شکست کے خوف سے بہار میں نفرت اور اشتعال انگیزی کا کاروبار عروج پر

بہار الیکشن جس طرح آخری مرحلے میں داخل ہورہا ہے سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کی زبان بے لگام ہوتی جارہی ہے اور اپنا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یہ لوگ یہ بھی نہیں دیکھ رہے ہیں پوری دنیا کی نگاہ اس وقت ملک پر ہے اور ایک ایک بیان کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جارہا ہے۔ اس کو مختلف پیمانے اور سانچے پر پر کھا جارہا ہے۔ اس کے باوجود اس طرح اشتعال انگیز اور مسلم مخالف بیان اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگل کرکے ہندوؤں میں ووٹوں کی صف بندی کی جارہی ہے۔ پارٹیوں کو اس کا بھی کا خیال ہے نہیں ہے آئینی عہدے پر فائز شخص کا دائرہ کیا ہوتاہے اور وہ پارٹی کا کوئی گلی محلے کا کارکن نہیں کہ جو زبان میں آئے بک دے۔ الیکشن میں تشہیری مہم کا معیار گھٹیا سے گھٹیا ہوتا جارہا ہے۔ خاص کر اس وقت جب سے فسطائی طاقتوں کا عروج ہوا ہے۔ ویسے تو مذہبی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اور ایک خاص مذہب میں ان لوگوں کو احترام بھی حاصل ہوتا ہے لیکن بدتمیزی، گالی گلوج، اشتعال انگیزی، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، الزام اور بہتان تراشی ، ذاتیات پر حملہ کرنا، انتخابی موضوع کو ترک کرکے نجی زندگی کی بخیا ادھیڑنا ایسے لوگوں کی عادت بن گئی ہے اور کہیں نہ کہیں یہ فطرت کے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ ترقی، بے روزگاری، بھوکمری ، بجلی پانی، سڑک، ٹرانسپورٹ، زرعی سہولیات، پینے کا پانی ،بیت الخلا وغیرہ جیسے دیگر سہولت بہم پہنچانے کو چھوڑ کر ایک دوسر ے کو گالی دینے ، مذاق اڑانے اور بہار کو بدنام کرنے تک محدود ہے۔الیکشن جمہوریت کا ایک طریقہ ہے جس کے ذریعہ منتخب ہوکر آتے ہیں ان کی ذمہ داری عام لوگوں کی فلاح و بہبود ہوتی ہے اور جب ایک بار کوئی منتخب ہوکر آجاتا ہے تو وہ پورے علاقے کا اورملک کا نمائندہ ہوتا ہے۔ وہ کسی ذات پات، علاقے، کمیونٹی،مذہب اور نسل کا نمائندہ نہیں رہتابلکہ سب کی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن ہندوستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار اس طرح کھلم کھلا ہورہا ہے کہ آئینی عہدہ پر براجمان شخص پارٹی کی لائن اور آر ایس ایس کی گائڈ لائنز سے اوپر اٹھنے کو تیار نہیں ہے۔ جب وہ تقریر کرتا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ کسی گلی محلے میں لیڈر بول رہا ہو۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ آئینی عہدہ اسے کیا بولنے اور کیا نہ بولنے کی کتنی اجازت دیتا ہے۔ وہ بڑا اس لئے ہے کہ کیوں کہ آئینی عہدہ ان کے پاس ہے اور آئین کا احترام ہی اسے بڑا بناتا ہے ۔اگر اس بیچ سے آئین کو نکال دیں تو پھر اس کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ مگر یہی شخص آئین کا احترام نہیں کرتا۔ اشتعال انگیز بیان دینے میں غنڈے سے کم نہیں ہے۔ وہ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ جو آئین کے سراسر خلاف ہے اور وہ اس الزام میں نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسے جیل ہوسکتی ہے۔ ہندوستان میں آئین پر عمل بہت کم ہوتا ہے۔ شخصیت کے سامنے آئین کی حیثیت دو ٹکے کی رہ جاتی ہے۔ اس لئے اس طرح کے آئینی عہدے پر فائز افراد کھلم کھلا آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اگر یہاں کا الیکشن کمیشن ایمانداری سے کام کرتا تو اس طرح کا ماحول بہار میں نہیں ہوتا جس طرح کا خراب ماحول بنا ہوا ہے۔ 2014میں الیکشن کمیشن نے فسطائی طاقتوں کو کھلم کھلا چھوٹ دے دی تھی کہ وہ جس طرح چاہیں کریں۔ جو زبان چاہیں استعمال کریں ۔اس لئے اس دوران سنگیت سوم، امت شاہ اور دیگر مسلمانوں کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کرتے رہے اور یہاں تک بدلہ لینے کی بات بھی کہی ، کوئی مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی بات کرنے لگا۔ کوئی ووٹ کا حق چھین لینے کا نعرہ دیتا رہا۔ لیکن الیکشن کمیشن نے کچھ بھی نہیں کہا۔ اس طرح بنگال کے ایک بی جے پی لیڈر کی یہ بات سچ ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ الیکشن کمیشن تو ہماری جیب میں ہے۔ جس طرح چاہیں گے استعمال کریں گے وہ ہمارا ساتھ دیں گے۔ اس پر الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی وضاحت نظرسے نہیں گزری۔ لالو نتیش کے بیان پر فوراَ وارننگ جاری رکنے والا الیکشن کمیشن مودی اورامت کی تقریر پر بالکل خاموش ہے صرف رپورٹ کا انتظار کیا جارہا ہے جب کہ ہر جلسے جلوس میں الیکشن کمیشن کے نمائندہ موجود ہوتے ہیں جو ایک ایک بات نوٹ کرتے ہیں اور اس کی رپورٹ کمیشن کو دیتے ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم ووٹوں کی صف بندی کرتے ہوئے اور ہندوؤں اور دلتوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے ہوئے بکسر کی ریلی میں کہا تھاکہ آپ کا ریزریشن چھین کر دوسرے فرقے کے لوگوں کو نتیش لالو دے دیں گے مگر جب ہم تک زندہ ہیں وہ یسا نہیں ہونے دیں گے۔ اسی طرح چمپارن کی ایک ریلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر امت شاہ کہتے ہیں کہ اگر میں بہار میں نتیش لالو جیت گئے تو پٹنہ میں شہاب الدین خوش ہوں گے اور اس کی خوشی میں پاکستان میں پٹاخے پھوڑے جائیں گے۔ یہی وہی سوچا سمجھا منصوبہ ہے جسے گجرات میں ووٹوں کی صف بندی کرکے نریندرمودی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی اور بار بار میاں مشرف لفظ کا استعمال کیا تھا اور کہا تھا کہ گجرات میں اگر بی جے پی ہارے گی تو پاکستان میں پٹاخے پھوڑے جائیں گے۔ کیا بہار کے لوگوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں۔ کس کو نہ دیں کس لیڈر کو منتخب کریں۔ اگر مودی اور بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے تو وہ پاکستانی کہلائیں گے۔ اس طرح بی جے پی نے پورے بہار کے لوگوں کو گالی دی ہے اور ان کی حب الوطنی پر شک کیا ہے۔ اس سے پہلے نریندر مودی بہار والوں کے ڈی این اے کو خراب کہہ چکے ہیں۔ اس کا جواب بہار کے عوام بیلیٹ پیپر سے دیں گے اور یہ بتائیں گے کہ بہار کے لوگوں کو گالی دینے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ آج تک کسی وزیر اعظم نے بہاریوں کا اتنا مذاق نہیں اڑایا ہوگا۔ جس طرح نریندر مودی نے اڑایا ہے۔

اس انتخاب کو نریندر مودی نے لوک سبھا کے انتخاب سے بھی زیادہ سنجیدگی سے لیا ہے۔ اس لئے امت شاہ یا مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی کا یہ کہناکہ بہار کا انتخاب مودی حکومت کے خلاف کوئی رائے شماری نہیں ہے۔ مسٹر جیٹلی کو یہ کہنے سے پہلے یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کوئی وزیر اعظم اپنا کام دھندہ چھوڑ کر انتخابی ریلیوں کو اس طرح خطاب نہیں کرتا۔ مسٹر مودی کی میعاد کار کا جائزہ لیا جائے گا تو یہ بات سامنے آئے گی مسٹر مودی نے دو ہی کام کئے ہیں یا تو وہ بیرون ملک کے دورے پر رہے اور وہاں حکومتی کام کے بجائے ریلیوں کو زیادہ خطاب کیا یا وہ انتخابی ریلیوں سے خطاب کرتے رہے۔ اس لئے بہار کے اسمبلی انتخاب کو مودی کے خلاف عوامی رائے شماری تسلیم کیا جائے گا۔ یہ صحیح ہے کہ بہار کا اسمبلی انتخاب ملک کی حالت اور سمت کو طے کرے گا۔ یہ بھی طے کرے گا کہ یہ ملک سیکولر رہے گا یا فسطائیت کے علمبردار والوں کا ملک بن جائے گا۔ چاروں مرحلوں کے انتخابات حوصلہ افزا ہیں۔ سیکولر پارٹیوں کو ای وی ایم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ای وی ایم صحیح رہا تو نتیجے بھی اچھے آئیں گے اور بہار سے گالی گلوج کرنے والوں، نفرت پھیلانے والوں اور آگ اگلنے والوں کا صفایا ہوجائے گا۔اس کا اندازہ بی جے پی رہنماؤں کی بیان بازی سے بھی ہورہا ہے۔

گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے والا آر ایس ایس بہار انتخابات میں دو مرحلے کی پولنگ کے دوران کچھ کچھ خاص کردار میں نظر نہیں آیا۔ سنگھ پریوار کا کٹر ہندوتو کا ایجنڈا بہار میں فلاپ ہو گیا۔ یہاں کے ووٹروں نیآر ایس یس کے ہندوتوا خاص ترجیح نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی کی جلسوں کا اعلان کیا اور بعد میں انہیں کینسل کرنا پڑا۔ بی جے پی کے اعلی قیادت کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ریلیاں منعقد کرنے سے بڑا فائدہ ہونے کی جگہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔جہاں آر ایس ایس کا سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کی طرف سے کٹر ہندوتوا کے ایجنڈے کو اہمیت نہ دینا تھا وہیں بی جے پی کے اندرونی سروے نے بی جے پی لیڈروں کے چہروں پر خدشات کی لکیریں کھینچ دیں ۔ دیہی علاقوں میں عوام نے آر ایس ایس کے سخت گیر ہندوتوا کے ایجنڈے کو سرے سے خارج کر دیا وہیں شہری علاقوں میں مٹھی بھر لوگوں کے سہارے ہندوتو ا کے سہارے بی جے پی کی کامیابی ممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود آر ایس ایس نے ہمت نہیں ہاری ہے اور وہ لوگوں کے ذہن کو بدلنے کے لئے ہمہ جہت کوشش کر رہا ہے۔ بہار میں آخری مراحل کی ووٹنگ باقی ہے اور اب آر ایس ایس نے یہ طے کر لیا ہے کہ ووٹوں کی اپنی طرف موڑنے کے لئے ہندوتو کی حکمت عملی اپنانا چاہیے۔ انتخابات کے لئے ہزاروں آر ایس ایس ورکروں کے لیے اس مہم کے لئے گھر گھر بھیجے گی کہ اگر این ڈی اے کی شکست ہوتی ہے تو یہ ہندو خود داری کی شکست ہوگی اور اس سے ان کی حفاظت پر بھی سوال کھڑے ہوں گے۔ بی جے پی نے اسی حکمت عملی کے تحت پارٹی صدر امت شاہ نے ایک انتخابی ریلی میں یہ بیان دیا ہے کہ اگر بی جے پی بہار میں انتخابات ہارتی ہے تو پاکستان میں پٹاخے پھوڑے جائیں گے۔اسی طرحبکسر کی ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے نتیش کمار، لالو پرساد یادو اور کانگریس کے مہاگٹھبدھن (عظیم اتحاد) پر دلتوں، مہا دلتوں اور پسماندہ طبقات اورانتہائی پسماندہ طبقے کے حصے کا ریزرویشن کوٹہ کو کم کرنے کی سازش کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ان کا یہ سیدھا اشارہ مسلم ریزرویشن کے سلسلے میں کانگریس کے بیان کی طرف تھا۔ کانگریس پارٹی کے لیڈر نے مبینہ طور پر اس طرح کا بیان اتر پردیش میں دیا تھا۔بی جے پی اپنی نفرت انگیز تقریروں کا سلسلہ صرف انتخابی ریلیوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اشتہارات میں اسی طرحی کی اشتعال انگیزی دیکھی جارہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے بہار کے اخبارات میں اشتہارات دیا ہے جس میں 'لالو نتیش جواب دو، 25 سالوں کا حساب دو' کے عنوان سے پوچھا گیا ہے کہ دلتوں پسماندہ پلیٹ چھین کر اقلیتوں کو ریزرویشن دینے کی سازش کیا گڈ گورننس ہے؟ مودی نے کہا تھا پانچ فیصد ریزرویشن کاٹنے کی ہو رہی ہے سازش۔ وزیر اعظم مودی نے اپنی تقریر میں 'دوسرے کمیونٹی' کا ذکر کرکے اشارہ دیا تھا لیکن اب اس اشتہار کے ساتھ ہی یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ دوسرا کمیونٹی مسلمان ہے۔

دہلی میں الیکشن کمیشن نے بہار اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے دو اشتہارات پر پابندی لگا دی ۔ مہاگٹھبدھن نے بی جے پی پر ان اشتہارات کے ذریعے ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے اور مذہبی بنیاد پر ووٹروں کو بانٹنے کا الزام لگایا تھا۔الیکشن کمیشن نے ریاست کے چیف الیکشن افسر اجے نائیک کو حکم دیا ہے کہ وہ اس بات کی ضمانت دے کہ بی جے پی کا یہ دونوں اشتہارات ریاست میں انتخابات ختم ہونے تک کسی بھی اخبار یا میگزین میں نہ چھپے۔ کانگریسی لیڈر ردندیپ سرجیوالا اور جے ڈی یو لیڈر کے سی تیاگی نے دن میں چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی کے سامنے شکایت درج کرائی تھی کہ بہار میں اشتہارات کے ذریعے بی جے پی فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلا رہی ہے جس کا انتخابات پر برا اثر پڑا ہے۔ بی جے پی نے بہار میں 'لالو نتیش جواب دو، 25 سالوں کا حساب دو' کے عنوان سے اخباری اشتہارات کی ایک مہم چلا رکھی ہے۔ یہ اشتہارات ہر روز اخبارات میں آتے ہیں جن مختلف دن مختلف مسائل پر مہاگٹھبدھن کے رہنماؤں سے سوال پوچھے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے جن دو اشتہارات پر پابندی عائد کی ہے ان میں ایک اشتہار میں کہا گیا ہے کہ آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس کے لیڈر ایک خاص کمیونٹی کو خوش کرنے کے لئے دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں۔ دوسرے اشتہارات میں اس کمیونٹی کا نام کھل کر مسلمان بتایا گیا تھا۔

دراصل یہ بی جے پی کی بوکھلاہٹ ہے جو شکست کے خوف سے آپے سے باہر ہے۔اس کا ثبوت ہے مرکزی وزرائے اپنا کام کاج چھوڑ کر سیمانچل میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ایک ضلع تین تین ریلیاں کر رہے ہیں۔ پہلے تو انہوں نے مودی اور امت شاہ کے پوسٹروں سے پورے بہار کو پاٹ دیا لیکن پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد بی جے پی نے دونوں کے پوسٹر کو ہٹا مقامی لیڈروں کے بھی پوسٹر وں میں شامل کیا لیکن دوسرے مرحلے کی پولنگ بھی بی جے پی کے حق میں جاتی نظر نہ آنے کی وجہ سے بی جے پی کی بے چینی میں اضافہ ہوگیا ۔ اس کے بعد تو بی جے پی نے اشتعال انگیزی اور ہندوتوا کے کارڈ کو کھیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آر ایس ایس کے پوری طاقت جھونکنے کے باوجود بی جے پی کے حق میں فضا سازگار نہ ہونے سے بی جے پی میں مزید بوکھلاہٹ پیدا ہوگئی۔ پاکستان میں پٹاخے پھوڑے جانے اور دلتوں کے ریزرویش کاٹ کر مسلمانوں کو دینے جیسے بیان اسی عکاس ہے۔اس وقت بہار کے عوام پر زبردست ذمہ داری آن پڑی ہے۔ ان کو نہ صرف بہار کو بچانا ہے بلکہ ملک کو بھی بچانا ہے ۔ بی جے پی کی ان حرکتوں کی وجہ سے بیرون ملک ہندوستان کی بہت بدنامی ہورہی ہے۔ بہار کے عوام کو اسی بدنامی کو دھونا ہے۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 87171 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.