پنجاب اور سندھ کے بیس اضلاع میں
بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلا مکمل ہوگیا،منتائج حسب توقع رہے ، سندھ میں
پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ نواز فاتح رہیں کچھ مقامات سے مسلم لیگ
فنکشنل اور تحریک انصاف کے امیدواروں نے بھی میدان مارا ،لیکن ’’بلا‘‘ وہ
طاقت نہیں دکھا سکا جس کا بہت شور تھا، بہت ساری نشستوں پر آزاد امیدوار
بھی چئیرمین اور وائس چئیرمین منتخب ہوئے آزاد امیدواروں کی کامیابی مسلم
لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر پارٹیوں پر بھی عوام کے عدم اعتماد کا
اظہار ہے……پنجاب کی صورتحال دیکھی جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ بڑے شہروں
سمیت چھوٹے شہروں میں بھی مقابلہ نواز شریف VS نواز شریف تھا شائد مسلم لیگ
نواز کی قیادت نے ’’اس خیال سے پارٹی کے اند ر موجود دھڑے بندیوں کو ختم
کرنے کی جانب توجہ نہیں دی کہ انتخابات میں جو بھی جیتے گا وہ ہمارا ہی
ہوگا‘‘یہی وجہ ہے کہ رات کو انتخابی نتائج آنے اور اپنے سگے بھائی کی شکست
کے بعد وفاقی وزیرمملکت پانی و بجلی چودہری عابد شیر نے کہا’’ شیر جیتا ہے
یا بالٹی یا پھر ہیرا سب مسلم لیگی ہیں اور فاتح مسلم لیگ نواز ہی ہے……پیپلز
پارٹی نے تو پنجاب میں امیدوار ہی میدان میں نہیں اتارے اس لیے اسکی ہار
جیت کا تذکرہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا……ہاں اگر پیپلز پارٹی نے پنجاب بھر
میں اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہوتے اور وہ شکست کھا تے تو کہا جا سکتا
تھا کہ پنجاب سے پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا ہے، ہاں ایک بات ضرور تسلیم
کرنی ہقگی کہ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خاں اور انکی اہلیہ ریحام خان
کے درمیان ہونے والی علیہدگی کی ٹائمنگ صحیح نہیں تھی اس کے انتخابات میں
پی ٹی آئی کے حامی ووٹروں پر منفی اثرات مرتب ہوئے جس سے پی ٹی آئی کی
کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔
سندھ میں 12 افراد کی ہلاکت اور فیصل آباد میں ایک شخص کے زندگی سے ہاتھ
دھونے سے پاکستان کی تاریخ کے پہلے سیاسی اور جماعتی انتخابات پر انسانی
لہو کا رنگ چڑھ گیا ہے ،قصور،وہاڑی،گجرات، سمیت دیگر شہروں میں بھی تشدد کے
واقعات رونما ہوئے لیکن کسی انسانی زندگی کے تلف ہونے کی نوبت نہیں آئی ۔
بقول سکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب بھکر،گجرات،اوکاڑہ خیرپور،وہاڑی سمیت
متعد مقامات پر لڑائی مارکٹائی اور بد انتظامی کے اکادکا واقعات کے سوا
مجموعی طور پر صورتحال پرسکون رہی سندھ کی چھ اور پنجاب کی ……یونین کونسلز
کے انتخابات ملتوی کردئیے گئے ،اب ان حلقوں میں انتخابات انیس نومبر کو
ہونگے، ملتوی ہونے کی وجوہات میں بیلٹ پیپرز میں سنگین غلطیاں سرزد ہونا
بتائی گئیں ہیں…… الیکشن کمیشن نے بعض مقامات سے ملنے والی شکایات پر فوری
ایکشن لیا جس کے تحت اکاڑہ میں سابق وزیر اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر اشرف
سوہنا کو لوگوں کو بلوے پر اکسانے کے الزام میں مقدمہ درج کرکے انہیں پابند
سلاسل کردیا ہے، سندھ میں وزیر اعلی قائم علی شاہ کی قریبی عزیزہ کو جعلی
ووٹ ڈالنے یا ڈلوانے پر رینجرز کے حوالے کردیا گیا ۔
سندھ کے ضلع خیرپور کے علاقے رانی پور کے ایک پولنگ اسٹیشن پر پیپلز پارٹی
اور مسلم لیگ فنکشنل کے کارکنوں کے درمیان مسلح جھگڑے کے باعث بارہ افراد
جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔ ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کی اینکر کے مطابق عینی
شاہدین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ کے بیٹے کارکنوں کے ہمراہ
آئے اور انہوں نے پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے کی کوشش کی جس پر پیپلز پارٹی
کے ورکروں نے انہیں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جس پر جھگڑا شروع ہو ہوا
اور پیپلز پارٹی کی جانب سے فائرنگ کی ابتدا ہوگئی……جبکہ سندھ کے وزیر
اطلاعات و نشریات نثار کھوڑو کا کہنا ہے کہ رانی پور میں قتل ہونے والوں کا
تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔نثار کھوڑو نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ مقتلین کے
ورثا کو انصاف فراہم کیا جائیگا انہوں نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ قاتلوں کا
پتا لگالیا گیا ہے۔
ان انتخابات میں دونوں صوبوں سے الیکشن کمیشن کو اس کے قائم کردہ کنٹرول
روم میں 150 سے زائد شکایات موصول ہوئیں،پنجاب کے 12ا ضلاع سے 52 جبکہ سندھ
کے آٹھ اضلاع سے 100 سے زائد شکایات کی گئیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے
حکام کا دوی تو یہ ہے کہ ان شکایات کے ازالہ کے لیے فوری احکامات جاری کیے
گئے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نامی ادارہ کس قدر با
اختیار ہے ، اور اسکی خود مختاری کہاں تک ہے اور یہ آئین پاکستان کے تحت
ملنے والی آزادی کو استعمال کرنے میں کہاں تک آزاد ہے، اطلاعات کے مطابق
دونوں صوبوں میں سونوں برسراقتدار جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی
کے ارکان نے الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق،قانون کی دھجیاں بکھیرنے کے ساتھ
ساتھ اخلاقی اقدار کا بھی جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکالنے کا اہتمام کیا ،
کسی نے کسی قسم کی شرم و حیا نہیں کیا بلکہ پوری شدو مد اور بے شرمی و
ڈھٹائی کے ساتھ جس کا جتنا زور چلا اس نے موری ممبر منتخب ہونے کے لیے زور
استعمال کیا۔
کہنے کو تو الیکشن کمیشن نے اعلان کر رکھا تھا کہ الیکشن والے بیس اضلاع
میں ہر قسم کا اسلحہ چاہے وہ قانونی ہے یا غیر قانونی ،لے کر چلنے پر
پابندی ہے،لیکن لوگوں نے سورج کی روشنی میں دیکھا کہ با اثر لوگوں کے باڈی
گارڈ اور حواری سرعام جدید ترین اسلحہ لہراتے گھوم پھر رہے ہیں حتی کہ
پنجاب کے سابق گورنر جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اعلی درجہ کے قانون
پسند شخص ہیں کیونکہ انکی ساری زندگی برطانیہ میں گزری ہے اور برطانوی
انتہائی قانون کا احترام کرنے والے ہوتے ہیں،کے محافظ سے اسلحہ برآمد ہوا
ہے ،چودہری محمد سرور کوئی ان پڑھ تو ہیں نہیں اوپر سے وہ گورنر پنجاب کے
عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور اس حوالے سے انہیں قانون قاعدے کی پابندی سے
متعلق بہت زیادہ معلومات ہو سکتی ہیں……اگر اس سطح کی شخصیت اسلحہ لیکر چلے
گی اور قانون کا تمسخر اڑائے گی تو باقی غنڈوں کو کون روک سکے گا……؟؟؟؟ یہ
سوال جواب طلب رہے گا اس وقت تک جب تک خیرپور کے گاؤ ں رانی میں قتل ہونے
والے بارہ افراد کے ورثا کو انصاف نہیں مل جاتا…… کیا ہم کبھی قانون پسند
بن پائیں گے؟ کیا دو سال بعد آنے والے انتخابات کے لیے ان انتخابات سے کوئی
سبق حاصل کیا جائیگا یا یوں ہی موج مستی میں وقت گزار دیں گے؟ کیا ہم
پاکستانی کبھی مہذب قوم بن پائیں گے ؟کیا ہم ذمہ دار شہری بن سکیں گے؟ اس
سوال کا جواب دوہزار اٹھارہ میں آنے والے انتخابات میں مل جائے گا …… مجھے
لگتا ہے کہ ہم غلام قوم ہیں اور غلام کبھی آزادی برداشت نہیں کرپاتے ،انکے
لیے مہذب قوم کی طرح زندگی بسر کرنا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔
انور عباس انور |