خدارا سانحہ سندر سے سبق سیکھیے

سانحہ سندر کے تناظر میں تحریر
ابھی وطن عزیز کے باسیوں کے دلوں پر زلزلہ کی تباہ کاریوں کے زخم تازہ تھے کہ وطن عزیز کی فضائیں اک نئے سانحہ کا شکار ہو گئیں۔سندر اسٹیٹ میں اک بلڈنگ زمین بوس ہونے سے پچاس سے زائد لوگ لمحہ بھر میں لقمۂ اجل بن گئے اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔اپنے گھر کے افراد کی آنکھوں میں سجے خوابوں کی تعبیر کی خاطر محنت مزدوری کرتے یہ افراد ناگہانی آفت کی لپیٹ میں آ گئے۔بلڈنگ کی صورتحال سے آگاہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زلزلہ کی وجہ سے بلڈنگ کی دیواروں میں دراڑیں آ چکی تھیں اور بلڈنگ کی یہ حالت اشارہ دے رہی تھی کہ اسے از سرے نو تعمیر کیا جائے اور پھر لوگوں کی نشاندہی کے باوجود مالک بلڈنگ کی چوتھی منزل تعمیر کرنے پر بضد تھا اور اس کی یہی ضد اس المناک حادثے کا باعث بن گئی۔ شنید ہے کہ جب زلزلہ آیا تو اس عمارت کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی تھیں اور بنیاد کمزور ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود بلڈنگ کے مالک نے چوتھی منزل استوار کرنے کے لیے کام جاری رکھا۔کمزور بنیاد اس قدر بوجھ کو سہا ر نہ سکی اور دھڑام سے نیچے آن گری اور پل بھرمیں درجنوں گھروں کے چراغ گل ہو گئے۔لوگ دیوانہ وار متعلقہ بلڈنگ کی جانب دوڑے لیکن ان کے پیارے ملبے تلے دبے اک انہونی کا شکار ہو چکے تھے۔قیامت خیز منظر تھا جو برپا ہو چکا تھا۔موبائل سے اپنے اپنے پیاروں سے رابطہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔لیکن ان کے موبائل خاموش تھے ۔کچھ جان کی بازی ہار چکے تھے کچھ زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے اور متعدد ملبے سے نکلنے کے کے لیے خدائی مدد کے منتظر تھے۔پل بھر میں سینکڑوں گھرانوں پر قیامت گزر چکی تھی آہ و بکا سے فضا بھی غمزدہ ہو چکی تھی اور موقع پر موجود ہر آنکھ اشکبار تھی۔غور طلب بات ہے کہ جب مصیبت آنی ہوتی ہے تو قدرت گاہے گاہے اس کے اشارے دیتی رہتی ہے لیکن انسان کی آنکھوں پر لالچ اور ہوس کی پٹی بند ھی ہونے کی وجہ سے یا بعض اوقات غربت کے سبب عالم مجبوری میں جکڑے ہونے کی وجہ سے اس جانب توجہ نہیں کرتا اور نتیجہ المناک اور غمناک حادثے کی صورت رونما ہوتا ہے تب پچھتاوے کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا اور انہونی ہو چکی ہوتی ہے اور انسان مشیت ایزدی کے سامنے لاچار و مجبور مجسمہ حیرت کی صورت کھڑا نظر آتا ہے۔

گزشتہ کچھ عرصہ میں عمارتوں کے زمین بوس ہونے کے واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں بلڈنگ تعمیر کرتے وقت کسی مروجہ قاعدے قانون کی پاسداری نہیں کی جاتی ۔جس کا جب جی چاہے جہاں دل چاہے اور جس قدر چاہے بلڈنگ کی منزلیں تعمیر کر لے کوئی روکنے والا ہے نہ پوچھنے والا ۔ اس ضمن میں قانون خاموش ہے۔ دنیا بھر میں تعمیر کی جانے والی بلڈنگز ایک قانون اور قاعدے کے تابع ہوتی ہیں اور اس میں ارضی و سماوی آفات کے بھی ہر پہلو کو مد نظر رکھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں قانون کی عملداری کی ممکنہ خامی کی بدولت اس قسم کے واقعات زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ سینکڑوں ایسی عمارتیں اب بھی موجود ہیں جن کی حالت مخدوش ہے اور کسی بھی وقت کسی بہت بڑے حادثے کا باعث بن سکتی ہیں لیکن ان عمارتوں کی نئے سرے سے تعمیر کی جانب نہ تو حکومت کا دھیان ہے اور نہ ہی ان بلڈنگز کے مالک ان عمارتوں کو منہدم کر کے از سرے نو تعمیر کے خواہشمند ہیں اور اس کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے لالچ یا مجبوری۔ پاکستان میں بلڈنگز کی تعمیر کے ضمن میں ایک قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ عمومی طور پر عمارتوں کی تعمیر ٹھیکے دار کے ذریعے کروائی جاتی ہے جو لالچ اور ہوس کا شکار ہو کر زیادہ منافع کمانے کے چکر میں ناقص مٹیریل کا استعمال کرتا ہے اور نتیجے کے طور پر سانحہ سندر جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ٹھیکیداروں کے اس طرز عمل کے علاوہ بھی کچھ لوگ بچت کے پہلو کو ملحوظ خاطر رکھتے ہو سستا سریا،سیمنٹ اور اینٹیں حاصل کرتے ہیں اور اس ناقص مٹیریل سے تیار شدہ عمارت زلزلہ جیسی آفات کی زد میں آ کر سب سے پہلے زمین بوس ہوتی ہیں اور کی گئی معمولی بچت نا قابل تلافی نقصان کا موجب ٹھہرتی ہے اور پورا وطن غم و الم کی تصویر بنا دکھائی دیتا ہے ۔پاکستان میں ایک اور بات بھی دنیا بھر سے منفرد ہے وہ یہ کہ پوری دنیا میں خستہ حا ل عمارتوں میں رہائش رکھنے کا رحجان دکھائی نہیں دیتالیکن پاکستان میں جب تک عمارت گر نہ جاے مکین مکان چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا حالانکہ مکان کے درو دیوار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ حادثہ کسی بھی وقت رونما ہو سکتا ہے -

اگر بات کریں عمارتوں کے اس قسم کے حادثات کے حوالے سے حکومتی ذمہ داری کی تو سنتے کان اور دیکھتی آنکھیں ہمیشہ ایک ہی منظر کی گواہ ہیں کہ حکومت ایسے واقعات پر برسوں سے چلے روائتی بیان کا جامہ اوڑھ کر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتی ہے ۔وزیر اعظم سے لے کر وزیر اعلیٰ تک غم کی تصویر بنے نظر آتے ہیں اور ہاتھوں میں امدادی چیک تھامے متاثرین کی اشک شوئی اوردلجوئی میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں ذرا ضمیر کو جھنجوڑ کر دیکھیے کیا حکمرانوں کا یہ وطیرہ ٹھیک ہے ۔خدارا اب بھی ہوش کے ناخن لیجیے ۔ ڈنگ ٹپاو پالیسیوں کو چھوڑ کر دور رس نتائج کے حامل اقدامات کی جانب توجہ کیجیے جس سے قوم کی تعمیر مستقل بنیادوں پر استوار ہو ۔ قانوں بنانے تک محدود نہ رہیے بلکہ اس پر کماحقہ عمل درآمد کی ذمہ داری بھی اٹھائیے ۔ بلڈنگز کی تعمیر کے ضمن میں بھی کوئی ایسی جامع حکمت عملی مرتب کیجیے جو اختیار کرنے سے نقصان کی شرح کم ہو سکے ۔ بلڈنگز کی تعمیر میں پائیدار مٹیریل کے استعمال کو یقینی بنانے کے اقدامات کیے جائیں تا کہ آئندہ سانحہ سندر جیسی دردناک صورتحال کا سامنا نہ ہو اور سینکڑوں گھر اجڑنے سے محفوظ رہیں۔
abdul razzaq
About the Author: abdul razzaq Read More Articles by abdul razzaq: 96 Articles with 66579 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.