علامہ اقبال ۔۔۔۔قرآن کا شاعر یا شاعروں کا قرآن

علامہ اقبال جیسے لوگ بلاشبہ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں مگر بحثیت شاعر کم کم ہی قدرت ایسے لوگ قوموں کو نوازا کرتی ہے۔اقبال ؒ کا اپنا کہنا ہے کہ میری شاعری قرآن سے ماخوذ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کا محورومرکز جسم نہیں روح ہے۔اس لیئے قبال کو شاعروں کا قرآن یا قرآن کا شاعر کہا جائے تو بجا نہ ہوگا۔ علامہ اقبالؒ کا اپنا کلام تو آٹھ دس کتابوں پر مشتمل ہے مگر ان پر لکھی گئی کتابیں آٹھارہ ہزار کے قریب ہیں اور یونیورسٹیز میں لکھے گئے تھیسز بھی بییسیوں کی تعداد میں ہیں۔

مجھے اپنی زندگی میں دو چیزوں نے بہت متاثر کیا قرآن اور اقبالؒ۔۔اقبالؒ اس لیئے کے ان کا ماخذ قرآن ہے۔ یہ دو نوں کلام میرے ہمیشہ سے توجہ کا مرکز رہے اور رہیں گے۔۔۔

علامہ اقبال کی شخصیت کو پروان چڑھانے کے سلسلے میں (قرآن کے حوالے سے ) عالم اسلام کے ممتاز عالم دین مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اپنی کتاب ’’نقوش اقبال‘‘ میں رقمطراز ہیں
’’اقبال کی شخصیت کو بنانے والا دوسرا عنصر وہ ہے جو آج ہر مسلمان گھر میں موجود ہے مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم، اس کے علم و حکمت سے بے بہرہ ہیں، میری مراد اس سے قرآن مجید ہے، اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب جس قدر اثرانداز ہوئی ہے اتنا نہ وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں اور نہ کسی کتاب نے ان پر ایسا اثر ڈالا ہے ....ان (اقبال) کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن مجید سے شغف، تعلق اور شعور و احساس کے ساتھ مطالعہ کا ذوق بہت زیادہ ہے۔ اقبال کا قرآن پڑھنا عام لوگوں کے پڑھنے سے بہت مختلف رہا ہے ‘‘۔

قرآن حکیم سے متعلق علامہ اقبال کے افکار، تصورات اور تخیلات کا اندازہ اس بات سے لگائیں ۔ کہ ان کی پرورش مذہبی ماحول میں ہوئی تھی۔ اپنے والد ماجد شیخ نور محمد کی مومنانہ اور متصوفانہ صفات اور اپنے استاذ مکرم مولانا میر حسن کی اسلامی اور اخلاقی تعلیم کے اثرات ابتدا سے ہی علامہ کے ذہن پر مرقسم ہوتے گئے۔ اس تربیت کا یہ نتیجہ تھا کہ علامہ اقبال اپنے والد ماجد کی اس نصیحت کو عمر بھر نہیں بھولے جو بچپن میں انہوں نے قرآن حکیم کو سمجھنے کے لئے اقبال کو کی تھی کہ ’’بیٹھے ! تم قرآن کی تلاوت اس طرح سے کرو جیسے یہ اس وقت تم پر نازل ہو رہا ہے ‘‘ جیسا کہ حکیم الامت علامہ اقبال کے درجہ ذیل شعر سے بھی ظاہر ہے
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

انھوں نے جا بجا اپنے کلام میں یہ فرمایا کہ ان کی بصیرت قرآن سے ماخوذ ہے۔

کتاب مبین سے علامہ اقبال کا رابطہ ظاہری نہیں بلکہ باطنی (intrinsic) تھا۔ اپنے مشہور زمانہ خطبات "The
Reconstruction of Religious Thought in Islam" کی شروعات قرآن مجید کے تعلق سے ہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یعنی قرآن پاک کا رجحان زیادہ تر اس طرف ہے کہ ’فکر‘ کے بجائے ’’عمل‘‘ پر زور دیا جائے۔ علامہ کے نزدیک ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ قرآن میں غوطہ زن ہو کر اپنے کردا رمیں جدت پیدا کرے چنانچہ فرماتے ہیں
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر
آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت او لایزال است و قدیم

اقبالؒ موجودہ مسلمانوں کی حالت زار کا بڑا سبب قرآن سے دوری کو قرار دیتے تھے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اسی قرآن میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مرد پرویں کا امیر

اقبال کو قرآن پاک سے عشق تھا چنانچہ ان کا تقریباً ہر شعرقرآن پاک کی کسی نہ کسی آیت سے منسوب ہے
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اِنَّ اللّٰہَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنفُسِہِمْ وإذَا أرَادَ اللّٰہُ بَقَوْمٍ سوئًا فَلاَ مردَّ لَہٗ ومَالَہُمْ مِنْ دُوْنہٖ مِن وَال (رعد:۱۱)
ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا:؎
اسے صبح ازل انکار کی جرات ہوئی کیوں کر
مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا

اس شعر میں اقبال نے مندرجہ ذیل آیات کی طرف اشارہ کیا ہے:
ـ’’اورجبآپکے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں لیس دار گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں، چنانچہ جب میں اسے بنا لوں اور اس میں روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سرنگوں ہوجائو۔ سو سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے اس سے انکارکیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو‘‘…؎
صبح ازل جو حسن ہوا دلستان عشق
آواز کن ہوئی تپش آموز جان عشق

مندرجہ بالا شعر میں اس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے: ’’وہ (اللہ تعالیٰ) جب کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے توہ اس کو کہہ دیتا ہے کہ ہوجا اور وہ ہو جاتی ہے‘‘

قرآن پاک کی ایک اور آیت ’’ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی چنانچہ ان سب نے اس سے انکار کیا کہ اسے اٹھائیں اور وہ اس سے خوفزدہ ہوئے اور انسان نے اسے اپنے ذمے لے لیا، بیشک وہ بڑا ظالم ہے بڑا جاہل ہے‘‘ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ …؎
میرے بگڑے ہوئے کاموں کو بنایا تو نے
بار جو مجھ سے نہ اٹھا، وہ اٹھایا تو نے

اسی آیت سے اقبال کا مندرجہ ذیل شعر بھی منسوب ہے …؎
سختیاں کرتا ہوں دل پر، غیر سے غافل ہوں میں
ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں، جاہل ہوں میں

عظمت آدم سے متعلق قرآنی آیت ’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی ہے اور ہم نے انہیں خشکی اور دریامیں سوار کیا اور ہم نے ان کو خوبصورت چیزیں عطا کیں اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر بڑی فضیلت دی ہے‘‘ کے حوالے سے اقبال کہتے ہیں …؎
جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیوں کر ہوا

ایک اور شعر میں علامہ اقبال دو مختلف آیات یعنی ’’ہم نے آپ کو کوثر عطاکی‘‘ اور ’’اس کی آمیزش تسنیم سے ہوگی وہ چشمہ جس سے مقرب بندے پئیں گے‘‘ دیتے ہوئے کہتے ہیں …؎
آتی ہے ندیٰ فراز کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی

تخلیق آدم کے حوالے سے قرآن پاک کی اس آیت ’’اور ہم نے کہا اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں جہاں سے چاہو خوب کھائو لیکن اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ تم گنہگاروں میں سے ہو جائو گے، پھر شیطان نے دونوں کو بہکایا اور اس درخت کے باعث جنت سے نکلوایا‘‘ کا احاطہ مندرجہ ذیل شعر میں کیا ہے …؎
شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو

اقبال نے قرآن پاک میں موجود پیغمروں کے ذکر کو بھی جابجا موضوع سخن بنایا ہے۔ مثلاًاس آیت ’’ ہم نے حکم دیا اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا، حق میں اور لوگوں نے انکے ساتھ برائی کرنا چاہی تھی لیکن ہم نے ان لوگوں کو ناکام کردیا‘‘ میں نمرود کی طرف سے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈالے جانے کے حوالے سے اقبال کا یہ شعر زبان زد عام ہے …؎
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

حضرت موسیٰ ؑ کے حوالے سے اس آیت ’’اور تم اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دے لو وہ بلا کسی عیب کے روشن ہوکر نکلے گا’’ کو موضوع سخن بناتے ہوئے اقبال کہتے ہیں …؎
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے اس آیت ’’اور جب موسیٰ ہمارے وقت پر آگئے اور ان سے ان کا پروردگار ہمکلام ہوا، موسیٰ بولے اے میرے پروردگار! مجھے اپنا جلوہ دکھا کہ میں تمہیں ایک نظر دیکھ لوں، اللہ نے فرمایا تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے‘‘ کے حوالے سے مندرجہ ذیل اشعار کہے ہیں …؎
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلہ کیوں کر ہوا؟
کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا
چھپایا نورازل زیر آستیں میں نے
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی

نبی آخرالزماں ﷺ کے سفر معراج کے بارے قرآنی آیت ’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی جانب‘‘ کے حوالے سے اقبال کا کہنا ہے …؎
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے افلاک

معراج النبی ﷺ کے حوالے سے ہی اس آیت ’’اور انہوں نے اس فرشتے (جبرائیل) کو ایک باراور بھی دیکھا ہے سدرہ المنتہیٰ کے قریب‘‘ کا احاطہ کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں …؎
تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائر سدرہ آشنا ہوں میں

الغرض اقبال کو قرآن و حدیث سے اس قدر عشق تھا کہ آخری ایام میں جب بیماری انتہا کو پہنچی ہوئی تھی تو کسی خوش الحان قاری کی زبانی تلاوت سن کر ان پر رقت و لرزش طاری ہوجاتی تھی۔

امت مسلماں کی زبوں حالی کسیسے ڈھکی چھپی نہیں۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کو بڑے پیمانے پر متعارف کروایا جائے۔ان کے کلام کو سکول اور کالجز کی ہر سطح پر شامل نصاب رکھاجائے۔دشمن کی سازش ہے کہ مسلمانوں کو دو چیزوں سے دور کر دو قرآن اور کلام اقبال۔۔۔۔اللہ کرے ہم میں سے کوئی ایسا ہو جو ان دونوں کلاموں کو رائج کرے۔
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
میرا عشق ،میری نظر بخش دے
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
 
Robina Shaheen
About the Author: Robina Shaheen Read More Articles by Robina Shaheen: 4 Articles with 14986 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.