یہ ملک لبرل جمہوریہ نہیں ،اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے
(Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed, Karachi)
کل تک جو لوگ پاکستان کو اسلام
کا قلعہ قرار دیتے تھے آج ایسا کیا ہوا کہ وہ ہی لوگ پاکستان کے عوام سے
کہہ رہے ہیں تمہارا مستقبل اور تمہارا مقدر ننگی بوچی لبر ل جمہوریت میں
ہے۔آج کے حکمران چند بے منزل لوگوں کے پھسلائے میں آکر اسلامی جمہوریہِ
پاکستان کو سیکولرزم اور لبرلیزم کی آماج گاہ بنانے کی منصوبہ بندی مغرب کے
ایجنڈے کی تکمیل میں کیا چاہتے ہیں۔عام تصور لوگوں کا یہ ہی ہے کہ سیاست
دان چاہے کوئی بھی ہو دودھ کا دھلا کوئی بھی نہیں ہے۔کو ئی پورا ملک لوٹ کر
بھاگ جاتا ہے تو کوئی حصے بخروں میں میرے وطن میں لوُ ٹ کھسوٹ کرتا ہے۔اپنے
اپنے انداز کی لوٹ کھسوٹ نے ہمارے حکمرانوں کی ٹون میں تبدیلی پیدا کر دی
ہے۔یہ لو گ اس ملک کو اسلامی جمہوریہ اگر تسلیم کر لیں گے تو انہیں لوگ
خُلفائے راشدین کے کر دار کا حوالہ دے کر ان کی بد دیانتیوں کا راستے روکیں
گے۔ جس سے مغرب کی ننگ دھڑنگ پیروی کا ان کا ایجنڈا متاثر ہوگا۔
کل تک جو لوگ پاکستان کو اسلامی جمہوریِ پاکستان دیکھنا چاہتے تھے ۔آج
اُنہیں اسلامی جہموریہ کا لفظ ہی چُبھ رہا ہے اور آج یہ لوگ پاکستان کے
ساتھ’’ اسلامی جمہوری پاکستان ‘‘کی بجائے جمہوری لبرل پاکستان کہنے میں فخر
محسوس کر رہے ہیں․․․․کونسی گیدڑ سنگھی امریکیوں نے انہیں سونگھائی ہے کہ ان
کے حواس ہی ٹھکانے نہیں رہے ہیں۔ جو لوگ اسلام کے نام پر کام کرنے میں فخر
محسوس کرتے تھے آج وہ اس سے برگشتہ ہوچکے ہیں۔یہ لوگ پاکستان کو لبرل و
سیکولرپاکستان کو پکارنے میں سب سے آگے دکھائی دے رہے ہیں۔جس کا ایجنڈا
پاکستانی قوم کی سمجھ سے باہر ہے۔
اسلامی اذہان کے لوگ یہ بات آج ہی ذہن نشین کر لیں کہ ایکدن ایسا بھی اس
ملک کی تاریخ میں شائدآنے کو ہے کہ مسجدوں میں نمازیں پڑھنے والوں کو بھی
سر چڑھے ادارے کھینچ کھینچ کر باہر پھنکنے میں بھی کوئی تکلیف محسوس نہیں
کریں گے۔بلکہ اذان و نماز کی صدا لگانے والوں کا ٹھکانہ جیلوں کی کال
کوٹھڑیاں ہونگی۔جو کچھ اہلِ پاکستان کے ساتھ ہونے جارہا ہے۔مصرکا موجودہ
نظام اس بات کا غماض ہے ۔کیا ان لوگوں کو یہ یاد نہیں جب تحریکِ پاکستان چل
رہی تھی تو پاکستان کے بنانے اور ان کی پیروی کرنے والوں کا صرف ایک ہی
نعرہ تھا ’’ بٹ کے رہے گا ہندوستان ،بن کے رہے گا پاکستان،پاکستان کا مطلب
کیا لااِﷲَ اِلاﷲ‘‘ قائد اعظم محمد علی جناح اگر لِبرل یا سیکولر رہنا
چاہتے تو وہ کانگرس کو جو سیکولر جماعت ہی تھی کیونکر چھوڑتے؟ اور اسلام کا
نعرہ لے کر کیونکر آگے بڑھتے؟
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس نے بھی پاکستان میں اسلام کے تشخص کو پامال
کیا وہ نہ تو دنیا میں سُرخ رو رہے گا اور نہ آخرت میں اُسے جائے پناہ ملے
گی۔ہمارے اداروں کو بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ ’’ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو
مٹ جاتا ہے لہو پھر لہو ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا‘‘پاکستان سے اگر اسلام کو
دیس نکالا دینے کا کسی کا خواب ہے تو وہ ایسا کر نہیں سکے گا۔اگر بہانے
بہانے سے اسلام کے چاہنے والوں کو ظلم کی چکی میں پیسا جاتا رہا تو وہ لوگ
جان لیں کہ ہر فراعون کے لئے ربِ کائنات نے موسیٰ کو پیدا کیا ہوتا ہے۔آج
اسلامی ریاست پاکستان کے محترم وزیرِ اعظم کی زبان سے سیکولرزم کا نعر ہ
سُن کر قوم حیرانی کا شکار ہے جو ماضی میں اسلامی ذہنیت رکھنے والیانسان سے
تو ویسے بھی اس نعرے کو افسوس کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔
پیپلز پارٹی بائیں بازو کی جماعت رہی ہے ۔مگر ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر
بے نظیر اور بعد کی قیادتوں تک نے کبھی پاکستان کو لبرل یا سیکولر نہیں
کہا!!!وزیر اعظم کو شائد علم ہے سیکولر و لبرل تو ہندوستان اپنے آپ کو کہتا
ہے مگر وہ بھی سیکولر یا لبرل موجودہ دور میں نہیں رہا وہ بھی آج ہندو
مذہبی ریاست کے طور پر اپنے آپ کو منوانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔قوم
سمجھ رہی ہے آج آپ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر مغرب
کی زبان بول کر شائد اپنے اقتدار کی وسعت میں اضافے کی سوچ لے کر یہ زبان
استعمال کر رہے ہیں۔مگر ہم آپ سے دست بدستہ گذارش کرتے ہیں کہ خدارا
پاکستان کے تشخُص کو پامال مت کیجئے!!!ہندوستانی تو پہلے ہی کہتے رہے ہیں
کہ ’’ہم نے دو قومی نظریئے کو اپنے پیروں تلے روند دیا ہے‘‘ہم تو آپ کو دو
قومی نظریئے کے ضامن کے طور پر دیکھتے تھے قوم کا یہ گمان تھا کہ آپ تو
کمازکم پاکستان کو اس کے ٹریک سے آؤٹ نہیں کریں گے۔مگر آپ بھی؟؟؟سرمایہ کری
کے کانفرنس کے افتتاحی خطاب میں آپ کے خیالات سُن کر قوم کو بے حد افسوس
ہوا ہے۔معاشی مفاد کیلئے خدارا قومی مفادات کو نُقصان مت پہنچائیے․․․․یہ
قوم مزید دھچکے برداشت کرنے کی اہل نہیں رہی ہے۔شائد اسکی وجہ طاہر القادری
کی آپ سے اور آپ کے خاندان سے بیوفائی ہے۔مگر میرے محترم اُس مؤزن کو آپ ہی
نے تو عالم نہ ہوتے ہوے عالم دین کے طور پر پیش کیا تھا۔اس ملک میں وہ لوگ
جن کا پیشہ ہی جھوٹ بولنا ہے وہ دینی پیشوا بنیں گے تو قوم کا شیرازہ تو
منتشر ہوگاہی نا!!!یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب ہم ببول بوئیں گے تو کانٹے
ہی ہمار مقدر بنیں گے کوئی پھولوں کی فصل نہیں کاٹیں گے۔مگر اس کا یہ مطلب
ہر گز نہیں کہ آپ قائد اعظم کے اسلامی جمہوریہ کو کسی اور نام سے پکارنے لگ
جائیں۔یعنی پاکستان کو جمہوری لبرل ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے متعارف
کرائیں․․․
وزیر اعظم صاحب اگر عمران خان اپنے موجودہ سیاسی کر دار کے حولے سے لبرل یا
سیکولر ہونے کا دعویٰ کریں تو سجے گا۔مگر آپکی سیاست کی ابتداء تو اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے نام پر ہوئی تھی جس کی تفصیل میں جانے کا موقعہ نہیں
ہے۔جب آپ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ تھے تو آپ سب سے بڑے اسلام پسند ہوا کرتے
تھے لگتا یوں ہے کہ کچھ ادارے امریکہ کی آشیر واد سے شائد اسلامی نواز شریف
کو لبرل نواز شریف بنا چکے ہیں۔آپ سے صرف اتنی درخوست ہے کہ قائد اعظم کا
کوئی ایک قول قوم کو بتا دیں جس میں اُنہوں پاکستان کو اسلام سے ہٹ کر کسی
اور جانب جانے کا اشارہ تک دیا ہو؟
آپ کے دور کی یہ بد قسمتی ہے کہ نظریہ اسلام اور نظریہ ِپاکستان سے متعلق
مضامین تک کو اکژر اداروں سے غیر قانونی طور پر دیس نکالا دیا جا چکا ہے۔پی
ایم ڈی سی جیسے لبرلوں کے ادراے نے ان مضامین کو آئینِ پاکستان کی خلاف
ورزی کرتے ہوے اپنے اداروں سے دیس نکالا ،شائد نئے لبرل وزیرِ اعظم کے
روئیے کو دیکھتے ہوے ہی دیدیا ہے اور افسوس نام بات یہ ہے کہ سُپریم کورٹ
آف پاکستان نے بھی اس غیر قانونی عمل پر آج تک سو موٹو ایکشن نہیں لیا
ہے۔لگتا یوں ہے کہ اسلام اور نظریہِ پاکستان سے پاکستان کے تمام ہی ادارے
اور شائد اہم شخصیات اُکتاہٹ کا شکار ہیں۔وزیر اعظم صاحب کو خبر ہو کہ یہ
ملک جمہوری اور لبرل ریاست نہیں ہے ۔بلکہ اسلامی جمہوری ریاست ہے․․․․․ |
|