عوام کا رپورٹر
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
|
پاکستان اور بھارت کے درمیان
جاری تنازعہ کشمیر مستقبل میں کس کروٹ بیٹھے گا ؟کشمیریوں کے حق خود ارادیت
کا مطالبہ کرنے والوں سے سفارتکار پوچھتے ہیں کہ ریاستی عوام کی اجتماعی
تشفی کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟۔وید بھسین(Ved Bhasin ) 1994ء میں کشمیر امن
کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکہ گئے تو ان سے بھی ایک امریکہ سینیٹر نے یہی
سوال کیا۔ وید بھسین کا کہنا تھا ریاستی عوام کی اجتماعی تشفی ممکن ہے۔ اس
کے لیے کشمیر کے دونوں حصوں سے فوجی انخلاء عمل میں لانا ہوگا۔دونوں طرف کی
اسمبلیوں کے انتخابات کروائے جائیں، پھر مشترکہ کونسل کے تحت دونوں طرف کے
مشترکہ معاملات پر غور کیا جائے۔ لائن آف کنٹرول کو عوام کے لیے کھول دیا
جائے۔ ان کی آزادانہ نقل و حرکت یقینی بنائی جائے۔ پانچ سال بعد پوری ریاست
کی متحدہ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کروائے جائیں۔ متحدہ اسمبلی ریاستی
عوام کی اجتماعی تشفی کا اہتمام کرے ، اسی طرح طے کیا جا سکتا ہے کہ ریاست
جموں وکشمیر پاکستان کا حصہ بنے یا بھارت کا یا پھر ایک آزاد وخود مختار
ریاست بن جائے ۔ میری اپنی رائے ہے کہ کشمیر سوئز لینڈ طرز کی جنوبی ایشیا
کی ایک آزاد مختار ریاست ہونی چاہیے۔
ریاست جموں وکشمیر کے سیاست اور صحافت کے میدان میں انجہانی وید بھسین قد
آوور صاحب الرائے شخص تھے۔6نومبر2015 کو اس دنیا سے چل بسے ۔روزنامہ کشمیر
ٹائمز گروپ آف نیوزپیپرزکے چیئرمین وید بھسین کا تعلق میرپورڈویژن کے ضلع
بھمبر سے تھا ۔ ان کے والدین تقسیم سے پہلے جموں منتقل ہوگئے تھے۔ چنانچے
انجہانی وید بھسین نے جموں سے ہو کر اپنا کیریر شروع کیا، کشمیر یوں کے حق
خود ارادیت کا مقدمہ لڑا اور کشمیریوں کی آواز بنے ۔ پیشہ ان کا صافت تھا
مگر وہ خود سیاسی نظریات رکھتے تھے تاہم اپنے سیاسی نظریات کو کسی پر مسلط
کرنے کی کوشش کی اور نہ اپنے پیشے پر مسلط ہونے دیا۔میں ان سے کئی بار مل
چکا ہوں، ان سے انٹرویو کیے، ان سے کشمیر تنازعے بارے سیکھنے کی کوشش کی ۔
نظریہ خود مختار جموں کشمیر کے داعی وید بھسین کثیر جہتی شخص تھا جن کی
کاوشوں،جدوجہد، قربانیوں اور اوصاف کو کوئی بھی ذی ہوش کشمیری فراموش نہیں
کرسکتا ہے۔ 1989 کے بعد کشمیری بے چین ہوے تو وید بھسین ان کی آواز بن گے
تادم مرگ اسی راہِ عزیمت میں ڈٹے رہے۔کشمیر ٹائمز گروپ کے چیئرمین،قد آور
صحافی اور دانشور وید بھسین کی پیدائش1مئی1929کوجموں میں ہوئی۔ وہ لگ بھگ
70برسوں تک صحافت کے میدان سے سرگرمی سے وابستہ رہے اور ساتھ ہی سیاست سے
بھی جڑے رہے ۔بھسین کی پہچان صرف پاکستان بھارت میں ہی نہیںبلکہ پوری دنیا
میںتھی اوران کا شمار ریاست کی اہم شخصیات میں ہوتاتھا۔ وید بھسین جی یاد
میں اسلام آباد میں ایک مجلس میں ان کے دوست انہیں وید جی اور وید صاحب کہہ
کر مخاطب کررہے تھے یعنی وہ وہ اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب میں وید جی
اور وید صاحب کے نام سے مشہور تھے ۔ان کی کشمیر کاز کے لیے خدمات کو ریاست
ہی نہیں پوری دنیا میں سراہاجاتارہاہے ۔لگ بھگ سات دہائیوں پرمشتمل اپنے
شاندار کیریئر میں بھسین نے ہفتہ وار اردو جریدے نیا سماج کے ایڈیٹر کے طور
پر بھی کام کیا ۔ یہ جموں کا پہلا سیاسی ہفتہ وار جریدہ تھا۔ وہ اس سے
1952سے 1954تک وابستہ رہے ۔تاہم 1954میں اس کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی
گئی ۔اگرچہ تب نیشنل کانفرنس برسر اقتدار تھی اور بھسین خودبھی اسی جماعت
سے وابستہ تھے تاہم انہوںنے اپنی پالیسی کو غیر جانبدرانہ رکھا۔
وید جی آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر دونوں طرف کی آوازوں کو یکجا کرنے والی
شخصیت تھے ۔ بلراج پوری چل بسے، وید جی بھی چل بسے ، اب کرشن دیو سیٹھی
زندہ ہیں۔آزاد اور مقبوضہ ریاست کی صرف زمین ہی تقسیم نہیں ہوئی خاندان بھی
تقسیم ہوئے تھے۔نصف صدی تک ان خاندانوں کو ایک دوسرے سے دور رکھا گیا۔ان کے
ملنے جلنے کی بھی کوئی تدبیر نہیں کی گئی۔وید بھسین دونوں طرف کے لوگوں کے
درمیان رابطے کا ایک پل تھے۔ ان کی وفات سے آزاد کشمیر ومقبوضہ کشمیر میں
رابطے کا یہ پل ٹوٹ گیا ہے۔ان کے آبائو اجداد میر پور سے ہجرت کر کے جموں
میں جا بسے تھے تاہم ان کی روح آزاد کشمیر میں موجود تھی چنانچہ وہ آزاد
کشمیر آنے کے لیے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ وید جی کشمیر میں انگریزی
صحافت کے بانی بھی تھے ۔1955میں انہوںنے کشمیر ٹائمز شروع کیا۔ ۔اس کے
علاوہ وہ 1948سے 1958تک سندیش اور پھر 1958سے 1963تک کشمیر پوسٹ سرینگر کے
ایڈیٹر بھی رہے ۔وہ سیکولر ازم کے پیروکار تھے اپنی زندگی میں وید جی نے
انسانی اقداراور فرقہ وارانہ بھائی چارے کو ہمیشہ فروغ دیا۔ گوتم نو لکھا
ارن دھتی رائے کی طرح ان کی آواز بھی کشمیر بارے ایک اثر رکھتی تھی ۔ غلام
محمد صفی نے بتایا کہ وید بھسین کشمیر میں مسلح تحریک کے بھی حامی تھے ۔
وید بھسین سمجھتے تھے کہ 1989 کے انتخابات میں بھارت نے کشمیریوں کا حقیقی
مینڈیٹ چرا کر کشمیری نوجوانون کو خود ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔
ڈاکٹر فائی کہتے ہیںوید بھیسن کشمیر میں انسانی حقوق کے تحفظ اور کشمیریوں
کے حق خودارادیت کے علمبردار تھے۔ کشمیر امن کانفرنس میں شرکت کے لیے ایک
دفعہ امریکہ آئے تو ان کی ملاقات محکمہ خارجہ کے حکام سے ہوئی۔ وید بھیسن
نے امریکیوں کو بتایا کہ ہمیں تقسیم کشمیر کسی صورت قبول نہیں ہے۔ایل او سی
نے نہ صرف کشمیر کو تقسیم کررکھا ہے بلکہ کشمیری خاندانوں کو بھی تقسیم کر
رکھا ہے ۔
روا داری کی علامت ،اظہار رائے کی آزادی کے چیمپین وید جی کی آواز کی
خاموشی سے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیاہے۔آواز سے محروم عوام کے دوست کی اپنی
آواز خاموش ہوگئی ہے۔ اپنے خیالات لوگوں پر ٹھونسنے کے بجائے وید جی اپنے
اخبار میں ہر مکتبہ فکر کی آواز کو جگہ دیتے تھے اسی لیے وید جی کو جموں
کشمیر میں عوام کا رپورٹر (جنتا کا رپورٹر)بھی کہا جاتا تھا۔۔ہمارے مذہب سے
ان کا تعلق نہیں تھا تاہم وہ ریاست جموں وکشمیر میں مذہبی رواداری کے سب سے
بڑے علمبردار تھے۔جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں ایک دفعہ پاکستان کے دورہ
پر تشریف لائے تو میں نے وید جی کو اسلام آباد میں اپنے دفتر مدعو
کیا،مہمانوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام تو تھا ہی مگر ویج اور نان ویج کی
تمیز نہیں کی گئی تھی اس لیے کہ میرے ذہن میں اس طرح کے تنازعہ کاکوئی
امکان نہیں تھا۔کھانے کی میز پر چکن اور بیف کی موجودگی سے مجھے پریشانی
ہوئی ۔ ایک صاحب نے تو کہہ دیاکہ آپ کو خیال کرنا چاہیے تھا۔وید جی خاموشی
توڑتے ہوے بولے ، کوئی بات نہیں اگر ہم ان چھوٹی باتوں پر ناراض نہیں ہوتے
، اگر ناراض ہونے لگیں تو کیسے اکٹھے رہ سکیں گے؟ یہ کوئی ایشو نہیں ہے۔
میں یہی کھانا کھاوں گا۔وید جی سے نہ صرف مجھے حوصلہ ملا بلکہ ان کی
رواداری ہم سب کو حیران کر گئی ۔ ایک مرتبہ ان سے انٹرویو لینے گیا تو مذاق
میں کہنے لگے اردو میں انٹرویو لکھو گے تو میرا نام درست لکنا،، نکتہ نہ
ڈالا تو لوگ ،،بھینس ،، پڑھیں گے۔ |
|