اسلام پاکستان اور حکمران

سات دہائیاں ہونے کو ہیں مگر وطن عزیز سنبھل نہیں پارہا مسلسل ڈکیتوں کا راج اور عام آدمی کی تذلیل کیا یہ ہے وہ پاکستان جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور قائد اعظم نے جس کے حصول کیلئے دن رات جدوجہد کی کیا یہ اسلام کی تجربہ گاہ ہے !کرہ ارض پر اب تک صرف دو ایسی ریاستیں ہیں جو اسلام کے نام پر وجود میں آئیں‘ مدینہ کی ریاست اور پاکستان‘ مدینہ میں اس وقت بادشاہوں کا راج ہے طرز حکمرانی مثالی اور مکمل طور پر شرعی نہ سہی لیکن پاکستان سے کئی گنا ہ بہتر ‘پاکستان میں جمہوریت ہے شرعی لحاظ سے دیکھا جائے تو مکمل طور پر اسلام کے برعکس ‘اسلام جس کے بنیادی نظریات جیسے مساوات عام آدمی کو حقوق کی فراہمی ‘حقوق العباد ویگر پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں اور دوسری طرف جمہوریت ہے جو نام ہی بھس کاہے جمہوریت کی آڑ میں ہر جرم کیا جا رہا ہے ہر کوئی جمہوریت کے پیچھے چھپ کر اپنے مفادات کی تکمیل میں مصروف ہے کوئی زمینوں پر قبضے کر رہا ہے تو کوئی قتل عام کرا رہا ہے کسی نے تھا نے داروں کو سیاسی مخالفین کے پیچھے لگا رکھا ہے تو کوئی جاگیردار کے مظالم کو سہارا دے رہا ہے ‘جمہوریت کے ان اجارہ داروں نے عام آدمی پر عرصہ حیات تنگ کر کے رکھ دیا ‘ایک مدت سے نواز اور زردادی خاندان جمہوریت کیلئے ’’قر بانیاں‘‘ دے رہے ہیں یہ دونوں خاندان قومی مسائل پر کبھی اکٹھے نہیں ہوئے لیکن جب بھی ’’جمہوریت‘‘ کی بات آئی یہ دونوں مل کر بیٹھ گئے اب عام آدمی کے سامنے جب جمہوریت کی بات کی جاتی ہے تو اس کا خون کھولنے لگتا ہے عام آدمی حق بجانب ہے اگر دیکھا جائے تو کو ئی بھی جمہوری دور عام آدمی پر قیامت سے کم نہیں رہا زرداری ہو یا نواز دونوں نے ہی اس ملک پر بادشاہت کی اور عام آدمی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ‘ماضی کو بھول کر اگر ہم موجودہ ’’جمہوری‘‘ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو دود ھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا‘ نت نئے ٹیکسز کے ذریعے عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے ‘حصول انصاف عام آدمی کیلئے مشکل ترین کر دیا گیا‘مہنگائی نے غریب کو سر اٹھانے کے قابل نہ چھوڑا ‘نندی پور پروجیکٹ اور میٹرو بس منصوبے کی آڑ میں قو می خزانے کو جتنا نقصان پہنچا یا گیا شاہد ہی ماضی میں اسکی کوئی مثال ملتی ہو‘پٹواری اور پولیس کو جسطرح اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے اسکے بارے میں کیا کہنے یہ تو مسلم لیگ ن کا پراناطریقہ واردات ہے ‘بد اخلاقی اوربے حسی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ قانون شکن درندہ اور 20 قتل کے الزام کے بعد بھی رانا ثناء صوبائی وزیر پر ہے اربابِ اختیار شاہد یہ بھول گئے ہیں کہ اسلام تاریخ میں ایک خلیفہ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنے ایک گورنز کو محض اسلئے بر طرف کر دیا تھا کہ اس کے متعلق باریک کپڑے پہننے کی شکایت موصول ہوئی تھی ‘ ایک وہ خلیفہ تھے جو راتوں کو گلیوں میں گشت کر تے ‘ پیوند لگے موٹے کپڑے پہنتے‘عام آدمی کی طرح مدینہ کی گلیوں میں گھو متے ۔دوسری طرف یہ ہیں جو انسانیت پر دھبہ ہیں جو ذاتی مقا صد کو قومی مقاصد پر ترجیح دیتے ہیں ‘جن کے پیٹ بھرنے کا نام نہیں لے رہے‘انہوں نے اقتدار کو بھی کاروبار کی شکل دیدی جب کہ رسول ؐ کا فرمان ہے ’’کاروبار حکمرانوں کا کام نہیں‘‘حضرت ابو بکر خلیفہ بنے تو کپڑے کا کاروبار ترک کر کے ایک مزدور کے برابر اپنی اجرت مقرر کی تاریخ اسلام کا مشہور واقعہ ہے’’ حضرت عمر بن خطاب خلیفہ وقت ہیں گھر پہنچے تواہلخانہ نے عید کیلئے نئے کپڑوں کا مطالبہ کیا حضرت عمر پیسے نہ ہونے کاکہہ کر منع کر دیتے ہیں تو گھر والے ایک ماہ کی ایڈوانس تنخواہ لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ حضرت عمر خزانچی کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کر دیا خزانچی نے کہا اے عمر ۔اگر تو گارنٹی دے کے اگلے مہینے تک تو زندہ رہے گا تنخوا ہ لے جا اور حضرت عمر خالی ہاتھ گھر لوٹ آئے‘‘ کتنی ہی ایسی مثالیں ہیں جوحقیقی اسلامی ریاست کا نمونہ پیش کرتی ہیں بشرطیکہ کوئی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا خواہشمند ہو ‘ یہاں اقتدار حاصل کیا جاتا ہے پیٹ بھر نے کیلئے باپ کا پیٹ بھرتا نہیں کہ بیٹا ہو نٹوں پر زبان پھیرنا شروع کر دیتا ہے نسل در نسل یوں حکمرانی کی جا تی ہے جیسے عوام ان کی زرخرید غلام ہو۔کل تک آمریت کو کندھا دینے والے آج جمہوریت کے کے نعرے لگا رہے ہیں ‘ضیا ء الحق 17اگست1988ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے آپ 18اگست 1988ء کے اخبارات اٹھا کر نواز شریف کا بیان بڑھیں جس کا مفہوم یہ ہے ’’ضیاء الحق نے قوم کیلئے بے شمار قر بانیاں دیں قوم انکی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکے گی آج سے میری زندگی کا مقصد ضیاء الحق کے مشن کا آگے بڑھانا ہے‘ ‘آج انکا اوڑ ھنا بچھوڑنا جمہوریت ہے وہ جمہوریت اہل مغرب جس کے خالق ہیں چند بنیادی تبدیلیوں کے بغیر جسے ایک اسلامی ملک میں نافذ کیا ہی نہیں جاسکتاان تبدیلیوں کے بغیر یہ جمہوریت کفر کے مترادف ہے اس جمہوریت کہ مطابق دو تہائی اکثریت حاصل کر نے والی جماعت کوئی فیصلہ کر نے میں آزاد ہوتی ہے 19کروڑ لوگوں کے مستقبل کے بارے میں جو فیصلہ کر نا چاہے کر سکتی ہے جبکہ شریعت کیا ہے ایک بار رسولؐنے ازدواج مطہرات میں سے کسی سے فرمایا میں آئندہ شہد نہیں کھاؤ گا اسکے بعد یہ فر مان ِ الٰہی نازل ہو ا’’جس شے کو ہم نے حلال قرار دیا ہے تم اس سے انکار کیوں کر تے ہو‘‘ یہاں دو تہائی اکثریت حاصل کر نے والی جماعت کا لیڈر خلق خدا پر راج کرتا ہے جبکہ اسلامی اصولوں کے مطابق قوم کا حکمران قوم کا خادم ہوتا ہے ‘سود عام اور رشوت کو تو اب کو ئی برائی سمجھا ہی نہیں جاتا ‘انصاف میں امتیاز موجود ہے بڑے چوروں کو سپورٹ چھوٹے چوروں پر قانون آزمائی کی جاتی ہے یقینا یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا یاجس کے طلبگار قائد اعظم تھے ‘جس کے لئے قوم کی بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی اور جس کیلئے لاکھوں لوگوں نے جانیں قر بان کیں یہ حکمران ہر اس شخص کے مجرم ہیں جنہوں نے حصول پاکستان میں ذرا بھی قربانی دی وہ وقت دور نہیں جب حصول پاکستان کے وقت جانیں قربان کر نے والے چھ لاکھ لوگوں کے ہاتھ حکمرانوں کے گر یبانوں تک ہونگے ۔
Zulqarnain Bashir
About the Author: Zulqarnain Bashir Read More Articles by Zulqarnain Bashir: 16 Articles with 10556 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.