کشمیر توجہ چاہتا ہے
(Yasir Rafique, Rawalpindi)
قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی
شہ رگ قراردیا لیکن اس شہ رگ کو بھارت نے گزشتہ 67 برسوں سے دبا کر رکھا
ہےکشمیردو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کا باعث بنا
ہوا ہےجس کے باعث مسئلہ کشمیر دنیا کےخطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے
ایک شمار ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں جن میں 1947
کی جنگ،1965 کی جنگ اور 1999 کی کارگل جنگ شامل ہیں۔ کشمیر کے مسئلے پر
پاکستان کاموقف ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث تقسیم ہند کے قانون
کی رو سےیہ پاکستان کا حصہ ہے جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔
یہ علاقہ عالمی سطح پر متنازعہ قرار دیا گیا ہے ۔ بھارت کے زیر انتظام
کشمیرمیں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں رہنے والے کشمیریوں بھارتی افواج نے کبھی
سکون سے نہیں رہنےدیااور ہمیشہ ان پر ظلم وستم کی انتہا کر دی گئی ۔ کریک
ڈاؤن،کرفیو اور برہنہ کر کےعام آدمی کی تلاشی لینایہ بھارتی افواج کی معمول
کی کاروائی ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالیاں جا
رہی ہیں ۔انسانی حقوق کی عالمی شہرت یافتہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے
مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم اور کالے قوانین کی آڑ میں انسانی حقوق کی
پامالیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے
جاری ایک حالیہ رپورٹ میں یہ کہا گیاہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 1990سے آرمڈ
فورسز سپیشل پاور ایکٹ (افسپا)جیسا کالا قانون نافذ ہے ۔جس کی وجہ سے
انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث بھارتی فوجیوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ
لایا جا سکا کیونکہ اس قانون کے تحت بھارتی افواج کو استثنی حاصل ہے ۔
مقبوضہ کشمیر میں کسی بھی بھارتی فوجی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ۔
آج تک انسانی حقوق کی پامالی کا کوئی بھی کیس سول عدالتوں میں نہ چل سکاجس
سے انصاف کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں ۔ مقبوضہ جموں کشمیر کا مسئلہ اقوام
متحدہ میں بھی موجود ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کئی
قراردادیں پاس کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود بھارت پر اس کا کوئی اثر نہیں ۔
نام نہاد عالمی ٹھیکیداروں نے بھی بھارت کو کھلی چھٹی دے رکھی ہےکہ وہ جب
چاہیں جو مرضی قانون پاس کر لے وہ تمام تر پابندیوں سے آزاد ہے۔
ان تمام تر حالات کے باوجودپچھلے کچھ عرصے سے سری نگر اور مقبوضہ کشمیر میں
ہر احتجاج اور جلسے کےدوران جموں کشمیر کی عوام کا پاکستانی جھنڈا لہرانا
اور پاکستان کے حق میں نعرے بازی کرنابھارتی حکومت اور بھارتی فوج کے منہ
پر تپھٹر مارنے کے مترادف ہے ان تمام حالات سے پتہ چلتا ہے کہ مقبوضہ جموں
کشمیرکی عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہے اور پاکستانی جھنڈا لہرانا ان
کا معمول بنتا جا رہا ہے ۔ ساری دنیا یہ بات جانتی ہے مقبوضہ کشمیر میں
بھارت کی سات لاکھ سے زیادہ فوج موجودہے عوام کے لیے ہر طرح کی ناکہ بندیاں
موجود ہیں ان تمام حالات کے باوجود کشمیریوں کے ذہنوں کوبھارتی افواج کبھی
قید نہ کر سکی ۔ تحریک آزادی کشمیر تیزی سے اپنے سفر کی جانب گامزن ہے ۔
بھارت میں بھی لاکھوں کروڑوں لوگ جو امن پسند ہیں وہ لوگ کشمیریوں کے حقوق
کے لیے اچھے اور مثبت خیالات رکھتے ہیں ان لوگوں کی بھی یہی تمنا ہے کہ
کشمیر کا مسئلہ جلد از جلد حل ہواور کشمیریوں کو آزادی نصیب ہو۔ مسئلہ
کشمیرکے حل کے لیے بھارت جیسے نام نہاد جمہوری ملک کو مخلص ہونا پڑے گا ۔
برصغیر کے پائیدار امن کاحل تب وجود میں آئے گاجب کشمیر کے لوگوں کو ان کے
جائز حقوق ملیں گے بھارت اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا ملک سمجھتا ہے لیکن
پاکستان کے ساتھ اس کا رویہ آمرانہ رہا۔ پاکستان نے بارہا مزاکرات کی کوشش
کی لیکن بھارت ہمیشہ راہ فرار اختیار کر جاتا ہے اور یوں مزاکرات پالیسی
ناکامی کی طرف چلی جاتی ہے ۔
مسئلہ کشمیر کا حل رپورٹس،تجزیوں اور تحریروں میں نہیں اس مسئلے کا حل مثبت
اور مضبوط مزاکرات اور قوت برداشت میں ہے۔ پاکستان،بھارت اور کشمیری حریت
پسند قیادت کو مزاکرات پالیسی آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔
میں صحافت کے ادنی طالبعلم کی حیثیت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ طاقت اور
بندوق سے کشمیری نوجوانوں کے سینے توچھلنی کیے جا سکتےہیں لیکن آزادی کی
تحریک کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت جمہوریت پسند ہونے کے ناطے جمہوری
رویہ اپنائے اور کشمیریوں کو ان کا حق آزادی عطا کرے
|
|