عمران خان کی غلطی۔پہلا حصہ
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
غلطی کرنے میں کوئی قباحت نہیں ۔
انسان ہمیشہ غلطیا ں کرتا ہے اور آئند ہ بھی کرتا رہے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ
غلطی پر ڈٹ جانے سے نقصان ہوتا ہے اور اصل غلطی یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنی
غلطی مانتا نہیں۔ غلطیوں سے سیکھنا اور آگے بڑھنا چاہیے ۔بہت سے لوگ کہتے
ہیں کہ عمران خان کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے تھا وہ عبدا لستار ایدھی کی
طرح فلاحی کام کرتا جس طرح انہوں نے کینسر ہسپتال اپنی والدہ کے نام پر
بنایا ، جس طرح انہوں نے نمل یو نیورسٹی بنائی ،اسی طرح وہ دوسرے فلاحی کام
کرتے رہتے تو ان کے لیے اچھا ہوتا ۔ عمران سیاست میں فٹ نہیں ہے۔ وہ سیدھا
سادہ انسان ہے جو ان کے دل میں ہوتا ہے وہی زبان پر ہوتا ہے۔جھوٹ منافقت ان
کو نہیں آتی ۔ پاکستان کی سیاست توجھوٹ اور فریب سے بھری پڑی ہے۔ اس میں
ایسا آدمی نہیں چل سکتا جس طرح عمران خان ہے۔ جو سیدھی بات کرتا ہے۔ اب ان
لوگوں کو کون سمجھائے کہ پہلے تو یہ فلسفہ ہی غلط ہے کہ وہ لوگوں سے بھیک
مانگ کر فلاحی ادارے بناتے رہتے ۔ آخر کار وہ کتنی ادارے بناتا اور چلاتا۔
ہمارے پورے ملک کا نظام خراب ہوچکا ہے اس کو کس نے ٹھیک کرنا ہے ۔
عبدالستار ایدھی کی شخصیت دوسری ہے ۔ وہ نہ اتنا پڑھا لکھ ہے کہ وہ ملک کی
سیاست میں آجاتے اور ملک کو تبدیل کرتے ۔ عمران خان ایک وژنری آدمی ہے ۔
ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ہی لوگ سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور تبدیلی لاتے
ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب عمران خان شوکت خانم ہسپتال بنا رہے تھے تو
دس میں سے نو ڈاکٹرز نے کہا کہ یہ ہسپتال پاکستان میں نہیں بن سکتا ، اس پر
بہت زیادہ رقم خرچ ہونی ہے جو صرف حکومت برداشت کرسکتی ہے ، پھر جب وہ
سیاست میں آئے سب نے کہا کہ وہ کبھی بھی سیاست میں کامیاب نہیں ہوسکتا ۔
1997میں ان کو میاں نواز شر یف نے آفر کی تھی کہ وہ ان سے اتحاد کر یں تو
کچھ سیٹیں ان کو وہ پنجاب میں وہ دے سکتے ہیں ۔ عمران خان نے جواب دیا کہ
نہیں میں تو آپ اور بے نظیر بھٹو کے خلاف سیاست میں آیا ہوں۔ میں نے آپ کا
مقابلہ کر نا ہے ۔ ملک میں روایاتی سیاست کو ختم کرنا ہے۔ اب بھی اور اس
وقت بھی بہت سے لوگ عمران خان کے اس فلسفے کو غلط قرار کہتے تھے کہ واقعی
عمران خان سیاست دان نہیں اگر عمران خان سیاست دان ہوتے تو میاں صاحب کی
بات مان لیتے جب الیکشن ہوا نتیجہ آیا تو تحریک انصاف نے کوئی سیٹ نہیں
جاتی ، سب نے ان کو قصوروار ٹھہر ایا تو انہوں نے ایک ہی جواب دیا کہ میرے
ووٹر کی عمر ابھی چھوٹی ہے ۔اس کے بعد بہت سے ساتھی ان کاساتھ چھوڑ گئے ۔ان
کی دوسری غلطی یہ ہے کہ 2003میں پرویز مشرف کوجوائن کرنے کے بجائے آزاد
حیثیت میں اپنی پارٹی کا الیکشن لڑا جس میں بھی ان کو کوئی خاص کامیابی
حاصل نہیں ہوئی ۔ بجائے یہ کہ مشرف کاساتھ دیتے اور ملک کے وزیراعظم ہوتے۔
مشرف کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج شروع کیا ۔
2008الیکشن میں چھ ساتھ پارٹیوں نے متفق فیصلہ کیا کہ مشرف کے ہوتے ہوئے
صاف اور شفاف الیکشن نہیں ہوسکتے جس میں جماعت اسلامی، محمود خان اچکزئی کی
نیشنل پارٹی ،نون لیگ اور تحر یک انصاف سمیت سب اس فیصلے پر متفق ہوئے کہ
وہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے ۔ میاں نواز شریف کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ
بے نظیر بھٹو کو الیکشن بائیکاٹ پر راضی کریں جس پر محترمہ بے نظیر نے میاں
سب کو الیکشن لڑنے پر راضی کیاجس پر دوسری سیاسی جماعتیں میاں صاحب سے
ناراض ہوئی اور اپنے فیصلے پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا جبکہ نون لیگ نے
الیکشن میں حصہ لیا۔اسی طرح ان پارٹیوں میں پی ٹی آئی بھی پانچ سال
اسمبلیوں سے باہررہی ۔اس کو بھی عمران خان کی غلطی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے
وعدوں کو میاں صاحب کی طرح سائٹ پر کرتے اور الیکشن میں بھر پورحصہ لیتے
لیکن انہوں نے وعدہ نبھایا اوردوسری پارٹیوں کے ساتھ الیکشن بائیکاٹ میں
رہیں۔اس دورا ن انہوں نے اپنی کوشش جاری رکھی اور چار سال پہلے انہوں نے
30اکتوبر 2011کو لاہور میں بڑا جلسہ کیا جس پر ان کی پارٹی کو مین سڑیم
پوزیشن مل گئی اور تحریک انصاف کو بڑی قوت کے طور پر تسلیم کیا گیا جس پر
ان کے خلاف الزامات بھی لگے کہ بعض قوتیں عمران خان کو سپورٹ کرتی ہے۔ میں
نے عمران خان کے تیس اکتوبر کے جلسے سے دو دن پہلے ایک کالم لکھا تھا جس کا
عنوان تھا ’’عمران خان کی جیت ‘‘ جواب بھی ریکارڈ پر ہے جس میں میں نے
عمران خان کے مستقبل کی کامیابی کے بارے میں لکھا تھا کہ عمران خان کا میاب
ہوگا لیکن ۔۔۔
2009میں میں نے خیبر پختونخوا کے اس وقت تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اور
آج کے صوبائی وزیر شاہ فرمان کا انٹرو یو کیا تھا جس میں ان کو بتا یا تھا
کہ 2013میں اگر ملک میں نہیں تو کم ازکم پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت
بنے گی۔ بہرکیف قصہ مختصر 2013الیکشن میں دھاند لی کے باوجود ووٹوں کے حساب
سے پی ٹی آئی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن گئی ۔وہ لوگ جو عمران خان کو سیاست
دان ماننے کے لیے تیار نہیں تھے اور بہت سے لوگ آج بھی ان کو سیاست دان
نہیں مانتے ۔ ان کی پارٹی ملک کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی اور اگر اﷲ تعالیٰ
نے چاہا تو آنے والے الیکشن میں جیت ان کی پارٹی کی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ
عمران خان کے مخالفین ان کو سیاستدان تو نہیں مانتے لیکن چوبیس گھنٹے میں
بیس گھنٹے عمران خان اور ان کی پارٹی کو ڈ سکس کیا جاتا ہے۔ انتخابات میں
دھاندلی کا رونا ہر جماعت نے رویا۔ عمران خان نے ہسپتال کے بسترسے چار
حلقوں میں تحقیقات کاحکومت سے مطالبہ کیا کہ ان حلقوں میں دھاندلی کی
تحقیقات کریں تاکہ آئندہ الیکشن صاف اور شفاف ہوجائے ۔ اسمبلی فلور پر پہلا
مطالبہ یہی کیا کہ چار حلقوں کو کھلا جائے جب بات نہ بنی تو احتجاجی جلسے
کیے حکومت پھر بھی چار حلقوں میں تحقیقارت کے لیے تیار نہ ہوئی تو اسلام
آباد میں تاریخی دھرنا دیا۔ اس دھرنے کو بھی عمران خان کے مخالفین نے بعض
قوتوں کی کار ستانی قرار دیا ۔ بعد میں تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ نے یہ ثابت
کیا کہ دھاندلی ہوئی ہے لیکن منظم دھاندلی نہیں ہوئی ہے جبکہ چار میں سے
تین حلقوں میں دھاندلی کی وجہ سے الیکشن ٹر بیونلز نے دوبارہ انتخابات کا
حکم دیا ۔یہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔ عمران خان کی اصل غلطی تو
کچھ آور ہے جس پر میں کل کے کالم میں بات کروں گا کہ انہوں نے ریحام خان سے
شادی کر کے کتنی بڑی غلطی کی تھی اور آخرکار نتیجہ طلاق پر ختم ہوا۔ |
|