ڈرامہ نگار - خواجہ معین الدین - ٩ نومبر - ان کی برسی کا دن

مجھے اخبار کے ایڈیٹر نے فون کیا کہ نو نومبر آگئی ہے -- مشہور ڈرامہ نگار خواجہ معین الدین کی برسی کا دن -

لیکن ایڈیٹر کے لہجے میں ہکلاہٹ کیوں تھی - آواز کیوں گھبراہٹ کا شکار تھی - وہ تو صرف یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ خواجہ معین الدین کی برسی کا دن آرہا ہے - نو نومبر کو - آپ کچھ لکھ دیجئے

انہیں پتہ ہے کہ میں کہوں گا مجھے اصل تاریخ بتاو جب اس عظیم ڈرامہ نگار کو اس دنیا نے مار دیا تھا - اس کے بعد تو وہ محض اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے تھے -

لیکن آج نہ جانے کیوں میں خاموش ہو گیا اور لیپ ٹاپ کھول کر خواجہ معین الدین کے بارے میں جو معلوم تھا ٹائپ کر نا شروع کردیا - حوالے کے لئے ایک دو کتب چند رسائل بھی نکال کر سامنے رکھ لئے -

رات کے دس بجے ہیں - یہ وقت سامنے والے دفتر کے چوکیدار کی واپسی بھی ہوتا ہے - وہ ہر روز اسی وقت اپنی نوکری پوری کر کے گھر جاتا ہے -اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا کتا بھی ہوتا ہے - نہ جانے کتے نے کیوں اس سے دوستی کر لی ہے - خیر یہ چوکیدار ہلکے سروں میں گانا ہوئے میری کھڑکی کے سامنے سے روز گزرتا ہے - میں اپنی مصروفیات ترک کر کے اس کا گانا ضرور سنتا ہوں - سو آج بھی ایسا ہی ہوا - وہ گانا گاتے ہوئے گزرا - لیکن آج نہ جانے کیوں اس کی اواز میں زیادہ ہی سوز تھا - اس کی آواز دور ہوتی چلی گئی

میرے گیت سنے دنیا نے مگر میرا درد نہ کوئی جان سکا ---نہ جان سکا

اس کا گانا پہلے کبھی بھی میرے کام میں مخل نہیں ہوا تھا لیکن آج نہ جانے کیوں اس کے گانے کے سبب میرے جمع شدہ خیالات ہوا میں اڑ گئے - الفاظ جو ذہن میں تھے غائب ہو گئے - کیا لکھوں - سوچنے لگا - خیال آیا کہ کل اسے منع کردوں گا کہ یہاں گانے گاتے نہ گزرا کرو - انہی خیلات کے ساتھ ٹائپ بھی کرتا جارہا تھا کہ وقت کم تھا - چنانچہ تحریر مین کچھ جھول ہے تو برداشت کر لیجئے -

خواجہ معین الدین جن کے ڈراموں “مرزا غالب بندر روڈ پر “ اور “تعلیم بالغاں “ لال قلعہ سے لالو کھیت تک “ نے ایک زمانے میں دھوم مچائی ہوئی تھی بچپن سے ہی اداکاری کی طرف راغب تھے - وہ طالب علمی کے زمانے سے ہی اسکول ماسٹرون کا روپ دھار کر اپنے تعلیمی نظام کی خامیاں بتانے کی کوشش کرتے تھے - یہی چیز بعد میں ان کے مشہور ڈرامے “تعلیم بالغاں “ کے وجود میں آنے کا سبب بنی -

انہوں نے اپنے ڈراموں میں جس طریقے سے قوم کی حالت کی تصویر کھینچی ہے میرا خیال ہے اس سے زیادہ کامیابی سے اور کوئی نہیں کھینچ سکا

علامہ اقبال کا شعر ہم سب کی توجہ کھینچ لیتا ہے اور سب ایک انجانے سے اسلامی عروج ثانیہ کے تصور میں کھو جاتے ہیں
چین و عرب ہمارا -ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

لیکن جب یہی ترانہ تھوڑی سی ترمیم کر کے ان کے ڈرامے تعلیم بالغاں میں بے گھر غریب مایوسی کی دلدل میں ڈوبے ہوئے افراد گاتے ہیں

چین و عرب ہمارا -ہندوستاں ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے - سارا جہاں ہمارا

تو جو درد - سوز- کرب سے سسکتی ہوئی آواز ان بے گھر افراد کے دل سے نکلی تھی اس نے تو مجھے ہلا کے رکھ دیا تھا -ایک گرمی سی پورے جسم میں پھیل گئی تھی -

ا سی طرح تین گھڑون کی مدد سے ڈرامے میں پاکستانی معاشرے کی جو عکاسی کی گئی وہ کون کیسے بھول سکتا ہے -تین گھڑے ٹوٹے ہوئے تھے - ان کے نام اتحاد -تنظیم - یقین - تھے - استاد مکرم کہتے ہیں اتحاد ٹوٹ چکا ہے - تنظیم کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے اور یقین اپنی بنیاد یعنی پیندے سے ہی غائب ہے -

یہی حال ان کے دوسرے ڈراموں مثلآ “لال قلعہ سے لالو کھیت تک “ یا “مرزا غالب بندر روڈ پر “ کا ہے ہر ایک اپنی جگہ ماسٹر پیس ہیں

خواجہ معین الدین اور ان کے دیگر ہم عصر ڈرامہ نگاروں میں کیا فرق ہے - اس کا جواب یہی دیا جاسکتا ہے کہ آغا حشر کے بعد بہت سے ڈرامہ نگاروں نے ڈرامے لکھے لیکن انہوں نے خود ڈرامے اسٹیج کر نے کا تجربہ نہیں کیا اسے دوسروں پر چھوڑ دیا جبکہ خواجہ معین الدین نے محسوس کیا کہ جو وہ کہنا چاہتے ہیں وہ ہدایت کار صحیح طریقے سے نہیں پیش کر سکیں گے اور یوں ان کا پیغام صحیح طور پر عوام کے سامنے نہیں جائے گا سو انہوں نے فیصلہ کیا کہ نہ صرف ڈرامے لکھیں بلکہ اسے پیش بھی خود کریں

لیکن یہ عظیم ڈرامہ نگار آخری دنوں میں نہایت مایوسی کی حالت میں تھے - ایک خلش سی تھی جو انہیں اندر سے کھوکھلا کر رہی تھی - ان کی کامیابیاں -ان کے ڈرامے -ان کی تخلیقات ان کے چہرے پر حقیقی مسکراہٹ لانے میں ناکام رہی تھیں بلکہ ان کی روح کو گھائل ہی کر رہی تھیں -
ڈاکٹر نظر کامرانی اپنے مضمون روزنامہ جنگ 8 نومبر 1991 مین لکھتے ہیں کہ ایک واقعہ خواجہ معین الدین کی زندگی میں ایسا ہوا کہ انہیں ڈرامہ نویسی سے نفرت ہوگئی -

خواجہ معین الدین کہتے تھے یہ جو تم اپنے سامنے مجھے دیکھ رہے ہو یہ خواجہ معین الدین نہیں --اسے کوئی اور نام دے لو --

ایک مرتبہ انہوں نے دل کے اندر چھپا ہوا غم نکالا اور کہا
مین نے ان ڈراموں کی تخلیق کر نے کے لئے کتنی عرق ریزی سے کام کیا --
کتنی دشواریوں کی گھا ٹیوں کو پار کیا -
کیسے کیسے مسائل آئے -
ڈرامہ لکھنے کے لئے کاغذ خریدنے سے لیکر اسٹیج بنانے تک -

-اداکاروں سے اپنی پسند کے مطابق مکالمے کہلوانے کے لئے کن عذابوں سے گزرا -

-سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے کہ ان کی بجائے میں ایکسائز انسپکٹر بن جاتا تو اچھا تھا -

ایک ایکسائز انسپکٹر نے اپنی غلط حرکت سے انہیں مایوسی کا مریض بنادیا -
واقعہ یہ تھا کہ ان کا ڈرامہ "‘مرزا غالب بندر روڈ پر “ بڑی کامیابی سے جا رہا تھا - ایک ایکسائز انسپکٹر نے اپنے واقف کاروں اور رشتہ داروں کو ڈرامہ مفت دکھانےدکھانے کے لئے چالیس پچاس پاس مانگے -

وہ ڈرامہ جسے خواجہ صاحب نے کئی دن رات جاگ کر ایک ایک فقرے کو کئی مرتبہ ادا کر کے خامیاں دور کر نے کے بعد لکھا تھا -

-جسے اسٹیج کر نے کے لئے گھر کا کچھ سامان بھی بیچنا پڑا تھا اسے اس اکسائز کے سب انسپکٹر نے مفت پاس نہ ملنے پر بند کروادیا -

کیا اس ڈرامے کی یہ حیثیت تھی کہ ایک نچلے درجے کا اہل کار جب چاہے بند کرا دے جب چاہے چلنے کی اجازت دے دے

آئیے آج ان کی برسی کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر بصد خلوص اللہ کے حضور میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی منافقت کے ہاتھوں لگے زخموں کو اس دوسرے جہاں میں دائمی ملا ئمت و ملاحت کی بخشش سے بھر دے
نہ جانے یہ مضمون آپ کو پسند آئے گا یا نہیں کیوں کہ چوکیدار کے پرسوز آواز والے گانے
“میرے گیت سنے دنیا نے مگر میرا درد نہ کوئی جان سکا ---نہ جان سکا “ کے سبب میرے جمع شدہ خیالات ہوا میں آڑ گئے ہیں
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 355143 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More