پولیس کیلئے گالیاں اورگولیاں

عدم برداشت کے سبب ہمارے معاشرے میں گالی اورگولی کاکلچر پنپ رہا ہے۔ہاکی ہماراقومی کھیل جبکہ حسد ہماری قومی بیماری ہے۔ہم نے اپنے بچوں کے ہاتھوں میں بلے تھمادیے جبکہ ہاکیاں اب صرف تشدداورتصادم کے کام آ تی ہیں،اگرہاکی کی باگ ڈوراختررسول کے پاس رہی تویہ کبھی ٹیک آف کی پوزیشن پرنہیں آئے گی۔ہم ایک دوسرے کیخلاف نفرت ،تعصب اورحسد سے بھرے ہوئے ہیں۔اب لوگ معمولی باتوں پرتھانوں کارخ کرتے ہیں ورنہ ماضی میں برادری یاگلی محلے کے بڑے بزرگ اپنی دانائی،برکت،بصیرت اورشفقت سے زیادہ تر تنازعات نمٹادیا کرتے تھے مگراب ہم بات بات پر مرنے مارنے پراترآتے ہیں جس کے نتیجہ میں پولیس اورعدلیہ پر کام کابوجھ بڑھ گیا ہے۔تھانہ کلچر کوبگاڑنے والے کوئی اورنہیں ہم خود ہیں ،اگررشوت کی وصولی حرام ہے تودینا بھی حلال نہیں ۔مانالوگ جائزکام کیلئے بھی رشوت دینے پرمجبورہیں مگر زیادہ ترواقعات میں شہریوں کے ناجائز اورمذموم مقاصد کی تکمیل اور دوسروں کو انتقام کانشانہ بنانے کیلئے پولیس کاسہارا لیا جاتا ہے۔ہم من حیث القوم بدنیت ،بددیانت ،کام چور ،متعصب ،منافق اورفاسق ہے۔جہاں پورامعاشرہ اورنظام بدعنوانی اوربدانتظامی کی بندگلی میں کھڑا ہووہاں کوئی ادارہ کس طرح صاف ستھرارہ سکتا ہے۔ پولیس والے ہمارے اپنے لوگ ہیں ،یہ آسمان سے اترے اورنہ اچھوت ہیں۔اداروں میں جہاں بھی نااہل اوربدعنوان عناصر ہیں ان کیخلاف کریک ڈاؤن ناگزیر ہے مگرگندی مچھلیوں کوبنیادبناکرقومی اداروں پرگنداچھالنادرست نہیں ۔پولیس سے نفرت کرناہم پرفرض اورقرض نہیں ہے،اگر پولیس سمیت کسی بھی ادارے میں ضمیرفروش سے واسطہ پڑے تواس کیخلاف قانونی طورپرضروراوربھرپورمزاحمت کریں مگربحیثیت ادارہ پولیس کوگالیاں نہ دیں کیونکہ ہماری طرف آنے والی گولیاں یہ اپنے چوڑے سینوں پر روکتے ہیں۔شہریوں کوپولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں صرف ڈنڈا دیکھائی دیتا ہے مگراس کے پیچھے حکمرانوں کے احکامات، سیاسی مفادات اورمقاصد ان کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ماڈل ٹاؤن میں جوہوا وہ دنیا بھرمیں دیکھا اوراس کاسوگ منایاگیا مگر اس کاخمیازہ وہ لوگ بھگت رہے ہیں جوفائرنگ کررہے تھے مگرجس نے حکم دیاتھا اسے کوئی نہیں پوچھتا ۔ پولیس فورس کے سرفروش آفیسرزاوراہلکار ہمارے محافظ ہیں ،تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے مجھے،آپ اورخاص طورپرحکمرانوں کواپنا اپنامائنڈ سیٹ بدلناہوگا ۔ اگر وردی کاڈر نہ ہوتو خدانخواستہ پاکستان راتوں رات قبرستان بن جائے۔ وردی شرفاء کیلئے خدمت اورحفاظت جبکہ سماج دشمن عناصر کیلئے دہشت کی علامت ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں جوزیادہ کام کرتا ہے اسے انعام میں زیادہ گالیاں اورگولیاں ملتی ہیں۔پاک فوج کے بجٹ پر تنقید کرنیوالے پاکستان کی جدید دفاعی ضروریات ،افواج کی مہارت اورقربانیوں کوکیوں نہیں دیکھتے ۔جہاں بھی ڈینجرزہوں وہاں ہمارے رینجرز سینہ تان کرکھڑے ہوتے ہیں ،ورکنگ باؤنڈری ہویاشہرقائدؒ میں پائیدارامن کی بحالی ہمارے رینجرز کی کمٹمنٹ اورمزاحمت قابل قدر ہے۔ڈی جی رینجرز پنجاب میجرجنرل عمرفاروق برکی کی حرارت، حرکت اور برکت سے اس ادارے کامورال آسمان کوچھورہا ہے ۔رینجرز پنجاب کے سابق پروفیشنل ترجمان ندیم رضا ان دنوں کہاں ہیں کوئی نہیں جانتا،ان کام بولتا تھانہ جانے ہمارے ادارے اپنے باصلاحیت آفیسرز سے کیوں مستفیدنہیں ہوتے ۔اگرہمارے ادارے ہماری حفاظت کیلئے سرحدوں اورشاہراہوں پر راتوں کوپہرہ نہ دیں توہمیں راحت بھری نیندمیسر نہ آئے ۔ کوئی ریاست سوفیصد مجرمانہ سرگرمیوں سے پاک نہیں ۔پاکستان کاامریکہ ،برطانیہ یا یورپی ملکوں سے موازنہ کرتے ہوئے ہم وہاں کے اداروں اوراپنے اداروں کوفراہم کی جانیوالی سہولیات اورمراعات کافرق کیوں بھول جاتے ہیں۔مہذب اورمتمدن ملکوں کے ادارے سیاست اورسیاسی مداخلت سے پاک ہیں جبکہ ہمارے اداروں کاریمورٹ حکمرانوں اوران کے حواریوں کے پاس ہوتا ہے۔زمینی وآسمانی آفات،حادثات ہوں یاانتخابات ہمارے اداروں نے کبھی مادر وطن اورہم وطنوں کومایوس نہیں کیا ۔

پاکستان میں شہریوں کاسب سے زیادہ واسطہ پولیس کے ساتھ پڑتا ہے۔فرد،خاندان یااداروں بارے مستند رائے قائم کر نے کیلئے انہیں مختلف خانوں میں تقسیم کر کے ان کی مجموعی کارکردگی دیکھنی چاہئے ،اگرپولیس کی مجموعی کارکردگی دیکھی جائے تویہ انتہائی اہمیت اورمقصدیت کاحامل ادارہ ہے ۔حالیہ بلدیاتی الیکشن میں سندھ اورپنجاب کے کچھ شہروں میں خونریز ی ہوئی لیکن اگر مجموعی طورپرپولیس کاادارہ اپنافعال کردارادانہ کرتا توشاید کشت وخون کے واقعات میں اموات کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ۔شہرلاہورکوقومی سیاست کاقلب اورتخت لاہوربھی کہا جاتا ہے۔ بلدیاتی الیکشن کے سلسلہ میں لاہورکوحساس قراردیا جارہا تھا کیونکہ اس شہرمیں جہاں حکمران جماعت اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے مدمقابل تھیں وہاں آزادامیدوار بھی بڑی تعداد میں سرگرم تھے اورماضی میں لاہورمیں انتخابات کے دوران خونریزی ہوتی رہی ہے لہٰذاء یوم عاشور کے فوراً بعد پرامن بلدیاتی الیکشن کاانعقاد لاہور پولیس کے انتھک اورزیرک کپتان محمدامین وینس کاایک اورکڑاامتحان تھا ۔سی سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین وینس،ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹرحیدراشرف،ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہور سلطان احمدچودھری ،ایس ایس پی سی آئی اے عمرورک ،ایس ایس پی سہیل سکھیرا، سی ٹی اولاہورطیب حفیظ چیمہ نے اپنااپنا فرض منصبی بااحسن انجام دیا ۔کیپٹن (ر)محمدامین وینس نے الیکشن پر اسلحہ ساتھ رکھنے اور لہرانے پرپابندی عائدکرادی جس کا مثبت نتیجہ برآمدہوا اورشہرلاہورمیں کوئی ناخوشگوارواقعہ نہیں ہوا،اس سلسلہ میں لاہورپولیس کامجموعی کردارمستحسن ہے۔میں سمجھتا ہوں شرپسندعناصر کی نظربندیاں یامجرمان کی گرفتاریاں نہیں بلکہ معاشرے میں مجرمانہ سرگرمیاں نہ ہونے دینا حقیقی کریڈٹ ہے ۔محمدامین وینس نے اسلحہ لہرانے پر پابندی کے باوجود اپنے ایس پی اورڈی ایس پی حضرات کی وساطت سے شرپسندعناصر کو متنبہ کرنے کیلئے ایک خصوصی پیغام بھجوایاجوپوری طرح اثر کرگیا،سچ کہا ہے کسی نے بدمعاشوں اورغنڈوں کیلئے پولیس سے بڑاکوئی غنڈہ جبکہ شرفاء کیلئے پولیس سے زیادہ کوئی شریف نہیں ہے۔اگرکپتان مردمیدان اور مردانہ وارخطرات سے کھیلتا ہوتوپھرٹیم ممبرز بھی بازی پلٹ دیتے ہیں۔محمدامین وینس بخوبی جانتے ہیں امن وامان برقراررکھنے کیلئے کس کوکہاں اورکس طرح قابوکرناہے۔میں سوچتا ہوں اگرمحمدامین وینس کراچی میں ہوتے تویقینا وہاں بھی امن کی بحالی کیلئے دوررس تجربات کرتے اورکامیابی سے ہمکنارہوتے مگرپھر سوچتاہوں وہ سندھ چلے گئے تو پنجاب کے پاس کیا بچے گا ۔میں وثوق سے کہتاہوں جب پنجاب پولیس کی کمانڈکیپٹن (ر)محمدامین وینس کریں گے توپوراپنجاب ان کی نیک نیت کی برکت سے مستفیدہوگااورپولیس فورس پولیس سروس بن جائے گی ۔ڈاکٹرحیدراشرف نے بھی اپنے تجربے ،مشاہدے اوراپنی پیشہ ورانہ مہارت کوبروئے کارلاتے ہوئے اپنے ماتحت آفیسرزاورایس ایچ اوزسے بھرپورڈیوٹی لی ۔ڈاکٹرحیدراشرف آپریشن ونگ کے کمانڈر ہیں اورسماج دشمن عناصر کیخلاف ''آپریشن'' کس طرح کرناہے یہ ایک ڈاکٹر سے بہترکون جانتا ہے۔ڈاکٹرحیدراشرف لاہورپولیس کو شہریوں کی خدمت اورحفاظت کیلئے مزیدمفیداورمتحرک بنانے کیلئے جدیدٹیکنالوجی سے بھرپورمددلے رہے ہیں۔میں نے اپنے ایک کالم میں پولیس گشت کویقینی بنانے اورسرکاری گاڑیوں کی مانیٹرنگ کیلئے ان میں ٹریکر لگا نے کی جوتجویزدی تھی اس کی روشنی میں اب گشت کے دوران کوئی ایس ایچ اواپنی غلط پوزیشن نہیں بتاسکتا ۔ڈی آئی جی سلطان احمدچودھری کے آنے سے انوسٹی گیشن ونگ لاہورمیں خاصی تحریک پیداہوئی ہے۔ملک یعقوب اعوان سے آفیسر انوسٹی گیشن ونگ کااثاثہ ہیں۔

ڈی پی اواٹک راناایازسلیم نے وہاں جاتے ساتھ اپنی دھاک بٹھادی اورنتیجتاً الیکشن والے دن وہاں کسی قسم کی گڑبڑنہیں ہوئی۔راناایازسلیم سخت مزاج ہیں کیونکہ ان کے مزاج کی گرمی ان کے ماتحت آفیسرز کوملزمان کے ساتھ بیجانرمی سے روکتی ہے۔راناایازسلیم ایس ایس پی انوسٹی گیشن لاہورکی حیثیت سے اپنے عمدہ کام کی بدولت ا چھی یادیں چھوڑ گئے ہیں ۔راولپنڈی میں سی پی اواسراراحمدعباسی کے حسن انتظام کی بدولت الیکشن والے دن خونریزی کاکوئی واقعہ رونمانہیں ہوا ۔پروفیشنل اسراراحمدعباسی کئی روزسے اس دن کیلئے منصوبہ بندی کررہے تھے،انہوں نے اسلحہ کی نمائش روکنے کیلئے سخت انتظامات کئے ۔ان کی کاوش اورکمٹمنٹ کے سبب راولپنڈی پولیس کے مجموعی ڈسپلن میں نمایاں بہتری آئی ہے۔باصلاحیت سی ٹی اوراولپنڈی شعیب خرم جانبازنے بھی اپنے وارڈنزکے ساتھ الیکشن کے پرامن انعقاد کیلئے اپناتعمیری کرداراداکیا ۔شعیب خرم جانباز کی شخصیت اورقابلیت میں ان کے والد ادریس جانباز مرحوم کی تربیت جھلکتی ہے۔ڈی پی اوسیالکوٹ رائے اعجازکی محنت بھی رائیگاں نہیں گئی اورشہراقبال ؒ بھی کشت وخون سے محفوظ رہا ۔رائے اعجاز کو اپنے والدڈی پی اوگجرات رائے ضمیرجوخودبھی ایک منجھے ہوئے اورزیرک پولیس آفیسرہیں سے جوتربیت ملی ہے وہ ہرمرحلے پران کے کام آ تی ہے ۔سی پی اوفیصل آبادافضال احمدکوثر کی بھرپورکوشش اورسخت انتظامات کے باوجودوہاں بیگناہ سیاسی کارکن مارے گئے مگرقاتل خواہ بہت بااثرکیوں نہ ہوں انہیں قانون کی گرفت سے کوئی نہیں بچاسکتا،افضال احمدکوثراوران کی ٹیم قاتلوں کے تعاقب میں ہے۔ڈی پی اوساہیوال محمدباقررضابھی اپنے ڈسٹرکٹ میں امن اوامان برقراررکھنے میں کامیاب رہے ۔محمدباقررضا بحیثیت پولیس آفیسر آنیوالے تمام چیلنجز کے ساتھ ٹیم ورک اورہوم ورک کے ساتھ نبردآزماہوتے ہیں ۔ڈی پی اوحافظ آبادشاکرحسین داوڑ الیکشن پر قانون کی رٹ قائم کرنے میں کامیاب رہے ۔شاکرحسین نے پراعتماد اندازسے کمانڈ کرتے ہوئے اپنے آفیسرز سے بھرپورکام لیا ۔ڈی پی او ننکانہ شہزادہ سلطان نے بھی الیکشن کے پرامن انعقاد کیلئے مختلف سیاسی پارٹیو ں کواعتماد میں لیا ،ایک متفقہ ضابطہ اخلاق بنایا مگراس کے باوجودوہاں سیاسی کارکنوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی مگرشہزادہ سلطان کے ہوتے ہوئے مجرمان کاکیفرکردارتک پہنچنا اٹل ہے ۔

لاہورمیں بلدیاتی الیکشن کے دوران ایس پی کینٹ امتیازسرور،ڈی ایس پی منصورقمر،ڈی ایس پی عاطف حیات ،ڈی ایس پی اقبال شاہ ،ڈی ایس پی ریاض علی شاہ،ڈی ایس پی میاں شفقت،ڈی ایس پی عاصم افتخارکمبوہ، ڈی ایس پی شیخ الیاس،ملک یعقوب اعوان،عتیق ڈوگر،رانارضوان ،ذوالفقاربٹ اورناصرخان لودھی سمیت دوسرے آفیسرزاورہزاروں اہلکار صبح صادق سے رات گئے تک مسلسل جانفشانی سے ڈیوٹی کرتے رہے ۔ سی ٹی اولاہورطیب حفیظ چیمہ نے بھی اپنے وارڈنز کے ساتھ گاڑیوں کی آمدورفت میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہونے دی ۔ طیب حفیظ چیمہ کی ہدایات پرپولنگ سٹیشنز کے باہربھی وارڈنزنے مختلف انتخابی ڈیوٹیاں انجام دیں۔ بلاشبہ ہمارے محافظ شاباش کے حقدار ہیں ۔

بلدیاتی انتخابات کے دوران آئی جی پنجاب مشتاق احمدسکھیرا کامتنازعہ بیان بھی موضوع بحث بنارہا جوانہوں نے پنجاب کے وزیرقانون راناثناء اﷲ خاں کی صفائی میں دیا تھا ۔آئی جی پنجاب نے یہ بیان یقینا اپنی مرضی ومنشاء سے دیا نہیں بلکہ ان سے دلایا گیامگر وہ اس قدرمجبوراوربے بس کیوں ہوگئے۔انہیں اپنا اورادارے کاوقاربچانے کی بجائے منصب بچانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ مشتاق احمدسکھیراکیوں بھول گئے ان اورہم سب کارازق اﷲ تعالیٰ ہے کوئی حکمران نہیں ۔اگراس قسم کابیان کسی ایس ایچ اونے دیاہوتا تواب تک اس سے وضاحت طلب کرلی گئی ہوتی مگرآئی جی پنجاب سے وضاحت کون طلب کرے ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں بڑے بڑے قدآورلوگ منصب اورمراعات چھن جانے کے ڈرسے ارباب اقتدارکی چاپلوسی اورخوشامدپراترآتے ہیں۔بہرکیف آئی جی پنجاب کے متنازعہ بیان سے جہاں ان کااپناوقار متاثر ہواوہاں پولیس کی ساکھ بھی راکھ کاڈھیر بن گئی ۔اگرآئی جی پنجاب کے آفس میں کوئی داناڈی پی آرہوتاتوشایدانہیں متنازعہ بیان جاری کرنے سے روک دیتا مگر جہاں سفارشی اورنااہل لوگ سیٹ سے چمٹ کربیٹھے ہوں وہاں غلطیاں نہیں بلکہ بلنڈر ہوتے ہیں۔آئی جی پنجاب کی خاتون ڈی پی آر زیادہ ترموقف دینے کیلئے دستیاب نہیں ہوتی اوراگر فون رسیوکربھی لے تواس کے پاس مستندمعلومات نہیں ہوتیں ۔آئی جی مشتاق احمدسکھیراکے احکامات پر پنجاب بھرمیں تبادلے ہوتے ہیں مگر ان کے اپنے آفس میں ڈی پی آرنبیلہ غضنفر مسلسل کئی برسوں سے اس سیٹ پرکیوں براجمان ہے ۔ فوج اوررینجرز کی طرز پرپولیس کو بھی اپنے ادارے میں سے دانا،زیرک اورقابل ترجمان تلاش اورتیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ باوردی ترجمان ہی وردی کوٹرسٹ وردی بناسکتے ہیں۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139626 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.