انکا اسکول سسٹم لاہور کے
پوش علاقے میں تھا ، چہرے سے بردبار مسز ہمایوں کسی زمانے میں یقینا '' بے
حد حسین خاتون رہی ہونگی .تعلیم بھی بے مثال تھی اور اسکولوں کے لمبے چوڑے
سسٹم کا نظم ونسق بھی کامیابی سےچلا رہی تھیں اکثر اسکول اوقات کے بعد بھی
اسٹاف رومز ، خالی کلاسوں اور اسمبلی ہال کے چکر لگا کر تسلی کرتیں کہ دن
کا انجام بہترین رہا یا کوئی سقم رہ گیا ہے، بیوہ تھیں اور ایک اکلوتے بیٹے
کی والدہ بورڈ آف ڈاریکٹرز کی میٹنگ میں انکے صاحبزادے رضا ہمایوں سے ملنے
کا اتفاق ہوا صورت میں تو والدہ کےہم پلہ نہ تھے مگر طمطراق وہی تھا عمر
شاید ٣٥ کے لگ بھگ تھی والدہ کے ساتھ اسکولوں کا نظم ؤ نسق سنبھالتے تھے
تعلیم یافتہ تھے اور بات کرنے میں رعب دار تھے ہاں لفظوں کا استعمال بتا
رہا تھا کہ تلخ کلامی کو برا نہیں جانتے -
یہ میری اسکول کی پرنسپل اور انکے بیٹے کے بارے میں پہلی راۓ تھی جو کچھ
اتنی غلط بھی نہ تھی آپ اپنی پروفیشنل زندگی میں اکثر یہی کچھ باتیں نوٹ
کرتے ہیں ظاہر ہے اس سے زیادہ کی آپکو ضرورت بھی نہیں پڑتی .دو تین ماہ بعد
اسٹاف روم میں ھی سنی سنائی یہ تھی کہ صاحبزادے اپنے اکلوتے ہونے کا فایدہ
گھر میں اٹھاتے ہیں اور اسکولوں کا ایڈمنسٹریٹر ہونے کا گھر سے باہر ! کچھ
لیڈی ٹیچرز نے مذاقا '' ، کچھ نے شرما کر اور کچھ نے ناراضگی سے محترم کا
ذکر ایک دوسرے سے کیا مگر کسی نے بھی ان باتوں کو اہمیت نہ دی ، کیوں ؟
شاید اس لیے کہ کسی بھی کہانی کو رضا ہمایوں نے کبھی طول نہیں دیا اور
خواتین ٹیچرز کی بھی شاید اپنی کچھ مجبوریاں تھیں-
پھر ایک روز یہ خبر بھی ہم تک پہنچی کہ مسز ہمایوں پچھلے کئی ماہ سے رضا
ہمایوں کے لیے لڑکی کی تلاش میں ہیں اور ہمیشہ کی طرح مشرقی ماؤں والا سین
ہے یعنی موصوفہ "چاند کا ٹکڑ ا " اپنے گھر لانا چاہتی ہیں .حسین وجمیل لڑکی
کا خاندان بھی اونچا اور امیر ؤ کبیر ہو ، تعلیم بھی کمال کی ہو کہتی تھیں
کہ شوہر کی وفات کے بعد ایک لمبے عرصے سے گھر سنسان ہے لحاظہ یقینی طور پر
"شوخ ؤ چنچل " بہو چاہیے مگر شرافت میں یکتا ہو اور میرے بیٹے کے دل میں
فورا ھی گھر کر جانے والی عادتیں ہوں
یہ ساری خصوصیات ایک ھی لڑکی میں ؟؟ اکثر ٹیچرز انکی خیالی بہو پر انکے
لیکچرز سن کر زیر لب مسکرا دیتی تھیں مگر پھر ایک روز یہ خوشخبری بھی اسٹاف
روم تک پہنچ گئی کہ محترمہ کو اپنی "خوآبوں کی رانی " مل گئی ہے اور سواۓ
ایک کمی کے باقی سب خصو صیا ت آنے والی دلہن میں موجود ہیں .اور وہ کمی بھی
کچھ ایسی بڑی نہ تھی یعنی انکے والد کا کم پڑھا لکھا ہونا ! یہ کسر بے
انتہا دولت نے یوں بھی پوری کر دی تھی -
اسماء کے بارے میں پتہ چلا کہ موصوفہ کسی آسمانی حور سے کم نہیں، تعلیم بھی
اچھی ہے ، اکلوتی اور لاڈلی ہیں امیر اور خاندانی ہیں ہاں والدہ کی کمی ہے
جسکو مسز ہمایوں پورا کرنے کی کوشش کرنے کا وعدہ کر کے بات پکی کر آئیں اور
اسٹاف روم میں مٹھائی کا دور بھی چلتا رہا اور کچھ ٹیچرز کی ناراض
بھنبھناہٹ بھی آتی رہی جس نے چاۓ کی گرمی کو دو چند کر دیا تھا قصہ مختصر
کہ چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق اسماء اوررضا ہمایوں کی شادی خانہ آبادی بے
خیر وخوبی انجام پائی اور ہم نے اسماء کے بارے میں جو سنا تھا اس سے بہت
بڑھ کر محترمہ کو پایا . حسین ترین تھیں اوران میں تمیز و تھذیب بھی اچھی
خاصی مقدار میں پائی جاتی تھی.پرنسپل صاحبہ کے بیٹے اور اسماء کی جوڑی کو
دیکھ کر یہ یقین کرنے کو دل چاہا کہ "جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں " اگر زمین
پر بنتے تو اتنے بے جوڑ نہ ہوتے -
شادی کے بعد ایک دو ہفتے کے لیے مسز ہمایوں اپنی بہو کے حسن و ادا اور خوش
ا خلاقی کے گن گاتی رہیں مگر کبھی کبھی طنز ''بہو کی ذات ،اسکے لاڈلے اور
اکلوتے ہونے پر تیر چلا جاتیں ٹیچرز انکی باتوں کو "ایک ساس" کا روایتی روپ
سمجھ کر ٹال جاتیں .ایک ڈیڑھ مہینے بعد ٹیچرزکا ایک گروپ کسی ضروری کیمپین
کے لیے چھٹی کے دن مسز ہمایوں کے بنگلے پر پہنچا انہوں نے ہمارا استقبال
کیا اور ملازمہ کوکہہ کر بہو کو بلوایا مگر باتیں اور چاۓ ختم ہوگئیں بہو
صاحبہ تشریف نہ لائیں .مسز ہمایوں نے تیسری بار ملازمہ کو آواز دی اور کہا
باجی کو کہو مہمانوں کو آکر سلام کریں یہ جانے والے ہیں جس پر مزید بیس منٹ
کے بعد اسماء کمرے میں داخل ہوئیں سادہ سے لباس میں ملبوس اور گھونگٹ نکالے
ہوئے اس نے بہت ھی دبی ہوئی آواز میں ہمیں آسلام علیکم کہا !ہم نے سلام کا
جواب تو دیا مگر آج کی اسماء میں اور شادی کے روز جس اسماء کو ہم سب ملے
تھے اس میں زمین آسمان کا فرق تھا خاص طور پر اسکےاعتماد
.میں خاصی کمی واقع ہوچکی تھی -
کیسی ہیں آپ ، سارا دن کیا مصروفیات رہتی ہیں ؟ ہماری کولیگ نے ماحول کو
"زندہ "کرنے کی کوشش کی جوکافی خاموش محسوس ہورہا تھا اسماء کی مری مری سی
آواز نکلی" بس ایسے ھی دن گزر جاتا ہے" اس تمام عرصے میں وہ گھونگھٹ نکال
کر بیٹھی رہی مسز ہمایوں کے چہرے پر البتہ کوئی ایسی نشانی نہ تھی کہ پتہ
چل سکے ماجرا کیا ہے نہ وہ خاص پریشان تھیں نہ ھی خوش -
البتہ اسماء کے چہرے پر سے گھونگٹ کچھ لمحوں کے لیے سرکا تو کافی گہرا نیل
تھا جو ہم میں سے کچھ نے دیکھ لیا وہاں تو بات کرنا ناممکن تھا مگر واپسی
میں ہم آپس میں اس بات پر بہت رنجیدہ رہے کہ اتنی اچھی،پڑھی لکھی خوبصورت
اور امیر خاندان کی بہو لانے کے باوجود مسز ہمایوں اسماء کو وہ مقام نہیں
دے سکیں جو اسکا حق تھا ساتھ ھی ساتھ ہمیں اس بات پر کافی حیرت تھی کہ انکے
پڑھے لکھے بیٹے نے ایسی حرکت کیوں کی -
خیر کچھ دن میں یہ کہانی بھی کھل کر سامنے آگئی جب ایک سینئیر ٹیچر نے مسز
ہمایوں سے کرید کرید کر پوچھ ھی لیا کہ ماجرا کیا تھا اور یہ سن کر سب کو
ھی دکھ ، افسوس ، رنج اور حیرت بھی ہوئی کہ اپنی حسین بیوی پر ہاتھ اٹھانے
والا رضا ہمایوں تھا تو اسکو اس قبیح کام پر مجبور کرنے والی اسکی " پڑھی
لکھی "نام نہاد "ورکنگ وومن " والدہ صاحبہ تھیں جن کے خیال میں اسماء کا
حسن و جمال ، رضا اور اسکے مستقبل کے لیے خطرہ بن سکتا تھا اور اپنی
مردانگی کو منوانے کے لیے اسماء پر ہاتھ اٹھا نا اور اکثر اٹھا نا ضروری
تھا .بقول پرنسپل صاحبہ انکے مرحوم شوہر نے بھی مسز ہمایوں کے حسن کی اسی
طرح " چوکیداری " کی تھی اور اچھی بری نظروں سے اپنی منکوحہ کو بچا نے کے
لیے اسکے حسین چہرے کو بیدردی سے نیلا کر نے کا "خاندانی " ٹوٹکا استعمال
کیا تھا اور اب محترمہ اور انکے نالایق صاحبزادے بھی یہی ٹوٹکا استعمال میں
لارہے ہیں -
ہوسکتا ہے اسماء نے کچھ عرصے بعد علم بغاوت اٹھا لیا ہو اور مسز ہمایوں
پارٹ ٹو بننے سے انکار کر دیا ہو مگر ہر دو صورتوں میں دکھ اور تکالیف
اسماء جیسی باوقاراور خاندانی لڑکی کو ھی اٹھانی پڑی ہوگی -
آ پ سوچیں کہ ہم نے اپنے معاشرے کو کس قدر جہالت پر قائم رکھا ہوا ہے یعنی
جس معاشرے کے پڑھے لکهے ،اسکول کالجز چلانے والے اسطرح کی گھٹیا اور
مجرمانہ سوچ رکھتے ہونگے وہ بچوں ، بچیوں کو کیا تعلیم ؤ تربیت دیتے ہونگے
؟ غیر محفوظ ، شکی ، بیمار ذہن کے اذیت پسند مرد کسی معاشرے کے مفید فرد
کیسے بن سکتے ہیں ؟ خوفزدہ اور بزدل عورتیں کیسی اولاد پروان چڑھائیں گی ؟
ایک اور رضا ہمایوں اور ایک اور مسز ہمایوں ؟؟
آنے والی نسلیں ہمارے بوسیدہ دماغوں پر صرف افسوس کریں گی وہ ہمارے متعلق
یہی سوال کریں گی کہ کیا ہم وہی گدھے تھے جن کا ذکر خالق حقیقی نے قران میں
کیا جو کتابیں اٹھاتے ہیں مگر کتابوں کو سمجھتے نہیں- |