکن جس بات سے کوئی اختلاف نہیں کیا جاسکتا وہ یہ ہے کہ بلا شبہ ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام میں مقبولیت حاصل تھی۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان کی سیاست دو واضح دھڑوں میں تقسیم نظر آئی، ایک دھڑا وہ تھا جو ذوالفقار علی بھٹو کے روحانی وارث اور اس کے نام پر ووٹ حاصل کرتے رہے اور دوسرا دھڑا اس کی مخالفت میں دلائل کے انبار لگا کر ووٹوں سے اپنی صندوقچیاں بھرتا رہا۔ دوسرے دھڑے کے کرتا دھرتا کبھی اتحاد بنا کر اور کبھی اکیلے اکیلے صرف بھٹو کی مخالفت کر کے کامیابی حاصل کرتے رہے یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ایک اور آمر نے چلتا کردیا۔ 99 کی آمریت سے پاکستان کی سیاست میں ایک نیا رنگ دیکھا گیا کہ ماضی کے دشمن، دوست کے روپ میں نظر آنے لگے۔ دکھ سکھ سانجھے ہوگئے، باہم دست و گریبان رہنے والے آمریت کے خلاف حلیف بن گئے اور میثاق جمہوریت جیسی سیاسی دستاویز سامنے آئی۔ مشرف بھگوڑا بن کے بھاگ گیا، مرکز میں اپوزیشن میں ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت چلا رہی ہے اور حالیہ ضمنی الیکشن میں عوام کو ایک نئی چیز دیکھنے کو ملی کہ مسلم لیگ (ن) کے جلسے میں ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ اور ”کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے“ جیسے نعرے واشگاف انداز میں لگائے گئے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے اکثر لیڈر بینظیر بھٹو کے بارے میں دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ سمیت پورے پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے حوالے سے عالمی لیڈر تھیں۔ جب بھٹو زندہ تھا تو اس کی ہوا کو بھی تلواریں ماری جاتی تھیں اور آج جبکہ وہ اپنے اعمال سمیت اللہ کی عدالت میں جا چکا ہے تو اس کی مدح سرائی کی جاتی ہے، اسے زندہ قرار دیا جاتا ہے۔ بینظیر بھٹو جب زندہ تھیں تو مبینہ طور پر ان کے اپنے خاوند کے ساتھ تعلقات کچھ اتنے اچھے نہیں تھے بلکہ ”ذرائع“ تو اس سے بھی آگے کی خبر لاتے ہیں کہ وہ اپنے خاوند اور ان کا خاوند ان کی شکل بھی دیکھنے کے روادار نہ تھے، یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جب ان کے خاوند دبئی میں ہوتے تھے تو وہ لندن یا نیویارک میں ہوتی تھیں اور جب موصوف لندن یا نیویارک پہنچتے تھے تو محترمہ دبئی چلی جاتی تھیں اور محترمہ کی شہادت کے بعد یہ صورتحال ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہو یا اقوام متحدہ سے ”بھیک مانگ“مشن، محترمہ کی تصویر ڈائس پر ہوتی ہے اور موصوف اس کے پیچھے، تصویر کی پوچا اس طرح ہورہی ہوتی ہے کہ موصوف تصویر کو ڈائس پر رکھتے بھی خود ہیں کہ کہیں کسی ملازم کے رکھنے سے محترمہ ناراض نہ ہوجائیں۔ اگر بات کریں محترمہ کے ایک نہایت مخالف سیاستدان کی تو پنڈی والے شیخ رشید کا نام ذہن میں آتا ہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جو محترمہ کے خلاف فقر کسنے سے اسمبلی میں بھی باز نہیں آتے تھے، اس دور میں ان کو سب سے برا شخص اگر لگتا تھا تو وہ شیخ رشید ہی تھا لیکن آسمان نے کیسا نظارہ دیکھا کہ جب وہ ضمنی الیکشن میں دوبارہ جلوہ افروز ہوئے تو انہوں نے برملا لیاقت باغ کے جلسہ میں اعلان کیا کہ وہ ابھی آتے ہوئے محترمہ کی جائے شہادت پر حاضری دیکر اور فاتحہ خوانی کر کے آئے ہیں۔ باچا خان اور ولی خان کو ”غدار“ کہنے والے آج ان کے وارثوں کے ساتھ وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ قصہ مختصر اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اکثر ایسے لیڈر ملتے ہیں کہ جن کی زندگی میں کسی نے ان کی عزت نہیں کی بلکہ ہر لمحہ بے توقیری کی کوشش کی جاتی رہی لیکن ان کے اس دار فانی سے رخصت ہونے کے بعد ان کے مزار بنا دئے گئے، چادریں چڑھائی جانے لگیں، انہیں بہت بڑا لیڈر گردانا جانے لگا یہاں تک بعض معاملات پرستش اور پوجا تک جا پہنچے۔ اگر ہم اپنی سوسائٹی میں نظر دوڑائیں تو ہر گھر میں بھی ایسے ہی حالات ہیں۔ وہ بچے جو جیتے جی اپنے والدین کی قدر کرنا اور بڑھاپے کا سہارا بننا تو دور کی بات، ان کو دو وقت کا کھانا اور دوائی بھی دینے سے انکار کر دیتے ہیں وہی بچے والدین کے انتقال کے بعد قلوں، چالیسویں کے ختم اور برسیوں پر انواع و اقسام کے کھانے پکاتے ہیں اور والدین کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ وہ عورت جو ساری عمر یہ کہتے گزار دیتی ہے کہ میں نے اس گھر میں ایک سیکنڈ بھی سکون کا نہیں گزارا اور میرا خاوند دنیا کا سب سے بڑا ظالم ہے، بیوہ ہوتے ہی اس کے نزدیک مرحوم سے زیادہ نیک، پاکباز اور انسان دوست کوئی نہیں ہوتا، باقی کی ساری عمر مرحوم کی یاد میں آنسو بہاتے گزار دیتی ہے۔ پھر کہنے لگے بھائی ہم بحیثیت قوم ”مردہ پرست “ لوگ ہیں، مردوں کو پوجنے والے ہیں اس لئے کڑھنے کی ضرورت نہیں ہے اگر کچھ کرسکتے ہو تو اس قوم کو جگانے کی کوشش کرو، اس قوم کو زندہ لوگوں کی عزت کرنے اور ان کی حیثیت کی پہچان کروانے کی کوشش کرو، اگر یہ عظیم لوگوں کو ان کی زندگی میں ہی عزت دے دیں تو شائد قدرت کو ان پر رحم آجائے، شائد ڈاکٹر صاحب سمیت وہ عظیم ہستیاں اس قوم کے کچھ کام آسکیں، ورنہ اللہ کا قانون ہے کہ زندہ انسان تو کسی کے کام آسکتا ہے، مرنے کے بعد ہرگز نہیں! اگر ڈاکٹر صاحب اور ان جیسے دوسرے لوگوں سے کچھ حاصل کرنا ہے تو اس قوم کو جگاﺅ.... بڑے لوگوں کے مرنے سے پہلے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 209492 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.