پاکستان میں اقلیتوں کا قابلِ فخر کردار

شمائلہ بھٹی

بھارت جو کہ اپنے اقلیت دشمن کردار کی وجہ سے بُری طرح بے نقاب ہو چکا ہے وہاں اکثر سرکاری سرپرستی میں ہولی مسلمانوں کے خون سے کھیلی جاتی ہے۔ سکھوں کا قتل عام اور دلتوں پر عرصہ حیات مسلسل تنگ رکھا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں اقلیتیں نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ قیام پاکستان سے آج تک پاکستان کی قومی زندگی میں اُن کا کردار قابل ذکر ہی نہیں قابل فخر بھی ہے۔ دفاع پاکستان میں تو اقلیتوں کا کردار لائق تحسین ہے ۔

پاکستان کی مسلح افواج کو ان کے ابتدائی سالوں میں ایک نیم تربیت یافتہ، ناپختہ کار ، نامکمل طور پر مسلح اور معمولی فوجی گروہوں سے اٹھا کر خطے کی اہم فوجی تنظیموں میں شمار کرنے کے پیچھے جہاں اس وقت کے ہراولین (Pioneer) پاکستانی فوجی افسروں کی انتہائی مخلس اور بے لوث محنت کا عمل دخل ہے وہاں اس میں کئی غیر مسلم افسران کی پیشہ ورانہ لیاقت اور جذبہ حب الوطنی کا بھی ایک ناقابلِ فراموش حصہ شامل ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد پاک فوج میں رضاکارانہ طور پر شامل ہونے والے انگریز افسران کے علاوہ کئی اینگلو انڈین ، کرسچن، پارسی اور ہندو افسران نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ بری فوج چونکہ تعداد میں ایک بڑی سپاہ تھی جس کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی راولپنڈی، جہلم، چکوال اور اٹک کے پنجابی مسلمانوں پر مشتمل تھا، اس لئے بری فوج میں مسلم افسران کی تعداد بھی بحریہ اور فضائیہ سے زیادہ تھی۔ تاہم بحریہ اور فضائیہ میں انگریز، اینگلوانڈین اور غیرمسلم افسران کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں نمایاں کارکردگی کامظاہرہ کرنے والے پیشہ ور اور بہادر افسران میں چند کرسچن اور احمدی افسران اور جوان اہم مقام رکھتے ہیں۔

بھٹودورکے بعد جب ملک کے تمام شعبوں میں بالعموم اورافواج میں بالخصوص اسلامائزیشن کا عمل شروع ہواتواس وقت تک اینگلوپاکستانی افسران کی آخری کھیپ بھی ریٹائر ہونے والی تھی جب کہ کرسچن اور احمدی افسران کے لئے یہ دور اس تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا جس کے تحت پاک فوج نے سیکولر اقدار کو چھوڑ کر ایک اسلامی شناخت اپنانا شروع کی ۔ وقت کے ساتھ ملٹری سوسائٹی میں پیشہ وارانہ اقدار کی بجائے مذہبی تفریق کا عمل شروع ہو گیا۔ ترقی اور فرائض کی تفویض کے شفاف نظام نے اگرچہ غیر مسلم افسران کے ساتھ نمایاں امتیازی سلوک روا نہ ہونے دیااور غیرمسلم افسران کو نچلے اور متوسط رینکس (Ranks) تک کسی قسم کی قابلِ ذکر رکاوٹوں اور الجھنوں سے بچائے رکھا لیکن اوپر کی سطح پر کافی حد تک مذہب کا عنصر بھی پیش ِ نظر رہنے لگا۔ کئی موقعوں پر ، سننے میں آیا ہے کہ غیر مسلم افسران بالخصوص احمدی افسران کی خدمات اور سنیارٹی کو نظر انداز کر کے ان کی وفاداریوں پر سوال تک اٹھائے گئے ۔ راقم نے اپنی باوردی زندگی کے لگ بھگ ایک عشرے میں کسی احمدی کرنیل یا جرنیل کو نہیں دیکھا۔یہ کوئی قابلِ فخر بات نہیں ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں احمدیوں کے ساتھ اس درجہ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہیکہ وہ اپنیکیرئیر اور معاشرتی زندگی کو پر سکون بنانے کے لئے اپنے تئیں مسلم ظاہر کرنے یا مذہبی شناخت کو خفیہ رکھنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم دورِحاضر کے کسی احمدی فوجی افسر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں یا پھر اس کا اظہار کرنے سے اس لئے گریزاں ہیں کہ یہ اس کے لئے مضر ہوسکتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے دورِحکومت میں روشن خیالی اور کسی حد تک سیکولر فوج کا ویژن عملی طور صورت اختیار کرتا دیکھا گیا جب پاک فوج میں 1سکھ اور 2ہندو افسران جب کہ پاک بحریہ میں ایک معمولی تعداد میں ہندو رنگروٹ بھرتی ہوئے۔ یہ سلسلہ شاید جنرل مشرف کی حکومت کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا۔ اب جب کہ مذہبی شناخت اور تشخص کا معاملہ ہمارے ہر شعبہ زندگی پر اثرانداز ہو رہا ہے ، یہ ضروری ہے کہ ہم رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے وطن عزیز کی مذہبی اقلیتوں کے احساسِ اجنبیت اور محرومی کو ختم کریں اور پاکستان کے خوش نما رخ پر اِن بھلائے ہوئے حسین رنگوں کی پچی کاری بھی کریں جو عالمی افق پر آزادی ، روشن خیالی اور امن پسندی کی قوسِ قزح بن کر ابھرنے کے لئے ضروری ہے۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 95123 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.