اِردوان کی فتح اور پاکستان کی مذہبی سیاست

ترک سیاست میں اسلام پسندوں کی پے در پے کامیابیوں نے دنیا بھر میں سیاسی جدو جہد کرنے والے اسلام پسندوں کے لیے قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔ حالیہ انتخابی نتائج سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بلاشرکت غیرے حکومت بنانے کی اہل ہوگئی ہے۔ طیب اردوان کی ”انصاف اور ترقی پارٹی“ نے انتہائی حکمت، تدبر اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے ترکی کی اسلامی شناخت کو کافی حد تک بحال کرنے میں کامیابی حاصل کی اور ترکی کو حقیقی معنوں میں ”مرد بیمار“ کی کیفیت سے نکال کر ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن کیا ہے۔ دس سال قبل ترکی کی مجموعی صورتحال معیاری نہ تھی، لیکن اب ترکی عرب ممالک کے نوجوانوں کے لیے مثال بنتا جا رہا ہے اور ایک سروے کے مطابق 75 فیصد عربوں کی رائے میں ترکی میں اسلام اور جمہوریت کے ملاپ کا کامیاب تجربہ ہوا ہے۔ طیب اردوان نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر حکمت عملی کے ساتھ مسلسل جدوجہد کی جائے تو عوام کے دلوں میں جگہ بنا کر کامیابی حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
اردوان کی اے کے پارٹی اگرچہ مکمل مثالی اسلامی جماعت نہیں ہے اور نہ ہی ترکی میں مثالی اسلامی نظام ہے، لیکن ماضی کے اسلام دشمن نظام کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ اگر اسلام پسند اسی طرح کامیابی کے سفر کو جاری رکھیں تو ایک دن موجودہ نظام میں اسلام سے متعلق پائے جانے والے تمام سقم دور ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کی اسلام پسند سیاسی مذہبی جماعتوں کو سبق سیکھنا چاہیے، وہ بھی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرسکتی ہیں۔ اے کے پی کی کامیابی میں عوام کی خدمت کا کردار نمایاں ہے، کیونکہ انہوں نے محض نعروں کی بجائے عوام کی خدمت کی بنیاد پر ووٹ حاصل کیا ہے۔ اے کے پارٹی نے سب سے پہلے بنیادی سطح پر عوام کی خدمت اور گلی محلے کے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کو اپنا نصب العین بنایا اور اپنی اہلیت، محنت، دیانت اور جذبہ ¿ خدمت کے باعث ترک عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کیں اور خود کو سیکولر سیاسی جماعتوں کے بہترین متبادل کے طور پر منوایا، اس کے بعد اے کے پارٹی کو مرکزی حکومت تک پہنچنے میں کوئی دقت درپیش نہیں ہوئی۔

طیب اردوان پہلی بار 1994ءمیںاستنبول شہر کے میئر منتخب ہوئے۔ انہوں نے آتے ہی میٹرو پولیٹن میونسپلٹی کا 2 ارب ڈالر کا قرض اتارا اورشہر کی ترقی پر 4 ارب ڈالر بھی خرچ کیے اور استنبول شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ استنبول شہر کو پانی کی شدید قلت کا سامنا تھا۔ سیکڑوں کلومیٹر نئی پائپ لائنیں بچھا کر گلی گلی اور گھر گھر تک پانی پہنچایا۔ گندگی اورکوڑا کرکٹ بھی استنبول کے دیرینہ مسائل میں سے ایک تھا۔ استنبول شہر کی گندگی کو ری سائیکلنگ کے پراسس سے گزارنے کا طریقہ متعارف کرایا، جس سے شہر صاف و شفاف ہو گیا۔ ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے لیے سڑکوں پر گیس سے چلنے والی ہزارہا نئی بسیں دوڑا دیں۔ شہر میں 50 نئے پل اور درجنوں نئی شاہراہیں بنا ئیں۔ استنبول کا حلیہ بدلا تو لوگوں کی زندگی میں سکون آ گیا۔ استنبول دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہونے لگا۔ استنبول کی تعمیر و ترقی کو دیکھ کر عوام نے طیب اردوان کو ترکی کے وزیراعظم کے طور پر آگے آنے کا مشورہ دیا اور 2002ءکے انتخابات میں کامیابی ان کے نام کردی۔

ان دنوں ترکی ایک اقتصادی بحران میں پھنس ہوا تھا اور لیرا کی قیمت انتہائی کم ہوگئی تھی۔ طیب اردوان نے ترکی کو اس بحران سے نکالنے کی ٹھانی اور کامیاب ٹھہرے۔ انہوں نے انتہائی دیانتداری اور محنت سے کام کیا اور آج ترکی کی معیشت کا شمار دنیا کی بہترین معیشتوں میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی قدر و منزلت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ 2007ءمیں پھر الیکشن ہوا تو قوم نے ایک بار پھر انہیں منتخب کرلیا۔ 2011ءمیں رجب طیب اردوان اپنے وژن، ملک و قوم کی خدمت کی وجہ سے تیسری بار ترکی کے وزیراعظم بنے اور گزشتہ سال طیب اردوان ترکی کے صدر بن گئے اور ان کی جماعت کی کامیابی کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

ترکی میں اسلام پسندوں کو کامیابی ملنے سے پاکستان کی تقریباً تمام اسلام پسند سیاسی جماعتوں کو خوشی ہوئی ہے۔ ترک حکومت پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ مذہب اور اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے ترکی اور پاکستان کے اسلام پسند کافی قریب ہیں۔ دونوں ممالک میں لوگ اسلامی سوچ، خیالات اورتعلیمات کے لحاظ سے کم و بیش ایک جیسے ہی نظریات رکھتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام مذہبی رواداری اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے چلے آئے ہیں، لیکن ترکی میں ملک کی کٹر سیکولر اور عالمی قوتوں سازشوں اوررکاوٹوں کے باوجود ”انصاف اور ترقی پارٹی“ کامیابیاں سمیٹ رہی ہے، جبکہ پاکستان میں اسلام پسند سیاسی جماعتوں کو ایک عرصے سے تمام تر کوششوں کے باوجود ایسی کامیابیاں نہیں مل سکیں۔ دراصل ہمارے ہاں اسلام پسند سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ نچلی سطح پر عوام اور ان کے مسائل سے تقریباً لاتعلق ہوتی ہیں اور صرف مسجد، مدارس اور جلسے جلوسوں تک محدود رہتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام ان کو عزت تو بہت زیادہ دیتے ہیں، لیکن ووٹ نہیں دیتے۔ عوام ووٹ ان کو ہی دیتے ہیں، جو عوام کے ساتھ گھل مل کر رہتے اور ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔
پاکستان میں مختلف مکاتب فکر کی چھوٹی بڑی کئی مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں، جن میں نظریاتی و مسلکی اختلاف پائے جانے کے باوجو دتمام جماعتوں کا دعویٰ ملک کو اسلامی نظام کے تابع کرنا ہی ہے۔ تمام جماعتیں معاشرے میں اچھا خاصا اثرورسوخ رکھتی ہیں۔ معاشرے میں مذہبی لوگوں کی انتہائی قدر کی جاتی ہے۔ اگر یہ تمام جماعتیں آپس میں دست و گریباں ہوکر ایک دوسرے کے مدمقابل الیکشن لڑنے کی بجائے متحد ہوکر جدوجہد کریں اور اے کے پارٹی کی طرح اپنے عمل سے یہ ثابت کریں کہ ملک کی مذہبی سیاسی جماعتیں بھی بہتر طریقے سے کام کرسکتی ہیں تو کامیابی ان کے قدم چوم سکتی ہے۔ اگر یہ جماعتیں متفقہ لائحہ عمل کے تحت عوام کے دلوں میں اپنی قدروقیمت پیدا کریں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ عوام انہیں مسترد کریں، کیونکہ عوام آج بھی سب سے زیادہ دیانت دار اور صالح مذہبی نمائندوں کو تصور کرتے ہیں۔

ترکی میں اسلام پسندوں کو زیادہ ووٹ ملنے کی وجہ سے نظریاتی بنیاد کی بجائے عوامی خدمت ہے اور پاکستان میں بھی لوگ ووٹ نظریاتی بنیاد پر نہیں ڈالتے، بلکہ عوام میں کیے گئے کاموں کی بنیاد پر ڈالتے ہیں۔ لوگ نظریات کی بنیاد پر جان تو دے دیتے ہیں لیکن ووٹ نہیں دیتے، کیونکہ ووٹ اس کا ہی حق ہوتا ہے جو ان کے مسائل حل کرے۔ اگر ہماری دینی جماعتیں خدمت کی سیاست کو اپنی اولین ترجیح بناکر عوامی مسائل کے حل کے لیے میدان میں اتر کر اپنی اہلیت ثابت کردیں تو ترکی کی طرح یہاں بھی اسلامی تشخص کے ساتھ وہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔ بصورت دیگر مزید طویل جدوجہد کے بعد بھی نتائج آج سے مختلف نہیں ہوں گے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632025 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.