اقصیٰ کے چراغوں کو جلاو

کیا فرمان نبوی کی پیروی میں ہم اپنے آپ سے یہ عہد کرنے کے لئے تیار ہیں کہ ہم اقصیٰ کے چراغوں کو بجھنے نہیں دیں گے؟

کیا حماس کے رہنما اسمٰعیل ہنیہ کی درخواست پر لبیک کہتے ہوئے ہم ہمیشہ اہل قدس کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے لیئے تیار ہیں؟

غزہ پر گیارہ روز وحشیانہ بمباری اور اس کے نتیجے میں حماس کے منہ توڑ راکٹ حملوں کے بعد بالآخر اسرائیل گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا۔

جنگ بندی کے بعد القدس کی زندہ و بیدار عوام نے تباہ حال عمارتوں اور ملبے کے ڈھیروں پر فتح کا جشن منایا۔ اس موقع پر حماس نے کہا کہ "فتح اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا نتیجہ ہے" ادھر سفارتی جدوجہد میں مصروف پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ "جنگ بندی کامیاب سفارتکاری کا نتیجہ ہے"
بدترین اسرائیلی جارحیت کے جواب میں حماس کی جانب سے لڑی جانے والی اپنی نوعیت کی یہ پہلی جنگ تھی۔

کامیاب حکمت عملی اختیار کر کے حماس نے بالآخر اپنے آپ کو عالمی طور پر منوا لیا۔
قبلہ اول ہونے کے ناطے مسجد اقصیٰ کڑوڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ کچھ تجزیہ نگار اس مزاحمت اور بمباری کے دوران یہ نوید سناتے رہے کہ ترکی کے صدر کی تجویز پر عنقریب تین مسلم ممالک کی محافظ فوج تشکیل پانے ہی والی ہے۔ القدس اور اقصیٰ کے چاہنے والے ایسی کسی محافظ فوج کے انتظار میں پلکیں بچھائے رہے مگر ہنوز دلی دور است۔

۔۔ یہ صرف سوشل میڈیا کے تجزیوں تک ہی محدود رہا اور حماس اور القدس کے نہتے عوام تنہا ہی قبلہ اول کی محافظت کرتے رہے۔

البتہ پاکستانی وزیر خارجہ نے یو این او کے اجلاس میں فلسطین کے حق میں دبنگ تقریر کی اور غزہ کے تحفظ کے لیئے یو این او کی فوج بھیجنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی عندیہ دیا کہ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو متفق ممالک ایسی فوج بھیج سکتے ہیں۔

متفق ممالک سے ان کی مراد پاکستان، ایران اور ترکی تھی۔ یہ بہت خوش آئند موقف ہے جو فلسطین کے حق میں پاکستان کی طرف سے عالمی فورم پر اپنایا گیا ہے۔

جنگ بندی اور حماس کی فتح ایک جانب دوسری طرف یہ تلخ حقیقت بھی ہے کہ دغا باز اسرائیلی فوج کسی بھی وقت ایک بار پھر اہل غزہ، القدس اور مسجد اقصیٰ کو زیر عتاب لا سکتی ہے۔ اگر چہ جنگ بندی کے لیئے حماس کی جانب سے جو شرائط پیش کی گئیں وہ یہ تھیں کہ:
*آئندہ اسرائیلی فوج شیخ جراح کے علاقے میں داخل نہیں ہوگی۔


*اسرائیلی فوج مسجد اقصیٰ میں داخل نہیں ہو گی۔
مگر یہودی عزائم کے بارے میں بیشتر مذہبی اسکالرز بتاتے ہیں کہ اسرائیلی فوج بار بار مسجد اقصیٰ پر حملے کرے گی۔ کیونکہ یہودی عقائد کے مطابق معبد سلیمانی کا بقیہ حصہ مسجد اقصیٰ کے نیچے واقع ہے اس لیئے وہ اسے گرا کر ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیئے کوشاں ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے کسی سانحے سے قبل ہی ہم خیال مسلم ممالک ،جو موجودہ بحران کے دوران اخوت کے جذبے میں بندھے نظر آئے اور اہل فلسطین کی مورل سپورٹ کے لیئے کھڑے رہے ، اس سے نمٹنے کے لیئے حکمت عملی مرتب کریں جیسا کہ "غزہ پروٹیکشن فورس" کی فی الحقیقت تشکیل۔

کیونکہ حالات جس جانب جا رہے ہیں اور پیشن گوئیاں جو کچھ کہتی ہیں اس کی رو سے دنیا واضح طور پر دو گروپس میں منقسم ہو رہی ہے اور یہ خلیج آہستہ آہستہ گہری ہوتی جا رہی ہے۔ جس میں ایک طرف رحمان اور دوسری طرف شیطان کی جماعت ہو گی۔

غزہ ہر اسرائیلی جارحیت کے انہی دنوں میں صدر پاکستان کا انتہائی تھکا ہوا بیان سوشل میڈیا اور اخبارات کی زینت بنا جس میں انہوں نے اپنے معاشی طور پر کمزور ہونے کاذکر کیا اور اس بنا پر طاقتور کی بات سننے کی بات کی۔

اگر طاقتور کی بات ہی ماننا ہے تو کس کام کے یہ میزائیل، ٹینکس، توپیں، یہ ہتھیار اور پانچویں بڑی عسکری طاقت ہونے کا اعزاز؟ حماس کی موجودہ تاریخ ساز مزاحمت یہ ثابت کرتی ہے کہ جنگیں معاشی طاقت سے نہیں بلکہ ایمانی طاقت سے جیتی جاتی ہیں۔ عہد نبویؐ سے دور خلافت اور بعد کے فاتحین تک مسلمانوں کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ وہ ہر دور میں کئی گنا بڑی طاقت سے ٹکرائے اور قوت ایمانی کے بل بوتے پر جنگوں میں سرخرو رہے۔

روس جیسی سپر پاور کو پہاڑوں میں رہنے والوں نے ناکوں چنے چبوائے۔ مسلم فاتحین دشمن کے مقابلے کے لیئے اپنے سپاہیوں کے حوصلے بڑھاتے، فتح کی امید دلاتے اور لہو گرماتے۔ صفحہ ہستی سے سب کے باب ایک روز بند ہونے والے ہیں چاہے وہ کمزور ہو یا طاقتور۔ تو کیوں نہ جتنی زندگی باقی ہے وہ سر اٹھا کر جیئیں اور سر اٹھا کر جینے کا پیغام دیں۔ اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہاتھوں میں پتھر اٹھانے والے ننھے بچے جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ٹینکوں کے مقابلے میں کمزور ہیں یہی پیغام دے رہے ہیں کہ تاریخ کے صفحات میں وہی قومیں امر رہیں جو طاقتور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی رہیں۔

ظلم و بربریت کی اس جنگ کے دوران سابق فلسطینی وزیر اعظم اسمعیل ہنیہ کے اس پیغام کو فروغ کرنے کی ضرورت ہے جو انہوں نے دوران جنگ ایک ویڈیو بیان میں دیا۔ انہوں نے پاکستانی قوم سے اپنے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی درخواست کی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انتہائی پر یقین لہجے میں کہا کہ " ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ فلسطینی قوم اپنی آزادی اور خود مختاری کی خاطر بندوق لے کر ڈٹی رہے گی۔

ہم القدس کے لیئے لڑتے رہیں گے خواہ اس کے لیئے ہمیں کتنی ہی جانوں کا نذرانہ کیوں نہ پیش کرنا پڑے۔ ہم القدس واپس لیں گے اور اپنی مسجد اقصیٰ کے محرابوں میں نماز ادا کریں گے۔ انشا اللہ کامیابی ہمارے قدم چومے گی"

احادیث مبارکہ میں قبلہ اول میں ایک وقت کی نماز کا اجر ہچاس ہزار نمازوں کے برابر بتایا گیا ہے۔ نبی مہربان محمد مصطفیﷺ نے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی فضیلت بیان کی ۔

ایک صحابی نے دریافت کیا کہ اگر وہاں جانا اور نماز ادا کرنا میرے لیئے مشکل ہو تو پھر میں کیا کروں؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ "پھر وہاں کے چراغوں کو جلانے کے لیئے تیل کا تحفہ بھیجو"

مسجد اقصی کے تحفظ کے لیئے اہل فلسطین کے شانہ بشانہ کھڑے رہ کر اور ان کی مالی اور اخلاقی امداد کر کے ہم اقصیٰ کے چراغوں کے لیئے اپنی عقیدتوں کا تحفہ بھیج سکتے ہیں۔
 

Syed Haseeb Shah
About the Author: Syed Haseeb Shah Read More Articles by Syed Haseeb Shah: 53 Articles with 32810 views I am Student i-com part2.. View More