اس سال سنگھ پریوار کو دیوالی کا
خصوصی تحفہ سکھوں کی جانب سے موصول ہوا۔ سنگھ کے بقول ہندووں کی تلوار سکھ
سماج کی جانب سے ایک حیرت انگیز اعلان سامنے آیا بدقسمتی سےجسےنظر
اندازکردیا گیا۔ چندی گڑھ سے شائع ہونے والے دی ٹریبون کے مطابق شرومنی
گردوارہ پربندھک کمیٹی نے اس سال گولڈن ٹیمپل اور دوسرے گردواروں میں
دیوالی کا تہوار سادگی کے ساتھ منانے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی کے صدر اوتار
سنگھ مکرّ نے اعلان کیا کہ اس سال ہرمندر صاحب میں حسبِ روایت چراغان نہیں
کیا جائیگا اور آتش بازی بھی نہیں ہوگی بلکہ صرف مٹی کے دئیے جلائے جائیں
گے۔ عام طور پر طلائی مندر میں دیوالی کا تہوار بڑے زور شور سے منایا جاتا
تھا اور نہ صرف مندر کی سجاوٹ اورروشنی بلکہ آتش بازی بھی قابلِ دید ہوتی
تھی ۔ ۱۲ اکتوبر کو فرید کوٹ کے برگادی گاوں میں ہونے والی گرو کرنتھ صاحب
کی بے حرمتی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔اس مذموم حرکت کے خلاف
مظاہروں میں دو سکھ نوجوان پولس کی گولی سے ہلاک ہوئے اور اس کے بعد سارے
پنجاب میں احتجاج کے شعلے جنگل کی آگ کی مانند پھیل گئے ۔
حالیہ تنازعہ کی ابتداء ماہِ جون میں برگ جواہر گردوارہ سے گرو گرنتھ صاحب
کی چوری سے ہوئی۔ سکھ قوم گرو گرنتھ صاحب کونہ صرف مقدس صحیفہ بلکہ زندہ
گرو مانتے ہیں ۔ اس اہانت کے خلاف شکایت پر پولس نے توجہ نہیں دی یہاں تک
کہ کسی نامعلوم فرد کی ایک تحریر منظر عام پر آگئی ۔ اس میں دعویٰ کیا گیا
تھا مسروقہ صحیفہ اس کے پاس ہے۔ اس کے خاتمہ پر ’’دھن دھن ست گرو‘‘ بھی درج
تھا ۔ یہ دراصل ڈیرا سچا سودہ پنتھ کےماننے والوں کا نعرہ ہے۔یہ الزام بھی
ہے کہ تحریر میں سکھ سماج اور ان کے مذہبی پیشواوں کے خلاف برا بھلا لکھا
ہوا تھا ۔ان حالات کے باوجودماہِ ستمبر میں اکال تخت کے سب سے بڑے گرنتھی
نے ڈیرہ سچا سودہ کے سربراہ گرمیت رام رحیم کی معافی کا اعلان کرکے ساری
دنیا کو چونکا دیا ۔
گرمیت رام رحیم نے ۲۰۰۷ میں گرو گوبند سنگھ سے مشابہ لباس زیب تن کرلیا
تھا جسے سکھوں نے مذہبی تو ہین قرار دیا اور اس کے خلاف برسرِ جنگ ہوگئے۔
گردوارہ پربندھک کمیٹی چونکہ شرومنی اکالی دل کے قبضے میں ہے اس لئے اس کے
فیصلے کوپرکاش سنگھ بادل سے جوڑ دیا گیا اورعوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے
کہ اکالی دل نے ۲۰۱۷ کے ریاستی انتخابات کے پیش نظر ڈیرہ سچا سودہ کے
ماننے والوں کو رجھانے کیلئے یہ فیصلہ کروایا ہے۔ اس متنازعہ فیصلے سے
سکھوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے اور وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادل کی ہوا
خراب خراب ہوگئی ۔ بی جے پی چونکہ عرصۂ دراز سے اکالی دل کی حلیف بنی ہوئی
ہے اس لئے لازماً سکھ اس سے بھی ناراض ہوگئے ۔
مذہب اور سیاست کی اس رسہ کشی کے دوران اکتوبر کے اندر کسانوں نے ریل روکو
تحریک شروع کردی۔ اس سال ٹڈی دل حملوں کے سبب فصلیں تباہ ہوئی ہیں جس کے
سبب پنجاب جیسے خوشحال علاقہ کے کسان بھی خودکشی پر مجبور ہوئے ہیں مگر
حکومت نے ان کی جانب توجہ نہیں دی ۔ کسانوں کی تحریک کے رہنماوں کا مطالبہ
ہے کہ خودکشی کرنے والوں کے اہل خانہ کو ۵ لاکھ روپیہ معاوضہ دیا جائے۔ ریل
گاڑیوں کے روکے جانے سے عوام کو ہونے والی پریشانی کے خاتمہ سے قبل ۱۲
اکتوبر برگادی گاوں میں گرو گرنتھ صاحب کے پھٹے ہوئے صفحات ملے جس سے متعلق
شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر اوتار سنگھ مکرّ نے دعویٰ کردیا کہ وہ
مسروقہ صحیفے کے ہیں۔ اس خبر نے سکھوں کے اندر زبردست بے چینی پیدا کردی
اور سمرنجیت سنگھ مان کی قیادت میں اکالی دل (امرتسر) و سکھ سنگھرش کمیٹی
نے بند کا اعلان کردیا ۔
ان ریاست گیر مظاہروں کے تحت کوٹکاپورہ اور بہبل کلاں میں بھی عوام نے
پرامن احتجاج کیا ۔ پنتھ پریت سنگھ اور رنجیت سنگھ کی قیادت میں حکومت سے
مطالبہ کیا گیاکہ وہ پولس کی مدد سے گروگرنتھ صاحب کو چرانے والوں کا پتہ
لگائے اور اہانت کرنے والوں کو سزا دلائے۔ ان مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے
نہ صرف آنسو گیس اور لاٹھی کا استعمال کیا گیا بلکہ گولی بھی چلی جس میں
۸۰ زخمی اور دونوجوان ہلاک ہوگئے۔ حالات جب قابو سے باہر ہونے لگے تو سرکار
کو ہوش آیا۔ نائب وزیراعلیٰ سکھبیر سنگھ بادل نے پولس کو حکم دیا کہ وہ
مظاہرین کے خلاف درج شدہ سارے مقدمات واپس لے۔ اہانت اور اس کے بعد
رونماہونےوالے واقعات کی تحقیقات کیلئے ہائی کورٹ کے ایک جج کا تقرر کیا
گیاتاکہ مجرمین کو قرار واقعی سزا دی جائے۔مذہبی صحیفے کے چورکو گرفتار
کرنے میں مدد کرنے والی خبر دینے والے کیلئے ایک کروڈ کے انعام کا اعلان
بھی کیا گیا۔
ان اعلانات کے بعد عوام کے غم و غصے کو کم کرنے کی خاطربیر گاوں میں روپندر
سنگھ اور جسوندر سنگھ نامی دو نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا لیکن ان کے متعلق
یہ انکشاف ہوا کہ وہ امرت دھاری مذہبی سکھ ہیں ۔ ان کی گرفتاری کے خلاف ۱۵
مذہبی رہنماوں کی قیادت میں ۳۰۰۰ سکھوں نے مظاہرہ کیا اور پولس پر الزام
لگایا کہ اس کی جانب سے گھڑی جانے والی بدیسی ہاتھ کی کہانیجھوٹیہےاور موگا
کے بے قصورنوجوانوں کو بلی کا بکرہ بنایا گیاہے۔ مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر
ملوندر سنگھ جگیّ کو میمورنڈم دے کر گرفتار شدگان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
نوجوانوں کی گرفتاری اور موت کے خلاف ہونے والے مظاہروں نےموگا ، فریدکوٹ ،
فیروز پور، مکتسر ، بھٹنڈا،جالندھر، ترن تارن ، امرتسراور دیگر ا ضلاع کو
اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ یہ ناراضگی نہ صرف پولس بلکہ برسرِ اقتدار اکالی دل
اور بی جے پی کے خلاف بھی تھی ۔ موگا کے سابق کاونسلر سکھوندر سنگھ آزاد
نےان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئےکہا کہ ان سارے مسائل کا بنیادی سبب سکھ
مذہبی اداروں پر اکالیوں کا تسلط ہے ۔ وہ شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کی
مدد سے اپنے سیاسی مفادات حاصل کررہے ہیں ۔ آزاد کے خیالات کی تصدیق اس
دوران کئے جانے والے اکال تخت کے مختلف فیصلوں سے ہوتی ہے۔
۲۴ ستمبر کوجس طرح اکال تخت نے اچانک گرومیت رام رحیم کو معاف کرکے ساری
دنیا کو چونکا دیا تھا اسی طرح۱۷ اکتوبر کو اس نے اپنا فیصلہ واپس لے کر سب
کو حیرت زدہ کردیا۔ اس تبدیلی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ پنتھ کے اندر اس پر
اتفاق رائے نہیں ہوسکا ۔ عوام نے اس فیصلے کو احتجاج کے دباو میں کیا جانے
والا ایک سیاسی فیصلہ قرار دیا ۔ اگر پرکاش سنگھ بادل کے ہاتھوں میں اکالی
دل کے ساتھ ساتھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی اور اکال تخت کی باگ ڈور نہیں ہوتی
تو یہ خیال کسی کو نہیں آتا مگر قوت کا ارتکاز عوام کو بجا طور پر ان خطوط
سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس دوران پنج پیارا کے ذریعہ پانچ تخت کے
جتھیداروں کو برخواست کرنے کے فیصلہ کیا گیااور ان کے سارے حقوق سلب کرلینے
کا مطالبہ کیا گیا۔اکال تخت کے جتھیداروں نے پنج پیارا کے اس حق کو چیلنج
کردیا۔
پرکاش سنگھ بادل کے کٹھ پتلی پربندھک کمیٹی کے صدر اوتار سنگھ مکرّ نے جب
پنج پیاراکے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا تو رامن دیپ نامی ملازم نے اپنا
استعفیٰ ان کے منھ پر دے مارا بعد میں اسے مسترد کرنے کے بعد رمن دیپ کو
نکال دیا گیا اور آگے چل کر پھر بحال بھی کردیا گیا۔ مکر ّنے اپنی مخالفت
کے خوف سے ایس جی پی سی کی انتظامیہ کی نشست منسوخ کردی اور پنج پیارا کو
معطل کردیا۔ بعد میں جب پربندھک کمیٹی کا اجلاس ہوا تو اس نے مکرّ کی حمایت
نہیں کی ۔ اس انتشار و ہنگامےسے عوام کومزید بے چین کردیا اورمختلف
گرودواروں میں اکالی رہنماوں کی مخالفت شروع ہو گئی۔ کپورتھلہ گرودوارے میں
اکھنڈ پاٹھ کے درمیان سے کئی معمر اکالی رہنماوں کو جان بچا کر بھاگنا پڑا۔
اس طرح کے واقعات دیگر مقامات پر دیکھنے کو ملے۔
ان ہنگاموں کے سبب کسانوں کی تحریک پس منظر میں چلی گئی۔ کسانوں کی تحریک
بھارتیہ کسان یونین فی الحال دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ اس کے ایک دھڑے بی کے
یو (اوگھرا) کے جنرل سکریٹری سکھدیو سنگھ کھوکرنے اس کی سیدھی ذمہ دار ی
حکومت پر ڈال دی ۔ ان کے مطابق مذہبی صحیفے کی اہانت ریاستی حکومت کی سوچی
سمجھی سازش کا نتیجہ ہے اور اس کا مقصد پنجاب کے بنیادی مسائل کی جانب سے
توجہ ہٹانا ہے۔ بی کے یو(داکنڈا) کے جنرل سکریٹری جگموہن سنگھ اس دعویٰ سے
اتفاق تو نہیں کرتے کہ اہانت کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہے لیکن یہ ضرور کہتے
ہیں کہ پنجاب سرکار سست رو ہے۔وہ مسائل کو حل کرنے میں بہت وقت لگاتی ہے۔
اس واقعہ نے نوجوانوں کی توانائی کو تقسیم کیا ہے اور ان کے احتجاج سے
مجبور ہوکر حکومت نے جو اقدامات کئےوہ بہت پہلےکئے جانے چاہئے تھے۔ کسانوں
کو حکومت کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی خاطر ایک ہفتہ ریلوے لائن پر
احتجاج کرنا پڑا۔ جگموہن کے مطابق ریاستی حکومت اپنے فرائض کی ادائیگی میں
ناکام ہو چکی ہے۔ اس کاغیر ذمہ دارانہ رویہ خطرناک اور قابلِ مذمت ہے۔
حکومت کی جانب سے عدم توجہی نہ صرف ریاستی سطح پر بلکہ قومی سطح پر بھی نظر
آتی ہے۔ ہر مسئلے کو ابتدائی مرحلے میں سلجھانے کے بجائے پہلےاسکو نظر
انداز کیا جاتا ہے۔ جب پانی سر سے اونچا ہونے لگے تو سرکار کےکان پر جوں
رینگتی ہے اور اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔ وزیراعظم کو تو خیر
انتخابی مہم اور غیر ملکی دوروں یا غیر ملکی مہمانوں کی خاطر مدارات سے
فرصت نہیں ہے مگر وزیرخزانہ ارون جیٹلی کو ان معاملات میں دلچسپی لینی
چاہئے تھی۔ انہوں نے امرتسر سے انتخاب لڑا تھا (گوکہ ہار گئے ) اس لئے ان
کوان سلگتے ہوئے مسائل کو سلجھانے کی کوشش ان کی ذمہ داری تھی لیکن فی
الحال بی جے پی کے اعصاب پر بہار سوار ہے اس لئے جیٹلی چندی گڑھ کے بجائے
پٹنہ پہنچ گئے ۔ بہار جہاں فی الحال مودی جی دال نہیں گل رہی ہے وہاں بھلا
جیٹلی جی کیا کرتے ۔ ایک پریس کانفرنس میں دال بھات پرچرچاکرنےکے بعداپنی
کامیابی کا پرفریب اعلان کرکےوہ لوٹ آئے۔
پنجاب کے لوگ زراعت کے سبب ویسےتو خوشحال ہیں اس کے باوجود اپنے معیار
زندگی کو مزید بہتر بنانے کی شدید خواہش نے انہیں دنیا بھر میں پھیلا دیا
ہے ۔ پنجاب کی یہ آگ اب ہندوستان کی حدود سے نکل کر دیگر ممالک تک پہنچ
گئی ہے ۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں سکھوں نے اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے
کیلئے مظاہرے کئے۔ بر طانیہ میں سکھوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ وہاں بھی
ایک بڑا احتجاج ہوا جس میں ہندوستانی سفارتخانے کے باہر سیکڑوں سکھوں نے
مظاہرہ کیا ۔ یہ پرامن احتجاج آگے چل کر مشتعل ہوگیا جس کے بعد پولس نے
سفارتخانے کی گھیرا بندی کردی اور ۲۰ مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ احتجاج کے
منتظم جسویر سنگھ نے بتایا یہ مظاہرہ پنجاب کے اندر رہنے والے بھائیوں کے
ساتھ یکجہتی کے اظہار اور ان پر ہونے والے پولس کےمظالم سے متعلق عوامی
بیداری کیلئے کیا گیا تھا ۔
وزیراعظم ۱۲ نومبر کو ترکی جاتے ہوئے برطانیہ کا دورہ کرنے والے ہیں ۔اس سے
قبل ۷ نومبر کو ان کاسرینگر دورہ متوقع ہے ۔ اگر وہ امرتسر کے اوپر سے آتے
جاتے ہوئے وہاں اتر کر سکھ رہنماوں سے بھی اس خلفشار پر گفتگو کرلیں تو
اچھا ہے ورنہ برطانیہ میں انہیں سکھوں کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ویسے برطانوی حزب اختلاف کےلیبر رہنما جیرمی کاربن کی قیادت میں ۳۹ارکان
پارلیمان نے ایوان کے اندر ایک تجویز پیش کی تاکہ اپنے وزیراعظم ڈیوڈ
کیمرون پر ہندوستان کے اندر حقوق انسانی کی پامالی پر گفتگو کرنے کیلئے
دباو بنا سکیں ۔ بی بی سی کے ذریعہ بنائی گئی دہلی عصمت دری کے واقعہ پر
دستاویزی فلم پر پابندی ، گرین پیس کیلئے کام کرنے والی پریا پلائی کی
برطانیہ میں داخلے پر پابندی، ارم شرمیلا کی بھوک ہڑتال اور ایمنسٹی
کےذریعہ اٹھائے گئے کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی کا اس موشن میں ذکر ہے
۔ تعجب کی بات ہے کہ جن مسائل کوملک کے اندر نظر انداز کیا جاتا ہے ان کی
جانب برطانوی ارکان پارلیمان نے توجہ مبذول کرائی ہے۔
وزیراعظم کو یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا بھر میں تقاریر سے جو ساکھ قائم ہوتی
ہے وہ ایک بہیمانہ تشدد کے واقعہ سے ملیامیٹ ہوجاتی ہے۔ بیرونی سرمایہ کار
بھی امن و امان کے بغیر یہاں آنے کی غلطی نہیں کرسکتے۔ ٹیسلا موٹرس کی
مثال سامنے ہے ۔ مودی جی کے امریکہ میں ان کے کارخانے میں دورے کے باوجود
انہوں نے ہندوستان کے بجائے چین جانے کا فیصلہ کیا۔ اس واقعہ میں ان لوگوں
کیلئے عبرت کا سامان ہے جو اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ پنجاب ایک آتش
فشاں کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ پانچ ماہ میں عوام کےاندر پائی جانے
والی بے چینی اور تناو میں بتدریج اضافہ ہوا ہے لیکن چونکہ ذرائع ابلاغ
پربہار کا بھوت سوار ہے اس لئے کوئی دوسری جانب مڑ کر دیکھنے کا روادار
نہیں ہے ۔ احتجاج و تشدد کی اکا ّ دکا ّ خبریں ضرور شائع ہوتی ہیں لیکن اس
کا حل تو درکنارلوگ اس کی وجوہات کا تجزیہ کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں
کرتے۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ بہار میں متوقع جنگل راج پر تو بہت
کچھ بولا اور لکھا جاتا ہے لیکن پنجاب میں پھلنے پھولنے والے جنگل راج کی
کوئی بات نہیں کرتا ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں انتخابات ڈیڑھ سال
بعد ہیں ۔ ملک کے سیاستدانوں کو کسی صوبے میں اسی وقت دلچسپی پیدا ہوتی ہے
جب وہاں انتخابات ہونے والے ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ کسی کو اپنا اقتدار بچانا
کی فکر لاحق ہوجاتی ہے تو کوئی اس کے حصول کی خاطر سرگرمِ عمل ہوجاتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کا کام ان سیاستدانوں کے پیچھے کیمرے اور مائک لے کر دوڑنا ہے۔
ان کے اوٹ پٹانگ بیانات کو شائع کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا ہے ۔ اس لئے کہ
ایساکرنے سےان کےدونوں ہاتھوںمیں لڈوہوتا ہے۔سیاسی جماعتیں اس کا بھرپور
معاوضہ دیتی ہیں اورعوام کی پذیرائی سے ٹی آر پی بھی بڑھتی ہے جس سے خوب
اشتہارات ملتے ہیں ۔یہ قومی صحافت کا صارفیت کی بھینٹ چڑھ جانا اورذرائع
ابلاغ کا تجارت میں بدل جاناہے کہ اس کی دلچسپی عوامی مسائل سے ہٹ کر
سیاستدانوں اور سرمایہ کاروں کی رہین منت ہوجائے۔ گوکہ ہمارا ذرائع ابلاغ
اس سے صرف نظر کررہا ہے مگر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ آگ کو بھڑکنے کیلئے
ایندھن ، ہوا اور چنگاری کی ضرورت ہوتی ہے۔پنجاب کی آگ میں معاشی مسائل کی
ایندھن کاکام کررہے ہیں ۔ سیاستداں اس کوانتخابی مفاد کی چنگاری دکھا
کرمذہبی جذبات سے ہوا دے رہے ہیں ۔ لیکن یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پنجاب ایک
سرحدی ریاست ہے اور وہاں خالصتان کی تحریک چل چکی ہے۔ سکھ ایک خوددار قوم
ہے اور اس قومی تلوارکے ساتھ سے کیا جانے والا کھلواڑ سنگین نتائج کا موجب
بن سکتا ہے۔ |