آفات اور مفادات

 چار چیزیں میری ذہن میں کٹک رہی ہیں ۔اورمجھے قلم اُٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ پہلے نمبر پر۲۶ اکتوبر کو زلزلہ کے دوران گھروں سے نکلنے والی بچوں اور عورتوں کی چیخیں اور خوف کے مارے دوڑنا اور رونا اور پھر ساری رات ماؤں کے ساتھ ڈر کے مارے چمٹے رہنا ۔ دوسرے نمبرپر ۲۰۰۱؁ء میں افغان مجاہدین کی امداد کیلئے قریہ قریہ اعلانات۔تیسرے نمبر پر وہ ٹیلیفونک گفتگوسنی جو ۲۰۰۵؁ء کے تباہ کن زلزلہ کے بعدایک این جی او کا مالک ایک وفاقی منسٹر سے فنڈز اور راشن کا مطالبہ کر رہا تھا۔ چوتھے نمبر پر وہ جملہ پڑھا جو کہ پچھلے دنوں ایک نامی گرامی کالم نگارنے لکھا تھا۔جملہ کچھ یوں تھا۔’’ایک طبقہ جو کہ عوام کو گمراہ کر رہا ہے۔وہ مُلاّحضرات ہے ۔ جو اس طرح کے کسی بھی مصیبت کے بعد فوراً ہمیں استغفار کرنے اور معافی مانگنے کا درس دیتے ہیں‘‘۔

پاکستانی قوم بھی عجیب ہے۔کوئی آفت یا مشکل آتی ہے۔تو بیشتر لوگ اس نازک اور کٹھن وقت میں بھی مناسب مواقع کا انتظار کرتے ہیں۔۸ اکتوبر ۲۰۰۵؁ء کو جب بالا کوٹ اور کئی شہروں میں شدید زلزلہ آیا۔ تو پورے ملک میں توبہ و استغفار کے وِرد ہوتے رہے۔لیکن میں حیران ہوا جب ہمیں ۲۰۰۷؁ء میں ایک سماجی تنظیم کے توسط سے ایک ٹیم کی شکل میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کرایا گیا۔وہاں عینی شاہد نے ہمیں بتایا۔کہ جناب ! اُس دن ہمیں ایک بس کے اندر پانی کے ایسے کولرملنے کی اطلاع ملی۔جس میں انسانوں کے کٹے اعضاء پڑے تھے۔ہم خود ہکا بکا رہ گئے جب پوچھنے پر پتہ چلا کہ زیورات کی وجہ سے اُن بھائیوں اور بہنوں کے اُنگلیاں اور ہاتھ کاٹے گئے تھے۔اس صورت میں جب ایک انسان کا صرف دھڑ بچا ہوا ہو۔ اور وہ زندگی کی آخری سسکیاں لے کر سہارا مانگ رہا ہو۔اور اس وقت درندہ صفت انسان مدد کی بجائے دولت کی حِوس بجھانے کیلئے اِن بے چاروں کے اعضاء کاٹ رہے ہو۔ اُف اﷲ ! ایسے سنگ دل انسان سے تو وہ کُتے بھی بہتر ہیں جو اپنے ساتھی زخمی کتے کو منہ کے ذریعے گاڑیوں سے بچانے کیلئے سڑک کے ایک طرف گھسیٹتے ہیں۔پھر اسی عذاب الٰہی کے نتیجے میں بننے والی قبرستانوں میں جب میں کھڑا ہوتا۔اور بچوں و ماؤں پر بنی تازہ تازہ قبریں دیکھتا۔پھر بازار میں لوگوں کے چہروں کو پڑھتا۔تو منہ سے بے اختیار استغفراﷲ نکلتا۔

چونکہ ہم کچھ ڈیڑھ سال بعد انہی متاثرہ علاقوں میں گئے تھے۔زلزلہ کے بعد بے قاعدگیوں سے متعلق کئی مظاہر میرے مطالعہ سے گذریں۔یہ بھی پڑھنے کو ملا۔ جب متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت کے ہوتے ہوئے متاثرین کیلئے بھیجا ہوا غیر ملکی امدادی سامان اور این جی اوز کے خیموں اور دیگر خوراک کی اشیاء کو یا تو آپس میں بانٹا گیا یا اونے پونے داموں بیچاگیا۔پاکستانی میڈیا کے مطابق خیموں سے بھرے ایسے گودام بھی پکڑے گئے۔جنہیں تاجروں کے ہاتھوں بیچا گیا تھا۔

افغان جنگ کے دوران مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے کیلئے بعض مُلاّ لاؤڈ سپیکر لے کر گاؤں گاؤں لوگوں سے امداد کی اپیلیں کرنے لگیں۔سادہ لوح عوام کو دلیل یہ دی ۔ کہ ’’ مسلمان جسدِواحد کی مانند ہے۔ پورے جسم میں ایک عضو کو تکلیف ہوجائے تو سارا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے۔آج ہمارے مسلمان بھائیوں کو افغانستان میں ہماری تعاون کی ضرورت ہے۔ہم سب کا فرض بنتا ہے۔کہ ہم ملکر ان کی مدد کریں‘‘۔گھروں میں خواتین نے اپنے زیورات لیکرمسلمان بہنوں اور بھائیوں کے نام دے دئیے۔مگر افسوس کہ ان زیورات کو بیچ کر بہت سے ملاّ حضرات نے ٹوڈی گاڑیاں اور جائیدادیں خرید لیں۔

جب بھی کوئی قدرتی آفت آئی۔یا کوئی فوجی آپریشن ہوا۔مرکزی اور صوبائی حکومتیں متاثرین کے نام پربیرونی دنیا اور این جی اوز کے سامنے جھولیاں پھیلاتے ہیں۔کمبل،دوائیاں،خیمے اور اشیائے خوردو نوش متاثرین کی بجائے ٹھیکیداروں ،پارٹی عہدیداروں اور دکانداروں کو مل جاتے ہیں۔صوبائی و مرکزی رہنما اور افسران آپس میں ایک دوسرے کو تحائف کے طور پر بھیجتے ہیں۔جب مال زیادہ ملے تواپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں بھی بانٹتے ہیں۔وہ بھی اس حرام کی چیز کو اپنے لیے جائز قرار دیکرکھا جاتے ہیں۔
این جی اوز کی بھی یہ صورتحال ہے۔کہ جس کو کوئی سرکاری ٹھیکہ نہیں ملتا۔تو وہ اپنے لئے کوئی فاؤنڈیشن یا آرگنائزیشن کھول دیتے ہیں۔پھر فنڈز کے حصول کیلئے صدر ،وزیراعظم اور وزاراءِ اعلیٰ تک سفارش کیلئے جاتے ہیں۔اب ایسے فنڈز کا متاثرین میں تقسیم ہونا لا محال ہے۔

اس زلزلہ کے بعد ایک اور فیکٹر یہ سامنے آیا۔ کہ غلط عقائد کی ترویج اور لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے عجیب قسم کے گمراہ کن جملے تحریر کیے گئے۔ جن کا میں نے شروع میں ذکر کیا۔بہرکیف کوئی جو بھی لکھیں ۔ایسی آفات کی صورت میں ہمیں ذاتِ باری تعالیٰ سے اپنی گناہوں پر توبہ گار اور نادم ہونی چاہیئے۔جتنی ممکن ہو سکے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنی چاہیئے۔کسی بھی رائیٹر کو غلط عقائد کی پرچار زیب نہیں دیتا۔اور نہ حرام کی کھائی، کمائی ا ور دوائی سے کسی کو سکون ملے گا۔
 
Hafiz Abdur Rahim
About the Author: Hafiz Abdur Rahim Read More Articles by Hafiz Abdur Rahim: 31 Articles with 19964 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.