حالیہ زلزلے میں پاکستان کے جو
علاقے کے شدید متاثر ہیں ان میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے ۔وزیر اعلیٰ گلگت
بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے مطابق 26اکتوبر کا زلزلہ تباہ کن تھا ۔ گلگت
بلتستان میں10افراد کے جاں بحق اور 30افراد کی زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے
جبکہ 390کے مکانات کو شدید نقصان پہنچاہے ۔مقامی میڈیا کے مطابق جاں بحق
ہونے والوں کی مجموعی تعداد 14ہے جن میں گلگت بلتستان کے 3سینئر وکلا ء بھی
شامل ہیں جو شاہراہ قرام قرم پر سفر کے دوران کوہستان میں زلزلے سے متاثر
ہوکر حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی میں سوار تھے۔ مجموعی طور پر زلزلہ خطے
کی تاریخ کا شدید ترین تھا ابتدائی طور پر خدشہ کا اظہار کیا جارہاتھاکہ
نقصانات زیادہ ہوں گے تاہم اﷲ کا شکر ہے کہ نقصانات 2005ء کے مقابلے میں
بہت کم رہے ۔ 8اکتوبر 2005کے زلزلے کی شدید جھٹکے اگرچہ گلگت بلتستان میں
بھی محسوس کیے گئے تاہم جانی ومالی نقصانات انتہائی کم رہا ،لیکن
26اکتوبرکے زلزلے میں 2005کے مقابلے میں زیادہ نقصانات ہوئے۔ ماہرین فلکیات
کے مطابق زلزلے کی شدت 8.1تھی تاہم اس کی گہرائی 198کلو میٹرہونے کی وجہ سے
نقصانات کم ہوئے۔ ماہرین کے مطابق اگر گہرائی 100کلو میٹر کے اندر ہوتی تو
پھر خوفناک تباہی ہوسکتی تھی۔2005کے زلزلے کی شدت 7.6تھی لیکن اس کی گہرائی
صرف15کلو میٹر ہونے کی وجہ سے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ اور آزاد
کشمیر میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ایک اندازے کے مطابق تقریبا ایک لاکھ
افراد شہید اور لاکھوں متاثر اور لاکھوں عمارتیں مکمل طور پر زمین بوس ہوئی
۔
26اکتوبرزلزلے میں گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث سڑکوں کوبھی
نقصان پہنچا اور کئی علاقے ایک دوسرے سے کٹ کر رہ گئے تاہم وزیر اعلیٰ گلگت
بلتستان حافظ حفیظ الرحمن اور ان کے ساتھیوں کی بہتر حکمت عملی کی وجہ سے
بیشتر رابطہ سڑکیں 24گھنٹے کے اندر بحال کردی گئی ۔صوبائی وزیر بلدیات رانا
فرمان علی کے مطابق تمام متاثرین تک ابتدائی امداد پہنچادی گئی ہے اور
انہیں ہر ممکن مدد فراہم کی جارہی ہے اور جلد ان کی بحالی کیلئے اقدام شروع
کیے جائیں گے۔گلگت بلتستان میں جزوی طور پرہزاروں مکانات کو نقصان پہنچاہے
۔ ضلع استور کے کئی علاقوں بالخصوص کنٹرول لائن کے قریب کے علاقوں میں جزوی
نقصانات ہوئے ہیں۔ گورنر گلگت بلتستان برجیس طاہر اور وزیر اعلیٰ گلگت
بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے زلزلے کے27اکتوبرکو شدید متاثرہ علاقوں غذر
اور ضلع دیامرکا دورہ کرکے امدادی سرگرمیوں کاجائزہ لیاجبکہ وزیر اعلیٰ
گلگت بلتستان نے زلزلے کے روز ہی ہنگامی بنیادوں پر اقدام شروع کیے اور
سرگرمیوں کی خود نگرانی کی تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذکردی اور ڈپٹی
کمشنر ز کو نہ صرف متحرک کیابلکہ انہیں 24گھنٹے گلگت میں قائم کنٹرول روم
سے رابطے میں رہنے اور اپنے علاقوں کی پل پل کی اطلاع پہچانے کی ہدایت کی
گئی۔ ضلعی سطح پر بھی تمام عملے کو متحرک کیا گیا یہی وجہ ہے کہ 24گھنٹے کے
اندر تمام متاثرہ علاقوں کے حوالے سے حتمی اطلاعات حکومت تک پہنچی ۔
زلزلے میں سب سے زیادہ تباہی ضلع غذر کے علاقے پھنڈر میں ہوئی جہاں پر 60سے
زائد مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے ۔ممتاز عالم دین مولانا شفیق الرحمن
گلگتی اورگلگت بلتستان کے کالم نگار حمزہ گلگتی کے مطابق پھنڈر میں مرکزی
جامع مسجدشہید اور اقراء اسکول کی عمارت بھی تباہ ہوئی ہے۔ غذر میں 6افراد
جاں بحق اور ایک درجن کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ حکومتی دعوے کے مطابق تمام
افراد تک امداد پہچادی گئی ہے تاہم بعض دوردراز علاقوں کے مکینوں کے مطابق
امدادی سرگرمیوں میں تاخیر کی گئی ہے۔
زلزلے میں یہ بھی محسوس کیاگیا کہ خطے میں بلدیاتی ادارے فعال نہ ہونے کی
وجہ سے حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا ہوا ہے، اس لیے گلگت بلتستان کی حکومت
چاہیے کہ وہ دیگر صوبوں کی طرح اس خطے میں بھی اب بلدیاتی انتخابات کو اپنی
اولین ترجیحات میں شامل کرے۔ان حالات میں اگر ایک ہزار سے زائد بلدیاتی
نمائندے موجود ہوتے تو جہاں امدادی سرگرمیوں میں حکومت کو مشکلات کا سامنا
نہ ہوتا وہی پر بروقت اطلاعات کی فراہمی اور متاثرین تک رسائی بھی آسان
ہوتی۔مجموعی طور پر زلزلے کو بعد حکومتی اقدام ماضی کے مقابلے میں بہتر رہے
ہیں ،تاہم مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
گلگت بلتستان میں زلزلہ عین ان دنوں میں آیا جب وہاں پر یکم نومبر کو ڈوگرہ
راج سے آزادی کی مناسبت سے یوم آزادی کی تقریبات کا سلسلہ شروع ہونے
جارہاتھااور مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے تقریبات کا اعلان کیا تھا۔
گلگت بلتستان پاکستان کے زیر انتظام واحد خطہ ہے جہاں پر سال میں دو مرتبہ
یوم آزادی منایاجاتا ہے۔ یکم نومبر 1947کو گلگت بلتستان کی عوام نے اپنی
مددآپ ڈوگرہ راج کے گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے آزادی کا پرچم
لہرایا اور17روز تک اسلامی جمہوریہ گلگت کے نام سے ریاست کام کرتی رہی تاہم
بعد ازاں خطے کو پاکستان سے منسلک کیاگیا اور اسی یوم آزادی کی مناسبت سے
یکم نومبر کو ہر سال یوم آزادی بھرپور طریقے سے منایا جاتاہے اور یہ خطے کا
سب سے بڑا ایونٹ ہوتا ہے جس میں پوری قوم پر جوش اندازمیں حصہ لیتی ہے ،
امکان ہے کہ زلزلے کے باعث یکم نومبر کویوم آزادی سادگی سے منایا جاگا ۔
پاکستان کے یوم آزادی 14اگست کو بھی آزادی کی تقریبات انتہائی پرجوش انداز
بھی منعقد کی جاتی ہیں اور عوام بھرپور طور پر اس میں حصہ لیتے ہیں ۔
امکان یہ تھاکہ گلگت بلتستان میں مختلف سیاسی جماعتوں میں سرگرمیوں کا
اضافہ ہوگا بالخصوص پیپلزپارٹی کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ کئی ماہ کے
اندورونی تنازعات کے بعد پارٹی کی تنظیم سازی ہوگئی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ
پارٹی کے مختلف رہنماؤں کے مابین صوبائی صدارت کیلئے کھینچا تانی کا سلسلہ
اگرچہ جاری ہے تاہم امجد حسین ایڈوکیٹ کو مضبوط امیدوار قرار دیا جارہاہے
۔اب امکان یہ ہے کہ زلزلے کے باعث پیپلزپارٹی کی سیاسی سرگرمیاں بھی کچھ دن
کیلئے مؤخرکی جائیں گی تاہم صوبائی صدارت اور تنظیم سازی کا معاملہ حل
ہوگا۔ |