سیاست کے بوزنے
(Shahzad Hussain Bhatti, Attock)
بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لے
کر آج تک وہ طرز سیاست نہیں بن سکی جسکی عام و خاص کو توقع تھی۔ جمہوریت کے
نام کی مالا جھپنے والوں کو جمہوریت کی روح سے ذرا برابر بھی شناسائی نہ ہو
سکی۔ زیرو سے لے کر ہیرو تک کی سیاسی بندر بانٹ اور جاگیردارانہ نظام میں
خاندانی سیاست نے ہمیں دُنیا کے سامنے عجوبہ بنا دیا ہے اور ہم قوموں کی صف
میں باعزت مقام پانے کی بجائے جگ ہنسائی کا سبب بن گئے۔ مقامی حکومتوں سے
لے کراعلیٰ ایوانوں تک دھڑے بندی، چالاکی، عیاری اور مکاری جیسے ہتھکنڈوں
کے ذریعے کرسی کا حصول اور اقتدار سے چمٹے رہنے کا ہُنرہر پارٹی کے ہر
سیاست دان نے حاصل کر لیا۔ بعض بوزنے سیاستدانوں نے ایک شٹر کی دکان میں
تیل بیچنے کے کاروبار سے اُڑان بھری اور کونسلر کی سیٹ جیت کرچیرمین بلدیہ
اور بعدازان صوبائی اور قومی اسمبلی کی رُکنیت سمیت اعلیٰ وزارتوں کا قلم
دان بھی انگلی پر لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کے مصداق حاصل کر لیا۔یہ
وہ لوگ ہیں جو دس مرلے کے آبائی مکان سے کروڑوں اربوں کے بنگلوں ، پلازوں،
پیڑول پمپوں، بڑی شاہراہوں کے ٹھیکوں اور سرکاری پہاڑوں کی لیز تک کے مالک
بن گئے۔ ا ن کی خوش قسمتی تھی کہ صاحبان اقتدار ماضی قریب کے سیاسی دھچکوں
سے ڈراونے اور پُرہیبت قلعے میں جا پہنچے اور اُن کی چند روزہ اسیری کے
دوران اُن سے ملا قاتوں اور چند آسائیشوں کے مہیا کرنے پر اُنکی گڈبک میں
نام لکھوا لیے حالانکہ وہ آسائیشیں انہوں نے اپنی جیب سے نہیں فراہم کی
تھیں بلکہ کچھ ٹھیکیداروں نے مستقبل میں اچھے ٹھیکے ملنے کی لالچ میں انہیں
اپنی طرف سے مہیا کی تھیں جو قلعے میں جا کر عالی جناب کی خدمت میں حلوائی
کی دکا ن پر دادا جی کی فاتحہ کے مصداق اپنی طرف سے کار خیر بنا کر پیش
کرتے رہے اور مصیبت زدہ عالی جناب انکے ممنونِ احسان ہوتے رہے۔ چاپلوسی،
جھوٹ، دغا اور فریب کا ہنر آزما کر کونسلر سے وزیر بننے والے یہ وہ بندر
ہیں جو ہلدی ملنے پر پنساری بن بیٹھے ہیں ۔ ان بوزنے سیاستدانوں نے نہ صرف
ووٹ کا تقدس پامال کیا بلکہ ورٹرز سے بھی بددیانتی کی اور جمہوری نظام کو
ایک کھیل سمجھا۔ چند ہزار کے ان مالکان نے کروڑ پتی بن کر بھی اپنے آپ کو
متوسط درجے میں ظاہر کرکے عام آدمی کے جذبات سے کھلواڑ کیا اور سیاسی اثر
رسوخ کے زور سے ناجائیز ذرائع سے حاصل کردہ دولت کے بل بوتے پر تمام کبیرہ
گناہوں کا ارتکاب تفریح طبہ کے طور پرکیا اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالتے
ہوئے اپنی سب سے چھوٹی عمر کی بیٹی سے بھی کم عمر لڑکی کی پیشہ وارانہ
مجبوریوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے نہ صرف اُسے اپنی رکھیل بنایا بلکہ مسیحائی
اور مذہب کے پردے کو بھی تار تار کر دیا اور دوسرے کے نکاح اور اسکی حرمت
کو بالائے تاک رکھ کر اپنا رانجھا راضی کیا۔ یہ وہ بازی گر ہیں جو سرکاری
ملازمت کی معمولی سیٹ پر کام کرنے والی ہستیوں کو محض اس لیے اعلیٰ درجے کی
بڑی سیٹ پر دارلحکومت کے ادارے میں پہنچا دیتے ہیں کہ وہ ہستی خوبصورتی سے
ایسے 67 سالہ بوڑھوں کو راضی رکھتی ہے جنہیں سڑک پر جھاڑو دینے والیاں بھی
مُنہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت دفا دور کہہ کر ٹھکرا دیتی ہیں جس طرح جنرل
رانی ملک کے حکمران کی بد کرداری کی تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں اُسی طرح
کوئی "چھاپاں والی "ان بوڑھے غلیظ سیاستدانوں کے کردار سے وابستہ نظر آتی
ہیں۔ ان کی عیش پرستی یہاں تک رنگ لاتی ہے کہ یہ خونی رشتوں کو پس پشت ڈال
کراُن لوگوں کو پارٹی کے نام پر اپنا کرتا دھرتا بنا لیتے ہیں جو کل تک
ہوٹلوں کے چھوٹے ہوا کرتے تھے اور سینما کی دَلا گیری سے وی آئی پی ڈرائیور
بننے والوں کو ایم این اے ہاسٹل کی جملہ سہولتوں کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ
کرنے کا اختیار دے دیتے ہیں۔ حاکمان وقت کی بیگمات کو مصیبت کے دنوں میں
اپنے گھر میں ایک ناشتہ کروانے کے عوض دو دو تین تین بار وزارتیں حاصل کرکے
عوام کے حقوق سے کھیلنے کے مواقع حاصل کرنے والے یہ مفاد پرست ملک کی بڑی
سیاسی جماعت کے اعلیٰ عہدے دار رہنے کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت میں بڑی
وزارتوں کے متمنی دیکھائی دے رہے ہیں جو قطعی ان کا حق نہیں ہے یہ حق جاوید
ہاشمی جیسے لوگوں کا تھا مگر سیاسی کوتاہ نظری کے سبب حکمران سمجھ نہیں
پائے۔ ایک چھوٹے سے حلقے کا ایم این اے بن کر اگر یہ لوگ ارب پتی بن سکتے
ہیں تو آنے والے وقت مین متوقع بڑی وزارت لے کر عوام کے خون پسینے کی کمائی
لوٹ کر یہ کیا کچھ بن جائیں گے اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں ۔ یہ لوگ
جھوٹ اور فریب کی سیاست سے ملک کی سب سے بڑی جماعت کا امیج بُری طرح مجروع
کر رہے ہیں اور انکے لچھن دیکھ کر جتنی نفرت لوگ اپنے حکمران طبقے سے کرتے
ہیں اتنی نفر ت وہ ضیاء اور مشرف جیسے آمروں سے بھی نہیں کرتے تھے۔سرکار ی
ملازمتوں سے لے کرمن پسند ٹھیکوں تک انکی سیاست کرنسی نوٹوں کی خوشبو ،
جوان عوتوں کی قربت اورحکمران طبقے کی چاپلوسی کا شاخسانہ ہے۔ ہزارہ عوامی
شکایات کے باوجود ملک کے سب سے بڑے صوبے کے خادم کے کا ن شاید بہرے ہو چکے
ہیں اسی لیے وہ محکمہ صحت، تعلیم اور پولیس کے باعزت افسران کی بیک جنبشِ
قلم شلواریں اُتارنے کے بجائے اپنی صفوں میں موجود بوڑھوں بدکردار
سیاستدانوں کا احتساب کیوں نہیں کرتے ؟کیا اتنی بڑی سیاسی جماعت کے پاس
کوئی متبادل امیدوار بھی نہیں ہے کہ بار بار ایک ہی شخص کو کبھی صوبائی
کبھی قومی اسمبلی کے ایوانوں تک سرکس کے ٹٹوکی طرح گھمائے پھرتے ہیں۔ سچ
کہا کسی نے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور اچھی کارکردگی دیکھانے
والوں کا احتساب کرنے والے تخت لاہور کے شہنشاہ آج مفادات اور ذاتی تعلقات
کے چُنگل میں پھنس گئے ہیں اور انہیں اپنی ناک کے نیچے اعلیٰ اقتدار کی آڑ
میں شخصی اور قومی بداعمالیاں کرنے والے ایم این اے نظر نہیں آتے۔ اب بھی
وقت ہے کہ یہ اپنی پارٹی کی صفوں سے گند نکال دیں جسکی نشان دہی مخلص پارٹی
ورکر اور عام آدمی بھی کرتا چلا آ رہا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو شاہ سے
زیادہ شاہ کے یہ وفا دار انہیں ہمیشہ کے لیے ایوان اقتدار کی روشنی سے نکال
کر گمنامی اور ذلت کے اندھیروں میں گم کر دینگے جیسا کہ ماضی قریب میں ملک
کی دو بڑی برسراقتدار رہنے والی پارٹیوں اور انکے رہنماوں کے ساتھ ہو چکا
ہے۔
|
|