سیاست دانوں کا لنڈا بازار عوام کے مسائل حل کرپائے گا یا نہیں

 بلدیاتی انتخابات !

بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا پنجاب میں878 نشستیں ن لیگ کوجبکہ سندھ میں654 نشستیں پی پی پی کو ملی ہیں اس طرح ان جماعتوں کو روایتی برتری حاصل کرلی ہے لیکن آزاد امیدواروں نے ان دونوں صوبوں میں سرکاری امیدواروں کا خوب تعاقب کیا ہے پنجاب سے 753 جبکہ سندھ سے130 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ،عہدہ طلبی ،مال ودولت سمیٹنے کی حوس میں ڈوبے کامیاب امیدوار سہانے خوب دلوں میں سجائے جشن منا رہے ہیں ،آزاد امیدواروں کا دوسرے نمبر پر آنا حکومتوں کیلئے پریشانی کا باعث بن رہا ہے آزاد کامیاب امیدواروں کو کنٹرول کرنے کیلئے کمیٹیاں بن گئی ہیں پنجاب سے میاں حمزہ شہباز شریف ن لیگ کی طرف سے آزاد لوگوں کا قابو میں کرنے کیلئے میدان میں آگئے ہیں۔آزاد امیدواروں کی اکثریت متعلقہ صوبے کی گورنمنٹ کے ساتھ ہی منسلک ہوگی کیونکہ انہوں نے اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کروانے ہیں اگر وہ اینٹی گورنمنٹ چلیں گے تو ترقیاتی فنڈز روکے جاسکتے ہیں انھیں اپنے حلقوں کو چلانے کیلئے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی وہ آزاد امیدوار جو شکست سے دوچار ہو گئے ہیں وہ بھی ایک بڑی تعداد میں ہیں جو اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنانے کیلئے اپنی سابقہ پارٹیوں میں جانے کی بجائے مدمقابل پارٹیوں میں اپنی جگہ بنانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں شکست سے دوچار امیدوار وں کو مدمقابل جماعتوں کا رخ کرنا دونوں صوبوں کی حکمران جماعتوں کیلئے نقصان خطرے کی گھنٹی ہوگی اسلئے کہ اگر یہ ووٹ بنک دوسری مدمقابل جماعتوں میں جائے گا تو2018 کے انتخابات میں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ جیت کیلئے مارجن انتہائی کم رہ گیا ہے شکست خوردہ آزاد امیدوارکے ووٹس اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ وہ عام انتخابات میں اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی کو خاطر خواہ کامیابی تو نہیں مل سکی ،توقع سے برعکس نتیجے کے بعد عمران خان تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی بھی لا سکتے ہیں پی ٹی آئی کے گراف میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے لوگوں کو جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہو سکیں روایتی جیتنے والی جماعتوں کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ اب وہ مخالفت برائے مخالفت میں اپنا وقت ضائع نہ کریں بلکہ جو الیکشن میں وعدے کئے انھیں پورا کریں دیکھنے میں آرہا ہے کہ جیتنے اور ہارنے والوں میں جنگی کیفیت اب بھی موجود ہے ناخوش گوار واقعات ہورہے ہیں ایسی انتقامی سیاست نے پہلے ہی ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے اب بھی اگر اسے ہی دہرایا گیا تو مزید انحطاط ہوگا ۔کامیاب چیئرمینز،وائس چیئرمینز اور کونسلرز اپنی ذمہ ادریوں کا احساس کریں عوام کے کام خدمت سمجھ کر کریں ترقیاتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ترقیاتی کاموں کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم نہیں ہونا چاہیے ماضی میں ایسا ہوا کہ ایک گلی پانچ سے دس بار کاغذات میں تعمیر ہوگئی مگر حقیقت میں صرف ایک بار تعمیر ہوئی بقیہ قوم کا پیسہ ہڑپ کرلیا گیا ۔پیدائشی پرچیوں،ڈیتھ سرٹیفکیٹس اورنکاح ناموں کے حصول کی مد میں یوسی ،لوکل گورنمنٹ ذمہ داروں نے جس طرح ماضی میں لوٹ مار کی اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی ۔عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے والی جماعتوں کے امیدوار ایک بار پھر کامیاب ہوکر مقامی حکومتوں کی بھاگ ڈور سنبھال چکے ہیں کیا اب حکومت سابقہ طرز کی کرپشن کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے گی یا اس کا حصہ بن کرخاموش تماشائی کی صورت میں اپنا حصہ وصول کرتی رہے گی ۔مقامی سطح پر مسائل کا ایک انبار لگا ہو اہے اسے حل کرنے میں کیا کیا جائے گا قبل ازوقت کچھ بھی کہنا مناسب نہیں ہوگا مگر یہاں جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ کرپشن کو روکا جائے چیک اینڈ بیلنس کا نظام رائج کیا جائے ،دودھ کی رکھوالی پر بلیوں کو نہ بیٹھایا جائے ۔اگر مقامی حکومت کی کرپشن کو گورنمنٹ نے نہ روکا توہ جماعتیں عوام کا اعتماد کھو بیٹھیں گی ۔

سوال یہ ہے کہ عوام نے بلدیاتی انتخابات میں گورنمنٹ کی ہی حمایت کیوں کی ؟ پی ٹی آئی اور دیگر مدمقابل جماعتوں کو کامیابی کیوں نہ ملی ؟اس کی وجہ جھولرلو کے علاوہ یہ بھی ہے کہ لوگ حکومت سے اپنے کام کروانے کی امید رکھتے ہیں ایک رحجان کے ساتھ حقیقت ہے کہ مقامی حکومتیں گورنمنٹ کی مرہون منت ہوتی ہیں اگر لوکل گورنمنٹ حکومت مخالف ہوتو ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔گورنمنٹ کو ایسا رویہ اب ترک کردینا چاہیے مساوات پر مبنی فنڈز یونین کونسل کی سطح پر جاری ہونے چاہیں لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ حکومت ہر حال میں اپنے مخالف کو زیر کرنا چاہتی ہے تاکہ آئندہ وہ کامیاب نہ ہونے پائیں جو بھی نئی پارٹی سر اٹھاتی ہے اسے کمزور کرنا ارباب اقتدار کا مشن ہوتا ہے یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ مال ودولت وسائل کی بنیاد پر کامیاب ہو جاؤ اور بعد میں اپنے سیاسی مخالفین کیلئے جگہ تنگ کردو۔اس طرز عمل کے باعث انسانی جانوں کا اس قدر نقصان ہوا کہ ناقابل بیان ہے ۔شائد جمہوریت کا حسن یہ بھی ہے کہ مال ودولت کے حاملین کو پروموٹ کرو اگر کوئی متوسط طبقہ کامیاب ہوتا ہے تو اس کا اس طرح پیچھا کرو کہ وہ دوبارہ جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھنے کانام ہی نہ لے ۔پاکستان میں بہت سی جماعتیں قائم ہوئیں بااثر،طاقت ور،اقتدار کے داؤپیچ کو خوب سمجھنے والے جمہوری سیاسی بازی گروں نے انھیں کامیاب نہ ہونے دیا کیونکہ وہ جذبہ ٔ خدمت خلق کے تحت وجود میں آئی تھیں ان کا مقصد پیسہ اکٹھا کرنا نہیں تھا سیاست کے نام کر کاروبار کرنے والوں نے انھیں کامیاب نہیں ہونے دیا ۔ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہر آنے والا الیکشن عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل ،مہنگائی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے لوگوں کی زندگیاں اجیرن سے اجیرن تر ہوتی جارہی ہیں نصف سے زائد طبقہ ووٹ اس لئے نہیں ڈالتا کہ وہ ان سیاسی بازی گروں کی حرکتوں سے نالاں ،اسے چوروں،ڈاکوؤں،غیر مسلموں کا نظام سیا ست سمجھتا ہے وہ یہ خیال کرتا ہے کہ موجودہ حالت کے ذمہ دار جمہوری سیاست دان اور ووٹ ڈالنے والے ہیں اگر یہ خیال،نظریہ غلط ہے تو سیاست دانوں کو اپنا مثبت پہلو ظاہر کرنا ہوگا لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ الیکشن میں حصہ لینے والے عہدہ طلب کرتے ہیں اسلام عہدہ مانگنے والوں کو عہدہ نہیں دیتا ،اقتدار ،حکومت عہدے سے بڑھ کر ایک بڑی نازک ترین ذمہ داری ہے اسلام کے نظام عدل خلافت میں ہر عہدہ ذمہ داری تصور کیا جاتا ہے لیکن یہاں صرف عہدہ اور عہدہ بھی لوٹ،کھسوٹ کیلئے تو مسائل میں اضافہ ہی ہوگا لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو ں گی۔ہمیں بلدیاتی انتخابات کے بعد بھی مسائل حل ہوتے نظر نہیں آرہے کیونکہ یہ نظام اسلام کا طرز سیاست نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ بلدیاتی نظام سیدنا فاروق اعظم ؓ نے جاری کیا وہ سفید جھوٹ بول رہے ہیں انھیں اﷲ کے حضور معافی مانگنی چاہیے وجہ یہ ہے کہ سیدنا فاروق اعظم ؓ کے عہد میں خلافت تھی جمہوریت نہیں دوسرا نظام خلافت نے لوگوں کو سہولتیں دیں یہاں سہولتوں سے محروم لوگ تڑپ رہے ہیں خلافت میں خلیفہ کا اعلان ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مرگیا تو اس سے پوچھا جائے گا مگر آج تو لوگ بھوک کی وجہ سے خو کشیاں کر رہے ہیں ،اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں ،دو وقت کی روٹی کیلئے گناہ کبیرہ ہورہے ہیں۔کیا کچھ نہیں ہو رہا یہاں یہی کہہ سکتے ہیں کہ بس جمہوریت کے نام پرسیاست دانوں کا ایک لنڈا بازار لگا ہوا ہے جسے عوام سے کوئی سروکار نہیں۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245753 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.