اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف
المخلوق بناکر اسے کائنات کی ہر شے سے برتر بنادیا ہے اوراس اعلیٰ مقام کے
باعث اس کی فطرت میں خود نمائی کا پہلو از خود جاگزیں ہوگیا ہے جس نے اس
میں اس کیلئے خوشی اور مسرت کی ایک لاثانی و لا متناہی کیفیت پیدا کردی ہے
اور اس کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتا ہے ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ دنیا
کا کوئی بھی حصہ کیوں نہ ہو ،جہاں کہیں بھی انسانی زندگی کا وجود ہو خود
نمائی کا عنصروہان کا لازمی جزو ہوگا۔ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں جسے وہ اپنی
قابلیت گردانتا ہے کی بدولت کوئی نہ کوئی ایسا کام ضرور انجام دیتا ہے جو
اس کے عزت و وقار کی وجہ بنتا ہے ہے اور اس کی پزیرائی سے وہ خوشی اور مسرت
محسوس کرنے لگتا ہے ۔ اﷲ کے فرمان کے مطابق ً ہم نے تمہیں گروہوں اور
قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ یہ تمہاری پہچان ہو ً۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مختلف
گروہوں اور قبلیوں میں رہ کر اپنی پہچان بنانے کیلئے مختلف کارہائے نمایاں
سرانجام دیتے ہیں جو ان کی معاشی آسودگی کے علاوہ ان کی شہرت کا بھی باعث
ہوتے ہیں ۔ابتدا سے اب تک ہر ذی روح کو اپنی شناخت معاشرے میں کروانے کی
خواہش ہے کہ لوگ اسے اعلیٰ مرتبہ و مقام دیں اور اس کی تکریم کریں ۔انسانی
فطرت میں دیگر چیزوں کی طرح خود نمائی ایک اہم عنصر بن چکا ہے ۔ فنون لطیفہ
سے وابستگی بھی بنیادی طور خود نمائی یا کسی اچھی شناخت کی خواہش کی تکمیل
ہے ۔ تاکہ لوگ اس کی ذات سے متعلق محفلوں اور مجلسوں میں اس کے کارناموں کی
بات کریں ، اس کی ذات پر گفتگو کی جائے اور اس کے متعلق اچھی رائے قائم کی
جائے ۔
ان شہرت کے متمنی افراد میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کارنامے عوام
کیلئے فلاح و بہبود کا باعث ہوتے ہیں ، بعض کی وجہ سے لوگوں کو تفریح ملتی
ہے اور ان کی کارکردگی افراد کی راحت کا باعث بنتی ہے ۔ بعض کے افکار کی
بدولت معاشرہ اپنی راہیں متعین کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر شاعر مشرق علامہ
محمد اقبالؔ کی شاعری سے آج بھی لوگ استفادہ کرتے ہیں اور دنیا میں اپنے
مقام کو پہچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اقبال کی شاعری نے اسلا م کی تعلیمات کو
جس طرح سے لوگوں پر آشکار کیا ہے وہ وہ نہایت آسان اور قابل فہم ہے ، حبیب
جالب ایک عوامی اور انقلابی شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ، شاہ لطیف ،
سچل سرمست ، بابا بھلے شاہ و دیگر کا کلامصوفیانہ ہے اور تصوف پر مبنی ہے
جس سے روحانی آسودگی میسر آتی ہے جبکہ مرزا غالب و دیگر شعراء کرام کی
شاعری سے عوامی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے ۔ یہ لوگ اپنے دور کے اعلیٰ پائے
لوگوں میں شمار تو ہوتے ہی تھے لیکن ان کی عزت آ ج بھی ایک معتبر شخصیت کی
طرح کی جاتے ہے اور ان کا کام آج بھی پہلے کی طرح سراہا جاتا ہے۔ قائد اعظم
محمد علی جناح ، خان لیاقت علی خان ، مولانا محمد علی جوہر ، سرسید احمد
خان سے لیکر ذولفقار علی ، بھٹواورپھر ان کی صاحبزادی بینظر بھٹو تک کے
سیاست دان عوامی امنگوں پر پوار اترنے کے باعث ملکی سطح سے بین الاقوامی
سطح تک اپنا اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ۔ فنوں لطیفہ میں کردار نگاری ان دنوں
بہت اہمیت کا حامل ہے ، کردار نگاری کے باعث بے شمار لوگ عوام میں نہ صرف
مقبول ہیں بلکہ زیر بحث بھی رہتے ہیں ، لوگ ان اداکاروں سے والہانہ محبت کا
اظہار بھی کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ کردار نگار ایک طرف معاشی طور
پر بہت آسودہ ہوجاتے ہیں بلکہ ان کی سب سے اہم خواہش جو شہرت ہوتی ہے اس کی
بھی تکمیل ہوجاتی ہے ، جوں جوں یہ لوگ شہرت کی بلندیوں پر جانے لگتے ہیں
ویسے ہی یہ لوگ عوام کی میراث بھی بن جاتے ہیں یعنی جو لوگ انہیں پسند کرت
ہیں گویا وہ ان کی نجی زندگی بھی عمل دخل کا اختیار پالیتے ہیں ، اب وہ
اپنے محبوب کی ہرہر سرگرمی پر نظر رکھتے ہیں ، اس کی پسند و ناپسند کا
انہیں بخوبی علم ہوتا ہے ،وہ کیا کرتے ہیں ، کہاں جاتے ہیں ، کس سے ملتے
ہیں اور کس سے کیا تعلق رکھتے سب پر ا ن کی گہری نظر ہوتی ہے ۔ موجودہ دور
میں سیاستدان بھی عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کیلئے کئی طرح کے حربے اختیار
کرتے ہیں اور مختلف انداز سے خود کو عوام کے قریب لانے کیلئے ذرائع ابلاغ
کو خصوصی طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ ان کے عوام کے درمیان فاصلے کم
ہوجائیں ۔ فی زمانہ ہمارے ملک میں مسلم لیگ ن ، پی پی پی ودیگر جماعتوں کے
بعد ایک اور سیاسی جماعت عوامی مقبولیت حاصل کرچکی ہے جس کانام تحریک انصاف
ہے اور اس کے روح رواں معروف سابق کرکٹر عمران خان ہیں جن کی وجہ شہرت
عالمی کپ جیتے کے بعد بہت بڑھ گئی تھی جس کے بل بوتے انہوں نے کینسر ہسپتال
بنایا اور اب سیاست کے میدان میں غوطہ زن ہیں ۔ وہ2013ء کے عام انتخابات
میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگے ہیں اوران کی جماعت ملک میں ایک تیسری
بڑی جماعت بن کرابھری ہے اور کے پی کے میں کار حکومت چلارہی ہے ۔ عمران خان
کرکٹ میں جس قدر مقبول تھے اس سے کئی گنا بڑھ کر اب وہ سیاست میں عوامی
پزیرائی حاصل کرچکے ہیں ، لیکن 2014 ء میں چار ماہ سے زائد کا اسلام آباد
کا دھرنا ان کی مقبولیت کا باعث بنا ہے جس میں وہ عوام سے زیادہ قریب ہوگئے
تھے ، وہ لوگوں اور لوگ ان کے اتنے قریب ہوگئے تھے کہ عمران خان نے انہیں
اپنا خاندان گرداننا شروع کردیا تھا ، وہ اپنی نجی زندگی کے کئی معاملات
اور واقعات بتادیتے،یہاں تک کہ انہوں نے دھرنے میں اپنی شادی کا اعلان
کردیا تھا جو کسی اچھنبے سے کم نہ تھا، کئی دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوگئی تھیں
، بے شمار حسیناؤں نے رشتے بھیجنے شروع کردئے ، کئی کے پرانے سوئے ہوئے
ارمان جاگ گئے تھے ، لیکن انہوں شادی کہیں اور کی ، بہت سوں کے دلوں کو
توڑنے والے عمران خان پھر بھی مقبولیت کی بلندی پر تھے۔ ان کی شادی عوام کے
لئے خوش کن تھی ، زندگی کے ہر کارخانے میں جس طرح وہ دھرنے کے دنوں میں
زیربحث تھے، ان کی شادی بھی ایک خانگی معاملہ نہیں رہا تھا بلکہ وہ عوامی
بن چکا تھا، اب ان کی ریحام سے علیحدگی بھی ان کا نجی معاملہ نہیں رہا ہے ،
ملک کاہر فرد اس کو لے کر گفتگو کررہا ہے ، لوگوں کے ذہنوں میں اس سے متعلق
کئی سوالات ہیں ، انہوں نے اپنی جانب سے اسے عوامی حلقوں میں بحث کرنے سے
منع کیا ہے ، وہ سوالات سے ڈرتے ہیں ، عمران سخت لہجے میں کہتے ہیں کہ ان
کی بیوی ریحام کے بارے کوئی سوال نہ کیا جائے ، ان کا اپنے تعین یہ خیال ہے
کہ یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے جسے ان کی ذات تک محدود رکھا جائے ،ذاتی نوعیت
کے سوال پوچھنے کی ان کی جانب سے اجازت نہیں یہ ہماری ثقافت کے منافی ہے ۔
ممکن ہے کہ یہ بات درست ہوگی لیکن وہ بھول رہے ہیں ، انہوں نے عوام کو اپنا
خاندان قراردے رہے تھے، اب بتائے کیا کوئی اپنے خاندان والوں سے کوئی بات
چھپاسکتا ہے ،وہ شاید جانتے نہیں کہ اب وہ ایک کرکٹر نہین رہے بلکہ وہ ایک
سیاست دان ہیں جو عوام میراث بن چکے ہیں ، وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ
ہیں ، اور انہں چاہئے کہ وہ ایک سیاست دن بن کر سیاست کریں نا کہ آمر بن
جائیں ، ان کی آمرانہ پالیسیوں کی بدولت نہ صرف ان سے کئی مخلص ساتھی بچھڑ
چکے ہیں بلکہ پارٹی کو بھی بہت نقصان پہنچ چکا ہے ،جو انہیں کسی بھی صور ت
نہیں بھاتا۔ انہوں نے جو رویہ صحافی حلقوں کے ساتھ روا کر رکھا ہے وہ درست
نہیں ، دھرنے سے قبل ، دھرنے کے دوران اور بعد میں بھی کئی صحافی حلقوں سے
ان کے تعلقات نامناسب تھے اور اب ریحام سے طلاق کے بعد جس طرح انہوں نے
صحافی کو ڈانٹا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے ایک سلجھے ہوئے سیاست کو زیب نہیں
دیتا ۔ شرمناک کالفظ استعمال کرنے پر وہ عدالت عظمیٰ کے سامنے شرمسار ہوچکے
ہیں اب انہیں ازخود شرم آجانی چاہئے کہ وہ کرکٹ کے میدان میں کسی کھلاڑی کو
بے نقط نہیں سنارہے بلکہ ملک کے سب سے زیادہ معتبر اور باشعور فرد کا سامنا
کررہے ہیں جو وہی بات کررہا ہے جس کا تقاضہ عوام کررہے ہیں جنہیں وہ اپنا
خاندان گردانتے ہیں۔۔ |