چائنا کٹنگ سے گلستان جوہر میں واقع واٹر ریزوائر تباہ ہوسکتا ہے !
(Muhammad Anwar, Karachi)
واٹر ریزرو وائز کے ٹوٹنے سے
کراچی کو سات کروڑ پچاس لاکھ گیلن پانی بند اور ایک کروڑ گیلن پانی کا
سیلاب آسکتا ہے ۔
کراچی میں یونیورسٹی روڈ کے قریب گلستان جوہر بلاک ایک میں ۱۲ اکتوبر کو
پہاڑی کا تودہ گرنے کے واقعہ کے بعد اس بات کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ
کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے دس ملین گیلن یومیہ پانی کے ریزرووائز کو
بھی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔مذکورہ ریزروائر کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ۱۹۸۰
میں بنایا تھا۔اس ریزرووائر کے ذریعے ۷۵ ملین گیلن یومیہ پانی شہر کے ضلع
وسطی اور شرقی کے گلشن اقبال گلستان جوہر کو سپلائی کیا جاتا ہے ۔
جامعہ کراچی کے سامنے پہاڑی پر شہر کراچی کے پانی کا بڑا ذخیرہ کرنے اور
پھر اس مقام سے پمپ کرکے شہر کے متعلقہ علاقوں تک پہنچانے کے لیے بنائے گئے
اس ریزروائر کو پہاذی پر قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہاں سے پانی پمپنگ
کے ساتھ بہاؤ کے تحت بھی متعلقہ علاقوں تک پہنچ جائے ۔ کراچی ڈیولپمنٹ
اتھارٹی نے ایسا کرکے یقینا شہر کے لیے ایک بڑا کام کیا تھا ۔ تاہم سابقہ
ادارہ ترقیات کراچی نے پہاڑی پر پانی کے نظام کو بنانے کے ساتھ قرب و جوار
کے علاقے کاکنٹرول اس وقت کے واٹر مینجمنٹ بورڈ کے حوالے کرنے کے بجائے
اپنے ہی کنٹرول میں رکھا ۔یہی نہیں بلکہ جب ۸۳۔۱۹۸۲ میں واٹر مینجمنٹ بورڈ
کو کے ڈی اے سے علیحدہ کرکے خود مختار کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں
تبدیل کیا گیا تب بھی کسی نے واٹر بورڈ کے اثاثے کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ
نہیں رکھا اور نہ ہی اسے دیا ۔ نتیجے میں پانی فراہم کرنے والے ادارے کو یہ
معلوم ہی نہیں ہے کہ اس کے اثاثوں کی کل تعداد اور اس کی تحویل میں شہر کے
مختلف علاقوں میں موجود اراضی کا کل رقبہ کتنا ہے ۔
واٹر بورڈ کی کل اراضی کے ریکارڈ کا عدم موجودگی کا مفاد پرستوں کو بہت خوب
علم تھا ۔ اگر علم نہیں بھی تھا تب بھی ادارے کے سینئر افسران نے ان مفاد
پرستوں کی رہنمائی کی ۔نتیجے میں واٹر بورڈ کے اور اس کی تنصیبات کے قرب و
جوا رمیں موجود اراضی پر صرف واٹر بورڈ کی جانب سے این او سی کی مدد سے
قبضوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ جو تاحال جاری ہے ۔ اس اراضی میں گلشن اقبال میں
سی او ڈی فلٹر پلانٹ کے آس پاس کی سینکڑوں ایکڑ اراضی بھی شامل ہے ۔
اس اراضی کے ساتھ لینڈ مافیا نے گلستان جوہر کے ہل ایریا کی واٹر ریزر وائر
کے ساتھ موجود اراضی پر اس وقت نظر ڈالی جب ۲۰۰۲ میں کراچی ڈیولپمنٹ
اتھارٹی کو ختم کرکے سٹی گورنمنٹ میں ضم کردیا گیا جو اب سٹی گورنمنٹ کے
ختم ہونے کے بعد اب کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کاکے ڈی اے ونگ کے نام سے
علیحدہ شعبہ ہے ۔ لینڈ مافیا اور ان کے شراکت داروں کو معلوم تھا کہ کے ڈی
اے نے ہل ایریا کی باقاعدہ کوئی پلاننگ نہیں کی ہے اور نہ اس کا نقشہ تیار
کیا ہے ۔ اس بات کا اندازہ اس طرح بھی انہیں تھا کہ کے ڈی اے کے ذمہ داروں
نے واٹر بورڈ کا ریزروائر بناتے وقت چند بنگلوز تعمیر کرکے بااثر افراد کو
سرکاری قیمت پر فروخت کردیے تھے ۔ ان ہی پرانے بنگلوز کی آڑ لیکر لینڈ
مافیا نے دو ہزار دس اور گیارہ میں پہاڑی کو کاٹنا شروع کیا اور یہاں پر
غیر قانونی بنگلوز تعمیر کرنے شروع کردیے ۔
دلچسپ امر یہ کہ لینڈ مافیا کی اس کارروائی پر تمام متعلقہ ادارے خاموش رہے
جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس لینڈ مافیا کا تعلق ایم کیو ایم سے
وابستہ محمد احسن عرف چنو ماموں سے تھا ۔ محمد احسن ایم کیو ایم کے لندن
میں مقیم مرکزی رہنما محمد انور کے بھائی بتائے جاتے ہیں ۔
مذکورہ پہاڑ کو ماہرین کی رہنمائی و مشورے کے بغیر کاٹے جانے کے باعث آج
پورا پہاڑی علاقہ بھی خطرناک ہوگیا ہے ۔ ۱۲ اکتوبر کو لینڈ سلائڈنگ ہونے سے
پہاڑی کے ساتھ بسے خانہ ندوش خاندانوں کے بارہ افراد جاں بحق اور بیس سے
زائد زخمی ہوچکے ہیں ۔
دلچسپ امر یہ کہ پہاڑ پررہائشی پلاٹوں کی چائنا کٹنگ اور بنگلوز کی تعمیرات
کے باوجود کے ڈی اے ، یا اس وقت کی سٹی گورنمنٹ سمیت کسی ادارے نے اس کا
نوٹس نہیں لیا ۔ تاہم اب تقریباََ تین سال بعد حساس اداروں کی جانب سے
کراچی آپریشن شروع کیے جانے کے بعد نیب بھی حرکت میں آیا ۔ نیب نے اس ضمن
میں گزشتہ سالوں کے دوران کے ڈی اے لینڈ ڈپارٹمنٹ میں تعینات رہنے والے ۲۹
افسران کو بھی طلب کیا تھا۔
پہاڑی پر چائنا کٹنگ ہونے سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا ریزرووائر
خطرے میں پڑچکا ہے ۔ریزرووائر کے حوالے سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے
چیف انجینئر (بلک ) ظفر پلیجو نے بتایا ہے کہ ریزرووائر میں ہر وقت دس ملین
گیلن پانی موجود رہتا ہے ۔ تاہم اس سسٹم کے ذریعے یومیہ ۷۵ملین گیلن شہر کے
مختلف علاقوں کو ترسیل کیا جاتا ہے ۔ اس ذخیرے سے شہر کے پورے ضلع وسطی کو
جبکہ جزوی پانی کا حصہ ضلع شرقی کے گلشن اقبال اور گلستان جوہر کوفراہم کیا
جاتا ہے ۔
پہاڑی کی غیر قانونی کٹائی کے نتیجے میں ریزرو وائر کی دیواروں کو خطرہ
لاحق ہونے کے حوالے سے انجینئر ظفر پلیجو نے بتایا ہے کہ گلستان جوہر ویسے
بھی زلزلے کی فالٹ لائن پر موجود ہے جبکہ پہاڑ پر ہونے والی حالیہ لینڈ
سلائڈنگ سے اس بات کے خدشات ہیں کہ واٹر ریزرو وائر کی دیواریں متاثر ہوئی
ہونگی ۔ان کا کہنا تھا کہ لیکن چونکہ وہ صرف بلک واٹر کے ذمہ دار انجینئر
ہیں اس لیے ریزرووائر کی ساخت اور موجودہ صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں کہہ
سکتے ، یہ کام ادارے کے پلاننگ ڈپارٹمنٹ کا ہے ۔
جسارت کی تحقیقات سے ایسے شواہد ملے ہیں کہ صوبائی حکام اور کراچی واٹر
اینڈ سیوریج بورڈ کی انتظامیہ جان بوجھ کر ریزرووائر پر توجہ نہیں دے رہی
تاکہ اس کے نقصان کی صورت میں اسے یہاں سے منتقل کردیا جائے اور اس پوری
اراضی پر غیر قانونی قبضہ کرادیا جائے ۔
واٹر ریزرو وائر میں رساؤ پیدا ہونے سے ہی ایک کروڑ گیلن پانی کے دباؤ سے
بڑا شگاف پڑستا ہے جس سے یونیورسٹی روڈ اور قرب و جواز میں سیلاب جیسی
صورتحال پیدا ہوسکتی ہے ۔تاہم اس حوالے سے چیف انجینئر بلک ظفر پلیجو کا
کہنا ہے کہ گلستان جوہر کے مذکورہ ریزرو وائر میں پانی نارتھ ایسٹ کراچی
پمپنگ اسٹیشن سے آتا ہے ، ایس صورت اگر خدانخواستہ پیش آئی تو وہاں سے پانی
کی ترسیل بند کرکے صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ تاہم ہر وقت موجود رہے
والے ایک کروڑ گیلن پانی کے ذخیرے کے بارے میں وہ کوئی واضح جواب نہیں دے
پائے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور دیگر متعلقہ ادارے
ہنگامی بنیادوں پر اس ریزرووائر اور پہاڑ کی مضبوطی کا جائزہ لیکرفیصلے
کریں ۔ اس ضمن میں کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے اگر چہ پہاڑ پر بلڈنگز
پلاننگ کی پابندی عائد کردی ہے تاہم اس فیصلے کی کاپی کا نوٹیفکیشن سندھ
بلڈنگزکنٹرول اتھارٹی کو مارک نہیں کیا گیا ہے حالانکہ ایس بی سی اے ہی
بلڈنگز پلاننگ کا سب سے اہم ادارہ ہے ۔
دریں اثناء ارضیاتی ماہرین نے نمائندہ جسارت کو بتایا ہے کہ پہاڑوں پر ڈرل
اور اس کوکاٹنے کے لیے کی جانے والی کارروائی سے ریزرووائر کی دیواروں کا
مخدوش ہوجانے کے بھی خدشات واضح ہیں ۔ ان ماہرین نے کہا کہ خدانخواستہ واٹر
ریزروائر میں رساؤ پیدا ہوا تو گلستان جوہر میں بڑے پیمانے پر تباہی آسکتی
ہے ۔ اس لیے اسے فوری چیک کرانے کی ضرورت ہے ۔ بھی طلب کرکے ان سے پوچھ گچھ
کی گئی تھی ۔نیب جن افسران کے خلاف اس الزام میں تحقیقات کررہا ہے ان کو
حال ہی میں ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی نے ڈائریکٹر انکروچمنٹ تعینات کیا ہے- |
|