مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے
غاصبانہ قبضے کو اڑسٹھ برس بیت چکے ہیں لیکن یہ گتھی ہے کہ سلجھنے کا نام
ہی نہیں لے رہی۔ ایک بار پھر یوم سیاہ پرکشمیری رہنماؤں نے عالمی برادری سے
مسئلہ حل کرانے کی اپیل کی لیکن ایسا لگتا ہے جیسے دنیا نے اپنی آنکھیں بند
اورکانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہو۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تنازع کشمیر
ایک ایسے مرض کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کا کسی کے پاس علاج نہیں۔ یہ
بیماری نہ صرف مقبوضہ وادی میں ہزاروں زندگیاں نگل چکی ہے بلکہ دونوں ممالک
یعنی پاکستان اور بھارت کے کروڑوں عوام بھی اس سے براہ راست متاثر ہیں۔
غربت، بھوک، افلاس جن ملکوں میں پنجے گاڑھ چکی ہو، جہاں آبادی کے بڑے حصے
کو پینے کا صاف پانی میسر ہو اور نہ ہی دیگر بنیادی سہولتیں، وہاں بجٹ کا
خطیر حصہ اسلحہ اور بارود خریدنے میں صرف کر دینا کون سی عقل مندی ہے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ اننگ قرار دیتا ہے اور پاکستان اسے اپنی
شہہ رگ، دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلے پر تین جنگیں ہو چکی ہیں اور اﷲ نہ
کرے کسی بھی وقت چوتھی ایٹمی جنگ کی نوبت آ سکتی ہے۔ پاکستان بھارت سے تمام
مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا خواہشمندہے لیکن بھارت کے جنگی جنون کے
سامنے ہر صورت کم سے کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھنا اس کی مجبوری ہے۔
پاکستان مذاکرات کی بات کرتا ہے تو بھارت کی طرف سے دہشت گردی ختم کرنے کا
مطالبہ دہرا دیا جاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران چھ
ہزار فوجی جوان اور پچاس ہزار سے زائد پاکستانی شہری اس آگ کی نذر ہو چکے
ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس ڈیڈ لاک کو کیسے توڑا جائے؟ کیسے بھارت کو قائل کیا جائے
کہ وہ مقبوضہ وادی سے سات لاکھ فوج نکال کر نہ صرف خود اپنی ترقی کی راہ ہم
وار کر سکتا ہے بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں سکون بھر سکتا ہے۔ حکمرانوں کی
سُنیں تو اُن کی گھڑی صرف اور صرف یہاں اٹکتی ہے کہ عالمی برادری مسئلے کو
حل کرے۔ کیا عالمی برادری یہ مسئلہ حل کرا سکتی ہے؟ اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں متعدد خطابات اور حال ہی میں امریکی صدربراک اوباما کی جانب سے
وزیراعظم نوازشریف کو دوٹوک جواب کے بعدکم از کم یہ بات سمجھ میں آجانی
چاہیے کہ یہ مسئلہ حل کرانا ان کے بس میں نہیں۔ اور ویسے بھی اقوام متحدہ
نے پہلے کون سے مسائل حل کر لیے ہیں جو مزید اس سے اُمیدیں باندھی جائیں۔
ہمارے ایک قلمکار دوست نے بہت ہی خوبصورت مثال دی کہ اقوام متحدہ وہ فورم
ہے جہاں مسئلہ دوچھوٹے ملکوں کے درمیان ہوتو مسئلہ غائب،معاملہ چھوٹے ملک
اور بڑے ملک کاہوتو چھوٹاملک غائب اور اگرتنازع دوبڑے ملکوں کا ہوتو اقوام
متحدہ غائب۔
کیا امریکہ اور روس اس مرض کا علاج کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ امریکہ اور روس
اسلحہ فروخت کرنے والی سب سے بڑی منڈیاں اور بھارت ان کا سب سے بڑا خریدار
ہے۔ بھارت نے گزشتہ برس اسلحہ خریدنے کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اسٹاک ہوم
انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے
دوران بھار ت نے اپنی فضائی صلاحیت کو بڑھانے پر خطیر سرمایہ خرچ کیا۔
رپورٹ کے مطابق دوہزار چار سے دو ہزار آٹھ کے مقابلے میں دوہزار نو سے
دوہزار تیرا کے دوران بھارت کی طرف سے اسلحہ کی خریداری میں گیارہ فیصد
اضافہ ہوا جن میں پچھتر فیصد اسلحہ روس سے درآمد کیا گیا۔ اب ظاہر ہے یہ
اسلحہ پھول پتیاں اُگانے کے لیے تو استعمال نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں ان
دونوں ممالک سے کوئی آس اور امید لگانا دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔کسی نے
کہا برطانیہ یا پھر یورپی یونین کے پاس تنازع کا حل ہے۔ اگر اُنہوں نے حل
کرنا ہوتا تو برصغیر سے جاتے ہوئے یہ درد سر چھوڑ کر ہی کیوں جاتے۔
دنیا کہتی ہے ہم اس مسئلے کو خود مل بیٹھ کر حل کریں لیکن شاید کوئی ایسی
مضبوط طاقت ہے جو اس مسئلے کو حل ہونے ہی نہیں دیتی۔ دونوں ملکوں کے درمیان
مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن جب بھی امید کی کرن دکھائی دیتی ہے ، سانحہ
سمجھوتہ ایکسپریس یا پھر ممبئی حملوں جیسے واقعات سب کچھ برباد کر کے رکھ
دیتے ہیں۔ سابق وزیرخارجہ خورشید قصوری کے مطابق دونوں ممالک ایک موقع پر
اتنے قریب آچکے تھے کہ عنقریب کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آتا لیکن ممبئی حملوں
نے سب کیے کرائے پر مٹی پھیر دی
ان اڑسٹھ برسوں نے عوام کو بھی اس قدر مایوس کر دیا ہے کہ اب دکانوں پر
لکھا نظر آتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک اُدھار بند ہے۔ شاید دنیا بھی
یہی چاہتی ہے کہ نہ ہی تنازع پر کہیں سے آواز اُٹھے اور نہ ہی یہ مسئلہ حل
ہو۔ یوں دونوں ملک لڑتے لڑتے خود ہی اپنے وسائل ترقی کے بجائے اسلحہ اور
بارود کی خریداری پر صرف کرکے اُن کی تجوریاں بھرتے رہیں۔
لیکن امید کا ایک چراغ اب بھی جل رہا ہے اور اس دیے کو روشن رکھنے کے کے
لیے مقبوضہ وادی کے نوجوان اڑسٹھ سال سے اپنا لہو پیش کر رہے ہیں۔ وہ ہر
احتجاج میں دیوانہ وار پاکستان کا جھنڈا بھی لہراتے ہیں اور کشمیر بنے گا
پاکستان کے نعرے بھی لگاتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا کرنے سے اُنہیں
کتنے سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک بھارتی ٹی وی کو
انٹرویو میں مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداﷲ کا کہنا تھا کہ
مودی سرکار ایک لاکھ کروڑ کا بھی پیکیج ہی کیوں نہ دے، وہ کشمیریوں کے دل
نہیں جیت سکتی۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بہت خراب ہو چکی ہے اور ریاست
ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ اُنہوں نے نریندر مودی کو مشورہ دیا کہ وہ
پاکستان سے دوستی کے لیے اٹل بہاری واجپائی کی پالیسی پر عمل کریں تاکہ
مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکل سکے۔
مقبوضہ وادی میں نہتے کشمیریوں کی جذبہ حب الوطنی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج
سوشل میڈیا پر دونوں ملکوں کے عوام جنگ سے بیزار اور مسئلے کا جلد سے جلد
حل چاہتے ہیں۔ اب دیر ہے تو نوجوانوں کے اُٹھنے کی، جس دن ایسا ہوگیا اور
نوجوانوں نے عرب بہار کی طرز پر جنگوں کے خلاف کمرکس لی اور سوشل میڈیا کو
پلیٹ فارم بنا کر ایک طوفان کھڑا کردیا۔ اُس دن دنیا کی کوئی طاقت اس مسئلے
کو حل ہونے سے نہیں روک سکے گی۔ یورپی ممالک کی ترقی کا اہم رازبھی یہی ہے
کہ اُنہوں نے آپس میں لڑ جھگڑنے کے بعد جنگوں سے توبہ کرلی تھی۔ تنازع
کشمیر کا اہم فریق دونوں ملکوں کے عوام ہیں، کیوں کہ یہی سب سے زیادہ متاثر
ہیں۔ اب عوام کو ہی یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ انتہا پسندانہ سوچ کو ختم کرکے
آپس میں مل بیٹھنے پر زور دیا جائے کیوں پہلے ہی بہت خون بہہ چکا ہے۔ مسئلے
کے حل کے لیے نام نہاد عالمی برادری سے اُمیدیں لگانا وقت کے ضیاں کے سوا
کچھ نہیں۔
|