وزیر اعظم ہندوستان نریندر
مودی نے 7نومبر2015ء کے دن سرینگر میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہو ئے جب سابق
وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ’’شاعرانہ الفاظ و محاورات‘‘کا سہارے لیتے
ہو ئے اسی ہزار کروڑ کے پیکیج کا اعلان کررہے تھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ
گویاانھیں ان کا ذہن و ضمیرکشمیر کے مخصوص مسائل کو لیکر کوس رہا ہے۔ سیاسی
اشوز پر جب ’’تبرکاََ کچھ کہنے‘‘کی کوشش کی توواجپائی جی کا وہی پرانا راگ
الاپا جس کے الفاظ بہت حسین مگر حقیقت انتہائی خونخواراور وحشت ناک یعنی
انسانیت،جمہوریت اور کشمیریت۔دورِ حاضر کے چنگیزوں نے مقدس الفاظ و
اصطلاحات کو بھی ناپاک کردیاہے۔ ان کے مفاہیم ہی تبدیل کردیئے گئے ہیں ۔المیہ
یہ ہے کہ کسی بھی زبان میں جب ظالم اپنے ظلم اور فساد کے دفاع کے لئے الفاظ
تلاش کرتا ہے تو وہ بھی ’’پیغمبروں اور صالحین‘‘سے کلمات و اصطلاحات مستعار
لیکر دُنیائے انسانیت کا منہ چڑھانے لگتے ہیں ۔دورِ حاضر کے فرعونوں نے
میڈیا پر قبضہ جمانے کے بعد ’’نبی کریمﷺ کے ارشادِ مبارک کے عین مطابق‘‘سچ
کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا دیا ہے ۔آپﷺ نے ایک طویل حدیث مبارک میں فرمایا
کہ اُس وقت آپ کا عمل کیا ہونا چاہیے’’جب معروف منکر اور منکر معروف بن
جائے گا‘‘()۔شریف انسا ن کا سر شرم سے جھک جاتا ہے جب وہ نیکی کا درس انہی
افراد سے سنتا ہے جن کی لغت میں نیکی بدی بن چکی ہے ۔
واجپائی جی کے مرید نریندر مودی جب اپنے ’’پیر و مرشد‘‘کا حوالہ دیکر
اہلیانِ کشمیر کو انسانیت کا درس دے رہے تھے تو 2002ء کی گجرات کے گلی
کوچوں میں خونِ مسلم کی ہولی کھیلتے ’’سنگھی سپاہیوں‘‘ کے غو ل بلا توقف
آنکھوں کے سامنے آ کر بہت دہر تک ٹھہر گئے ۔جو مسلمان لڑکیوں کو تلاش کرتے
ہو ئے گھر وں میں گھس کر پہلے ان کی اجتماعی آبروریزی کرتے تھے پھر ان کے
پیٹ چاک کرتے تھے۔ سنگھی نوجوانوں کا وہ جمِ غفیر جو ’’ممبر پارلیمنٹ جعفری
‘‘کے گھر کے باہر ان کوللکاررہا تھا اور وہ بے چارہ ’’دلی کی ایوانوں میں
فون لگاکر‘‘ یہ سمجھ رہا تھا کہ بھارت کے سیکو لر آئین کی وفاداری کا صلہ
مجھے آج ہی ملنے والا ہے اگر دلی کے دباؤ پر گجرات کی حکومت میرے تحفظ کے
لئے میدان میں نہیں کود پڑی تو دلی والے ’’فوج کی ایک کمپنی‘‘بھیج کر میرا
مکمل تحفظ کریں گے اور پھر دنیا نے گجرات کی سرزمین کے’’ان سنگھی ہیروز‘‘
کا ’’درسِ انسانیت ‘‘بھی سنا جو اپنے مشہور فلسفیوں سے باربار سن چکے تھے
کہ مسلمان کبھی وفادار نہیں ہوسکتا ہے ۔مظلوم جعفری صاحب کو جب سڑکوں پر
گھسیٹ کر تلواروں سے کاٹا جا رہا تھا تو کشمیر کی سر زمین پر آج انسانیت کا
درس دینے والے نریندر مودی تب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ۔جعفری کا جرم صرف
یہ تھا کہ اس نے نریندر مودی کے خلاف الیکشن لڑنے کا حوصلہ کیا تھا حالانکہ
اس کی مسلمانی اس کے لئے کوئی چھوٹا جرم نہیں تھا۔
سنگھ پریوار کے پروین توگڑیا نے پریس کانفرنس میں یہ کہتے ہو ئے معاملہ ہی
صاف کردیا کہ ’’میں مسلمانوں کو چتاونی دیتا ہوں کہ اگر وہ گجرات کو بھول
چکے ہیں تو(کم سے کم )مظفر نگر نہیں بھولے ہوں گے ‘‘۔کل تک لوگ مسلم کُش
فسادات کو فسادیوں کے نذر کر دتے ہو ئے سنگھ پریوار کو کلین چٹ دیتے تھے
مگر اب تو سنگھ پریوار کے بڑے بڑے لوگ خود ہی یہ کہتے ہیں کہ ہاں ہم ہی نے
یہ سب کچھ کیا ہے ۔پروین توگڑیا ہو یا نریندر مودی یا کشمیر اسمبلی کے
اسپیکر ان کی ذہنی ساخت ایک ہی ہے اور ان کے خیالات کا سر چشمہ ایک ہی ہے
یعنی ہندتوا کا احیاء ۔ایسے میں انہی حضرات کے منہ سے انسانیت کا درس سننا
ایک شرمناک عمل محسوس ہوتا ہے ۔نریندر مودی اور امت شاہ کی ترقی کا راز ہی
گجرات فساد ات ہیں یہ سنگھ پریوار کی آفر ہے کہ جو بھی ،جتنا بھی، اور جیسا
بھی مسلمانوں کا خون زیادہ بہا دے گا اس کو اسی مقدار سے حکومتی مناصب عطا
کر دیئے جائیں گے ۔نریندر مودی کی انسانیت کی ہمدردی اور غمخواری کی اگر چہ
بہترین مثال گجرات ہی ہے مگر حالیہ فسادات پر طویل خاموشی اور پھر سنگھ
پریوار کا میڈیا میں شرمناک دفاع بہت کچھ سمجھانے کے لئے کافی ہے اگر کوئی
کچھ سمجھنا چاہتا ہو تو؟ جہاں تک جمہوریت اور کشمیریت کے مشکوک الفاظ کا
تعلق ہے تو یہ بات بھی ہر عقل مند بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ کشمیریت شیو ازم
کے احیاء کا نیا چہرہ ہے ۔یہ لوگ کشمیریت کے ایجنڈے کی آڑ میں اصل میں
’’گھر واپسی‘‘کی مہم چلاتے ہیں مگر نام اس کا بہت حسین اور مبہم رکھتے ہیں
۔رہی’’ جمہوریت ‘‘یہ بے چاری کشمیر میں انجان اور ناواقف ہے ۔نہ اس کو یہاں
کو ئی جانتا ہے نہ ہی یہ کسی کو جانتی ہے ۔اور اگر جمہوریت ’’ہندنوازوں کی
مادی ترقی ‘‘ کا نام ہے تو پھر کشمیر میں اس کے جاننے والے دو ہی خاندان
اور ان کے چند مخصوص حواری ہیں ایک شیخ خاندان دوم مفتی خاندان۔
اقتصادی پیکیج کے اعلان کے چند ہی گھنٹے بعد نریندر مودی کی فوج نے ایک
معصوم کشمیری کی جان لیکر انسانیت اور کشمیریت کے حقیقت باور کرانے میں دیر
نہیں لگائی ۔ جمہوریت کا اس سے بڑا انوکھا باب اور کیا ہو سکتا ہے کہ بھارت
کشمیر میں اپنی مرضی کی جمہوریت مسلط کرنا چاہتا ہے ۔کشمیریوں کو بھارت نے
آج تک اس بات کی اجازت فراہم ہی نہیں کی کہ وہ جمہوریت کو اس کی اس شکل میں
دیکھیں جو صورت اس کی جموں و کشمیر سے باہر نظر آتی ہے، باوجود اس کے کہ یہ
جمہوریت آپ اپنی ذات میں بدترین شر ہے ۔کشمیریوں کی اکثریت اگر آزادی چاہتی
ہے تو بھارتی جمہوریت یہاں فوجی استبداد کا روپ دھار لیتی ہے اور اگر وہ
نریندر مودی اور ان کے حواریوں کو سپورٹ فراہم کرتی ہے تو پھر یہ ’’مہان
سیکولر بھارت کی مہان جمہوریت‘‘کہلاتی ہے ۔گوہر احمد ڈار کی شہادت کا سبب
صرف یہ ہے کہ وہ اُس جلوس میں شامل تھا جو نریندر مودی کو پُر امن طریقے پر
یہ بات بتانا چاہتے تھے کہ مودی جی کشمیر کو اقتصادی نہیں اُس سیاسی پکیج
کی ضرورت ہے جس کا وعدہ آپ کے حکمرانوں نے ساری دنیا کو گواہ بنا کراقوام
متحدہ میں کیا تھا ۔ یہ وعدہ کشمیریوں نے نہیں بلکہ اُن حکمرانوں نے کیا
تھا جو ساری دنیا میں جمہوریت اور عوامی خواہشات کے احترام کے جھوٹے دعوے
کرتے پھرتے ہیں ۔گوہر احمد ڈار کی شہادت کوئی پہلا سانحہ نہیں بلکہ کشمیر
کی سرزمین معصومین کے لہو سے لالہ زار ہو چکی ہے ۔حیف صد حیف یہ کہ وزیر
اعظم کے دورے اور اقتصادی پکیج کے اعلان کے روز بھی ایک ایسے معصوم نوجوان
کو قتل کردیا گیا جس کا جرم صرف کشمیری مسلمان ہونا ہے ۔کشمیریت ،انسانیت
اور جمہوریت کے علمبرداروں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کشمیریوں کے
قاتل ان کے ہمدرد نہیں ہو سکتے ہیں ۔خون بہانے اور مرہم لگانے والے ایک
جیسے نہیں ہوتے ہیں۔ نہ ہی محبت اور نفرت کا مظہر ایک ہی ہوتا ہے ۔کشمیری
ماؤں کی گود اجھاڑنے والوں اور بے زبان بچوں کو ابدی یتیمی کے غار میں
دھکیلنے والوں کے منہ سے شرافت کے بول اچھے نہیں لگتے ہیں ۔کشمیریوں میں بے
شک کچھ بے ضمیر لوگ موجودہیں اوریہ اقلیت ہر قوم اور تحریک میں نظر آتی ہے
سچائی یہ ہے کہ پکیج کے باوجود کشمیر یوں کے دل سے اپنا دین اور اپنی تہذیب
محو نہیں ہوسکتی ہے ۔چند نعرہ بازوں کی شور شرابے کو اپنی تائید سمجھنا
حماقت ہے اگر ایسا ہی تھا تو گیلانی صاحب کو ریلی نکالنے کی اجازت دیکر
دیکھا جا سکتا تھا کہ لوگ کس کے ساتھ ہیں ؟۔تماشوں سے تحریکیں نہیں مٹتی
ہیں ۔جو قوم گذشتہ تین صدیوں سے آزادی کو سینے سے لگائی بیٹھی ہو اس کو چند
روپوں کے عوض خریدا نہیں جا سکتا ہے اور پھر جب گوہر جیسے معصومین کا لہو
سڑکوں پر بہایا جاتا ہوتو قوم کی نگاہوں میں پیسے کی قدر و قیمت گٹھ جاتی
ہے ۔ |