کیا یہ انکشافات کی محفل تھی ؟

جی ہاں ! یہ انکشافات کی محفل تھی

ہر لمحہ ایک نیا انکشاف -
ہر لحظہ ایک نئی بات آشکارا
اور ہم تھے کہ انگشت بدنداں سنے جارہے -
یہ معلوم ہوا کہ اونٹ اور انٹر نیٹ دو مختلف عادات کے مالک ہیں
یہ بھی پتہ چلا کہ کسی ایک ادارے میں اکٹھے پندرہ ہزار ادیب و دانشور نظر نہیں آتے اور یہاں ہماری ویب سے پندرہ ہزارادیبوں و دانشوروں کا تعلق ہے
یہ سن کر بھی اچنبھا ہوا کہ ہماری اس محفل میں آمد سے لیکر اس وقت تک آدھے گھنٹے کے دوران تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد دنیا بھر میں “ہماری ویب “ سے مستفید ہو چکے ہیں
حیرت اس وقت بھی ہوئی جب کسی نے بتایا کہ لوگ پرنٹ میڈیا پر لکھنا فخر سمجھتے تھے لیکن وقت نے انگڑائی لی ہے اور اب الیکٹرانک میڈیا لوگوں کی توجہ کھینچ رہا ہے
اور یہ عجب تماشہ بھی دیکھا کہ محفل میں ایک سامع کے بھانجے کا دوست جو امریکہ کا ویزہ رکھتا تھا ایک ادیب سے بار بار معذرت کر رہا تھا کہ اپنے مضامین کا پرنٹ آؤٹ نہ دیں بلکہ ویب سائٹ بتائیں

ہم یہ دیکھتے جا رہے تھے اور خلاء میں نظریں جمائے سوچ رہے تھے کہ کہ اگلے زمانے میں یہ حاتم طائی جو ہوا کرتا تھا وہ دیس دیس جاکر زیادہ حیران ہوا کرتا تھا یا ہم یہاں زیادہ حیران ہو رہے ہیں

( خلاء میں اس لئے گھور رہے تھے کہ پرانے دور کے کئی ناولوں میں پڑھا ہے کہ نازک اندام ہیروئن یا خوبرو ہیرو سوچوں کے دوران ایسا کیا کرتے تھے )

صاحبو یہ ہفتے کے دن کا قصہ ہے - کراچی میں گرمی کراچی کے باسیوں کو الوداع کہہ رہی تھی اور سردی کی آمد آمد تھی جبکہ نوجوان نسل کا کہنا یہ ہے کہ موسم سرد نہیں ہوا ہے بلکہ خوشگوار ہوا ہے سردی ابھی دور ہے - خیر اسی خوشگوار موسم میں ہماری ویب نے ایک مقامی ہوٹل میں مشہور شاعر اور ادیب جناب سحر انصاری کو حکومت پاکستان کی طرف سے “ستارہ امتیاز “ ملنے کی خوشی میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا - اس کے ساتھ ہی انیس نئی برقیاتی کتب جنہیں عرف عام میں ای بکس کہا جاتا ہے کی رونمائی بھی ہو رہی تھی -

جناب سحر انصاری صاحب کی زندگی نوجوان نسل کے لئے ایک مشعل راہ کا کام دیتی ہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے - اس تقریب میں وہ وقت مقرہ پر تشریف لائے جبکہ ہم جیسے لوگ جن کی دوسری کوئی مصروفیت بھی نہیں تھی اپنے روائتی سستی کے سبب کچھ تاخیر سے پہنچے -

تقریب کا آغاز تلاوت سے ہوا - تلاوت کا اعزاز ہماری ویب کے ایک کالم نگار جناب ڈاکٹر شیخ ولی خان المظفر کو ملا - - ان کی اواز میں بے ساختگی تھی - بناوٹ سے دور کانوں میں رس گھولتے ہوئے الفاظ کا اتار چڑھاؤ کمال درجے کو پہنچا ہوا تھا - ایسے محسوس ہوا کہ فضاء میں پھیلی ہوئی کثافتیں دھل گئی ہیں اور ایک بھاری پن جو پھیلا ہوا تھا غائب ہو گیا اور ہر سو ایک نرماہٹ سی پھیل گئی -

ہماری ویب رائٹر کلب کے چیئر مین اور ہماری ویب کے بانی جناب ابرار احمد صاحب نے مہمان گرامی جناب سحر انصاری کے اعزاز میں خطبہ استقبالیہ پیش کیا -

جناب ابرار صاحب ، چیر مین و بانی ہماری ویب کی باتیں سن کر احساس ہوا کہ اردو کے یہ شیدائی تو مسلسل امتحان میں ہیں - انکا کہنا تھا کہ انٹر نیٹ کی دنیا کبھی ایک کروٹ نہیں بیٹھتی - بعد میں کھانے کے دوران میں ہمارے ایک نٹ کھٹ ساتھی نے لقمہ دیا کہ جی ہاں جناب یہی فرق ہے -

اونٹ اور انٹر نیٹ میں - اونٹ ایک کروٹ بیٹھ گیا تو پھر ویسے ہی بیٹھا خاموشی سے جگالی کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھتا رہتا ہے جبکہ انٹر نیٹ کا جہاں ہمیشہ تغیر و تبدل کے عمل میں رہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کے استعمال کرنے والے کو بھی مستعد رہنا پڑتا ہے - آفرین و تحسین ہے ابرار صاحب کے لئے کہ نئے چیلنجوں سے بخوبی نبرد آزما رہتے ہیں -

ابرار صاحب بتارہے تھے کہ جب ہماری ویب کا آغاز ہوا تو اسے میز پر رکھے کمپیوٹر کے لئے تخلیق کیا گیا تھا- لیکن جب انٹر نیٹ نے موبائیل ٹیلی فون پر اپنے جلوے دکھانے شروع کئے تو ہمیں بھی اپنی ہییت اور بنت میں تبدیلی کرنی پڑی - انگریزی زبان کو یہ مسئلے نہیں پیش آئے لیکن اردو کی راہ میں طرح طرح کی دشواریاں آئیں - داد دینی چاہئے ہماری ویب کے عملے کو کہ یہ سب رکاوٹیں احسن طریقے سے دور کیں -

ابرار صاحب کی ایک بات سن کر تو ہمارے منہ سے بے اختیار نکلا “شیطان کے کان بہرے -دشمنوں کے منہ میں خاک “ اور ہمارے ساتھ بیٹھے ادیب کے کان کھڑے ہو گئے - ابرار صاحب رہے تھے کہ ہماری ویب کو سالانہ دو کروڑ اڑتالیس لاکھ افراد دیکھتے ہیں - ہم ٹھہرے حساب کتاب کے آدمی - فورآ حساب کتاب لگایا کہ تقریب شروع ہوئے تقریبآ نصف گھنٹہ گزر چکا ہے اور اس دوران ڈیڑھ ہزار افراد ہماری ویب دیکھ چکے ہیں - ہمارے سامنے تو کئی مناظر بھی آگئے - بس اڈے کے -ریلوے اسٹیشن کے - ہوائی اڈے کے - ریل گاڑی کے اندر سفر کرتے ہوئے مسافروں کے - سر سبز کھیتوں میں درخت کے نیچے سستاتے ہوئے دھقانوں کے - کسی دفتر کے باہر افسر سے ملاقات کرنے کے منتظر ضرورت مندوں کے - ہسپتال میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے افراد کے اور نہ جانے کیا کیا - یہ سب افراد اکتاہٹ کی یہ ساعتیں گزارنے کے لئے اپنے اپنے موبائیل پر ہماری ویب سے استفادہ کرتے نظر آئے - یہ خیال بھی کیا چیز ہے کہ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں کہاں کہاں پہنچا دیتا ہے - ہم نے ہم سر جھٹک کر اپنے کو ان خیالات سے آزاد کیا اور ابرار صاحب کو سننے لگے -

ابرار صاحب کی اگلی بات ہمیں اسٹیل مل لے گئی - ایک زمانہ تھا کہ اسٹیل ٹاون اور اسٹیل مل میں یہ بات کہی جاتی تھی کہ طارق عزیز صاحب نے نیلام گھر میں سوال کیا کہ وہ کون سی آبادی ہے جہاں سب سے زیادہ انجینیئر رہائش رکھتے ہیں - جواب دینے والے نے اسٹیل ٹاؤن کراچی کا حوالہ دے کر انعام حاصل کیا - ہر قسم کے انجینیئر -- معدنیات کے انجینیئر -علم کیمیا کے انجینئر - دھات کاری کے انجینئر - میکانیکل معاملات سے نبٹنے والے انجینئر - بجلی و برق سے نبرد آزما انجینئر - اونچی اونچی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمارات کے انجینئر - ہر پتھر کے نیچے انجینئر -ہر پتھر کے اوپر انجینئر - دائین انجینئر -بائیں انجینئر - یہ بات لوگوں نے اڑائی تھی یا واقعی ایسا سوال کیا گیا تھا اس سے قطع نظر ابرار صاحب کی یہ بات تو دل کو لگتی ہے کہ کسی ایک ادارے میں پندرہ ہزار ادیب نطر نہیں آتے جو کہ ہماری ویب میں موجود ہیں - ایک لاکھ دس ہزار کے قریب مضامیں اس نیٹ پر موجود ہیں - چشم بد دور -

اس اعلان سے بھی دل کو ڈھارس پہنچی کہ جناب سحر انصاری صاحب نے ہماری ویب کے رائٹر کلب کا سرپرست اعلیٰ بننے کی درخواست قبول کر لی ہے - ان کی رہنمائی میں تحریر نگاروں کی تخلیقات میں مزید نکھار پیدا ہو گا -

یہ انٹر نیٹ ،یہ اسمارٹ موبائیل ٹیلی فون ، یہ ٹیبلیٹ --سب نئے زمانے کی دریافتیں ہیں - پرانی نسل اس سے آشنا نہیں تھی - وحید مراد کو علم نہیں تھا کہ موبائیل ٹیلی فون کس چڑیا کا نام ہے - ذوالفقار علی بھٹو اسے نہیں استعمال کر سکے - ابرار صاحب کے بعد جب ہمارے محترم استاد پروفیسر سحر انصاری خطاب کرنے آئے تو ایسا لگتا تھا انہیں اس نئی ایجاد کے سب مسائل کا ادراک ہے - انہوں نے ابرار صاحب کی جد و جہد کی تعریف کی اور کہا کہ ابرار احمد جیسے نوجوانوں کو دیکھ کر انہیں بہت خوشی ہوتی ہے - انہوں نے اپنے ستارہ امتیاز کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ محنت رائیگاں نہیں جاتی -

تقریب میں انیس نئی برقیاتی کتب ( ای بکس ) کی رونمائی بھی کی گئی - اس طرح ہماری ویب نے اب تک چونتیس کتب جاری کی ہیں - ان کتب کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے کہ ان ادیبوں کو پاکستان کے مسائل سے خوب آگاہی ہے - سلگتے سماجی مسائل ، سیا سی شعبدہ بازیاں - طبی حقائق - مذہبی امور - سیر و سیاحت - جرم و سزا کی سنگین داستانیں - تاریخی عمارتوں کے پس منظر - خوبصورت مقامات کے تذکرے - پس منظر میں رہ کر ملک کا نام روشن کرنے والے افراد کے بارے میں معلومات - غرض پاکستان کے ہر فرد کی دلچسپی کے موضوع ان کتابوں میں موجود ہیں -

تقریب کے بعد طعام کا انتظام بھی کیا گیا تھا - ایک صاحب نے کہا کہ پہلے ادیب پرنٹ میڈیا پر چھپنا اعزاز سمجھتے تھے لیکن اب زمانہ تبدیل ہو رہا ہے - اب پرنٹ میڈیا کی بجائے الیکٹرانک میڈیا لوگوں کی توجہ کھیچ رہا ہے -ایک ادیب نے تین ای میل دکھا ئیں جس میں کسی اخبار کے ایڈیٹر نے اس ادیب کے الیکٹرانک میڈیا پر موجود مضامیں کو اپنے پرنٹ میڈیا پر چھاپنے کی اجازت مانگی تھی -

ایک اور عجیب تماشہ بھی دیکھا - ایک صاحب کو لینے کے لئے ان کا بھا نجہ گاڑی لیکر آیا تھا -بھانجے کے ہمراہ اس کا ایک دوست بھی تھا - یہ دوست ا امریکی گرین کارڈ ہولڈر تھا - ابھی کھانا ختم ہو نے میں تھوڑا سا وقت باقی تھا - وہ دوست مختلف ادیبوں سے باتیں کرتا رہا - ایک ادیب نے اپنے کچھ مضامیں کا تزکرہ کیا تو اسے بہت اشتیاق ہوا کہ انہیں پڑھے - ادیب بھائی نے اسے اس کے پرنٹ آوٹ دئے تو لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ کاغذ پر اردو پڑھنے میں دشواری محسوس کر تا ہے - اسے اس مضموں کا ویب سائٹ ایڈریس بتایا جائے - اپنا سمارٹ موبائیل نکالا اور ویب سائٹ ایڈریس نوٹ کرتا رہا - ادیب نے دو بار بلکہ تین بار پرنٹ آوٹ کی پیش کش کی لیکن ہر مرتبہ اس نے انکار کیا - صاحبو اس پہلو پر بھی غور کرلو دنیا کہاں جا رہی ہے-

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 354843 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More