حقائق کا سورج مگر زیر پردہ
وزیراعظم ہندنریندرمودی بہارکے تھکادینے والے انتخابی شیڈول کے خاتمے
پرکشمیرجارہے ہیں ۔ ان کا یہ دورہ کشمیر سیر سپاٹے کے لئے ہے ؟ اپناجی
ہلکان کر نے کے لئے ہے؟ یا مشن پلس کے لئے ہواکارخ تاڑنے کیلئے ہے، یہ توان
کے نہاں خانہ ٔدل کوفی الوقت پتہ ہے مگرآثاروقرائین بتا رہے ہیں کہ جونہی
وہ کشمیرمیں قدم رنجہ ہوں گے،انہیں اسی زبان میں عادتا ًبات کرناہوگی
جوکشمیر آنے والے ہربھارتی وزیراعظم نے کی یعنی زمین جنبد نہ جنبد گل محمد
کے مصداق کشمیر مسئلے کونظرانداز کرتے ہوئے انہی الفاط کونئے مطالب پہنا
کرسناناہوں گے جو کشمیریوں کی خواہشات کے عین ضد میں ہوں ۔ ممکن ہے کہ وہ
سیلاب زدگان کے اونٹ والے منہ میں زیرے کے دانے بھی ڈالیں جیسے پی ڈی پی
امیداوریقین کررہی ہے مگروہ کشمیرحل کے لئے بدلاؤکی کسی نیتی کا ڈپلو میٹک
اعلان کریں جیسے کسی زمانہ میں اٹل بہاری باجپائی نے ’’موسینگز‘‘ لکھ کر
کیا،یہ سوچنابھی محال وجنوں ہے۔
اصولی طوردنیامیں تغیروتبدل کاسلسلہ قانونِ قدرت کے مطابق ہمیشہ جاری وساری
رہتاہے۔ سیانے لوگ اسی تغیر کو زمانہ ، دہر یا عصرکا نام دیتے ہیں۔ یہ
ہمارے روز مرہ ،مشاہدے کا ایک جزو لاینفک ہے کہ پانی ٹھہرجائے توجوہڑ بن
جاتاہے، جب کہ چلتا بہتاپانی ہی صاف اور شفاف ہوتاہے۔ سیاست ٹھہرے ہوئے
پانی کانہیں بلکہ اس کی روانی اور مسلسل بہاؤکا نام ہے۔ ہاں ،اس کے
بندمضبوط ہونے چاہئیں،ورنہ طالع آزما اور خودغرض سیاست کاراسے بندکرنے میں
کسی قسم کی مروت کامظاہرہ نہیں کریں گے... سچ یہ ہے کہ دنیائے سیاست میں
اوپرکی سطح پرتبدیلیاں ہی تبدیلیاں ہیں لیکن نیچے؟ کیا؟؟؟اب بھی وہی ہم اور
وہی غم ہوں گے؟ سیاست میں چہرے بدلنے سے کبھی مقدر نہیں بدلتے۔تبدیلی کاعمل
جب تک نچلی سطح تک نہیں جائے گا،عوام کے احساسات وجذبات اسی طرح سلگتے رہیں
گے۔مہنگائی کے ایشو پرانہیں ڈرائیں اوردوڑائیں نہ،وہ توپہلے ہی بہت ڈرے
ہوئے اورتھکے ہوئے ہیں۔ نامساعدحالات وواقعات کی چکی نے انہیں اس قدر ٹچی
بنادیاہے کہ سوئی کی آواز بھی انہیں کسی دھماکے سے کم نہیں لگتی۔ اس کے لئے
موجودہ سرکار عوام کے لئے کاروبار کرنا ہوگا پھرکہیں جاکر ان کابازار چلے
گا۔
ان کی مسکراہٹ سے کسی خوش فہمی میں مبتلانہ ہوجائیں۔ مسکراتے ہوئے چہروں کے
دل بہت اداس ہوتے ہیں،ان کے توخواب بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔ پی ڈی پی
کی صفوں میں ہررات کوشب برأت سمجھنے والوں کو یادوں کی بارات کاکیاپتہ
،انہیں اس کاپہلے سے اندازہ ہوجائے تو وہ آنکھ بند کرنے سے ہی توبہ کرلیں۔
بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوتی ہیں مگر ان کے ضمیر سورہے ہوتے ہیں۔
ایسا بھی ہوتاہے کہ آنکھیں ہمیشہ کے لئے بندہوجاتی ہیں مگران کی تعبیرجاگتی
رہتی ہے۔ اسی طرح سیاست کے مارے بہت سے خواتین وحضرات کوآنکھوں کی چہل قدمی
کابڑا شوق ہوتاہے، انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ آنکھیں بھٹک جائیں
یاکہیں اٹک جائیں۔اسی شوق چشم میں وہ بہت سے روگ بھی لگاجاتے ہیں۔ دوسروں
کے گھروں میں نظراندازی کرنے والوں کو اپنی چادروچاردیواری کے اندربھی
دیکھنا چاہئے کہ اس تاک جھانک سے دل پر کیا گزرتی ہے۔ من کاویسے بھی دھن سے
کیا رشتہ ہے، اسی لئے کہتے ہیں کہ دل نہ بھریں، یہ بھرگیا توبہت سے سیلاب
جسم کوڈبودیں گے۔ سیاست میں یہی سیلاب، سونامی بن جاتے ہیں۔
اپنے بہت سا رے سیاستدان چاہے وہ این سی کے ہوں یا پی ڈی پی کے، سچ یہ ہے
کہ وہ اقتدارکے بغیر نہیں رہ سکتے اور دلی کا تام جھام بھی ان کے بغیر بجھا
بجھا رہے گا۔ ہماری بربادی میں ان لوگوں کی آبادی کاسب سے بڑا ہاتھ ہے
۔کہاجارہاہے کہ جموں اورکشمیر کے زمینی حالات کے کسی نئے طوفان کوہوا دے
رہے ہیں۔ اس لئے آر پار جب تک سمجھوتے دل سے نہیں ہوں گے، اس کے لئے چاہے
جتنے مرضی الفاظ جمع کرلیں، کاغذ کو را ہی رہے گا۔ لوگ تویہ بھی کہتے ہیں
کہ محبت صرف ایک بارہوتی ہے اوراس کے بعد سمجھوتے ہی چلتے ہیں جیسے پی ڈی
پی اپنے سیاسی حلیف بھاجپا سے آنکھ بند کر کے ہر موڑ پر کر تی جارہی ہے اور
جب تک بے وفا کرسی کا طوق اس کی گردن میں ہے، اسے ہرزخم کوبنا مرہم کے
چھوڑنا پڑے گا، ہر ظلم کا خاموشی سے ساتھ دینا ہوگا، ہر امن شکنی کو برداشت
کر نا ہوگا اور گولی کے بدلے بولی کے ہر نعرے کا خود مذاق اڑا نا ہوگا
۔٧نومبر کو مودیہ جی کے دورے کا لب لباب بھی یہی ہے اور مفتی صاحب کو جہاں
داری تونبھانی ہی پڑے گی،جس میں ہارجیت چلتی رہتی ہے۔ تاہم جیتنے والوں
کویہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قوم دکھوں سے ہاررہی ہے اورتکالیف کی مارسہہ
رہی ہے۔ہمارے یہاں توزندہ لوگوں کاحساب نہیں لیاجاتا،ہمارے مرے ہوئے کس
کھاتے میں آئیں گے!
امیر شہر غریبوں کا خیال کیا کرتا
امیر شہر کی اپنی ضرورتیں تھیں بہت
جب سیاست کارصرف اپنی نجی ضرورتوں اور خواہشوں کے صنم خانے کے تقاضے
پوراکرنے کے لئے آنکھ بند کرکے فیصلے کریں تولوگوں کاری ایکشن بھی وقت
پراسی طرح کاسخت ہونا طے ہے۔فیصلے توسیاسی تاریخ میں کچھ اس قسم کے رقم بھی
ہوئے ہیں۔پتہ نہیں پی ڈی پی نے بھاجپا سے ہاتھ ملاکر کون سے پتے کھیلنے کا
بھرم ذہن میں رکھا کہ آج کی تاریخ میں مفتی صاحب یہ گنگناتے پھر تے ہیں!
تمہیں ملنے سے بہترہوگیاہوں
میں صحرا تھا سمندر ہوگیا ہوں
مگر تلخ سچ یہ ہے وہ سمندرنہیں بلکہ قطرے بنے جارہے ہیں۔وزیراعظم ہند
٧نومبرکوکشمیرمیں مفتی سرکارکی دعوت پراپنے انتہائی مختصردورے میں کشمیرکے
لئے نرمل سنگھ کی زبان میں امن کا پیغام لارہے ہیں یا حسیب درابو کے الفاظ
میں ترقیاتی پیکج کا اعلان کررہے ہیں ۔ وقت ہی بتائے گا کہ اصل حقیقت کیا
ہے ۔ مودی کے مجوزہ جلسے کیلئے پی ڈی پی ضرورت سے زیادہ سرگرم بتائی جارہی
ہے ۔اس سیاسی شو کے جواب میں حریت چیئر مین بزرگ رہنما سیدعلی گیلانی نے
احتجاجاً ملین مارچ کا اعلان کرتے ہوئے میدان میں اترنے کا باضابطہ اعلان
کیاہے اور تمام آزادی پسندبشمول لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک
اورمیرواعظ عمر فاروق اس کی حمایت تائیدکرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو دھوکہ
دینے کے لئے مفتی حکومت ریاست میں آر ایس ایس کے زہر ناک کشمیر ایجنڈے کے
نفاذ کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ وزیراعلی مفتی سعید کی کوئی خطا نہیں، وہ
خودبرملاکہتے ہیں کہ ان کاکوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ۔ اس بیان پرتڑکا لگاتے
ہوئے سابق این سی وزیرعلی محمد ساگرنے سچ ہی کہا ذاتی نہ سہی مگرناگپورکا
ایجنڈامفتی کاایجنڈا ہے۔ ساگرصاحب کو مگر یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ ان کا
باس عمرعبداللہ ہی پہلی وہ سیاسی شخصیت ہیں جس نے این ڈی اے میں بہ حیثیت
وزیرشمولیت کرکے مفتی سعید کیلئے راہ کشائی کی ۔
کشمیر میں کر سی کے متوالے حکمرانوں نے اپنے وطن میں تادم تحر یرکیا کیا گل
کھلائے،تاریخ سے واقف کشمیرکاہرذی ہوش اسے بخوبی جانتا ہے ۔یہ لوگ کشمیر کے
مفاد کو پس پشت ڈال کر لوگوں کو نوکریوں، سڑکوں، بجلی، پانی، ریلیف پیکج
یہاں تک کہ آزادی،نیم خود مختاری اورسیلف رول جیسے میٹھے بہلاوے دے کر ووٹ
بٹورتے رہے لیکن جیسے ہی ان کا کام نکلا وہ کشمیر یوں کے لئے معمولی سا کام
سرانجام دینے سے کنی کترا گئے اور محض دلی کی خوشنودی کے حصول میں اپنے
جلسے جلوسوں میں کشمیرکاز سے لے کر قائد اعظم اور پاکستان کوصلوا تیں سناتے
رہے،الحاق ِ ہند کی تعریف و توصیف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے رہے بلکہ
پولنگ کو حق خودارادیت کا نعم البدل قراردے کراسے ہرباربھارت کے حق میں
لوگوں کا فیصلہ جتلاکردربار کی ڈیلی ویجری کرتے رہے۔
کرسی کے اس دام ِ ہم رنگ ِ زمین کوجھٹلاکرسیدعلی گیلانی ،یاسین ملک ،
میرواعظ عمراورشبیرشاہ کا بڑاواضح پیغام دیتے ہیں کہ کشمیری قوم رائے شماری
کے اپنے دیرینہ مطالبے پرآج بھی قا ئم ودائم ہیں اوراسکاٹ لینڈ طرز کے
ریفرنڈم یاسلامتی کونسل قراردادوں کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ
کرناچاہتی ہے۔ بہر کیف نریندرمودی بالفرض محال جموں کشمیر کے لیے دس لاکھ
کروڑپیکیج کااعلان بھی کریں،پھربھی کشمیری عوام کے اصل مطالبہ کی دھوم سکی
نہ کسی پیرائے میں بجتی رہے گی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں،ایگر
یمنٹوں،اکارڈوں، معاہدوں سے بھی یہ لاینحل گتھی نہ سلجھی، حتی کہ اہل
کشمیرکاقافیہ حیات بشری حقو ق کی پامالیوں سے دہائیوں تک تنگ بھی
کیاگیامگروہ اپنے اصولی موقف سے ذرہ برابردستبر دارنہ ہوئے۔ اس لئے بہتری
کی صورت ایک ہی بچتی ہے کہ بغیر کسی ایچ پیچ کے خود کشمیر یوں سے پوچھاجائے
کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ ان کواعتماد میں لے کرکوئی ایسا منصفانہ
اوردیرپاوقابل قبول حلاگرمودی جی نکالنے کی جست لگاتے ہیں توہسٹری انہیں
برصغیر کے محسن کے طورپرضروریاد کرے گی۔ کیا وہ اتریک کاایسا باب لکھنے کے
لئے تیارہیں؟؟؟
یادرکھیں صحرامیں سراب بھی کسی خوبصورت خواب سے کم نہیں دکھائی پڑتااور کسی
صحرا نورود کی متلاشی آنکھیں مایوسیوں میں بھی امید سے تربہ تررہتی
ہیں۔امید کسی حال میں بھی نہیں ٹوٹنی چاہئے،بصورت دیگر انجام اس عمارت کی
طرح کاہوتاہے جو لمحوں میں مسمارہوجاتی ہے۔ امیدکوبارودکے ساتھ ساتھ نمرود
کی رعونت سے بھی بچاناہوتاہے کیونکہ ''زندگی نام ہی ہے مرمرکے جینے
کا''۔یہی وہ چمکتا سورج ہے جورات کوبھی روشن اورشاداب رکھتاہے۔امیدٹوٹ گئی
توسمجھو کہ قسمت ہی پھوٹ گئی۔ اس لئے ملین مارچ پر حکومتی عتاب کو امید کی
موت نہیں بننے دیناچاہیے۔ زوبین مہتا شو سرکار کی چھترچھایا میں ہوامگراس
میں وہی لوگ شریک ہوئے جو سرکار ی ذمہ دارتھے عام لوگ اس کے مد مقابل حقیقت
کشمیر کاحصہ بن کر امیدکوزندہ رکھ گئے۔ملین مارچ سے خائف حکومت نے کریک
ڈاؤن کرکے لو گوں کے منہ بند کرکے واضح کیاکہ اس باربھی کشمیرمیں صرف یہی
تبدیلی آئی ہے کہ صرف چہرے ہی بدلے ہیں اور''خیالات کی جنگ'' ایک واہمہ اور
بے اصل افسانہ ہے ۔ |