جیت کس کی عوام، نواز شریف یا شہباز شریف کی؟؟

 پنجاب اورسندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ لڑائی ، جھگڑے مار دھاڑ، دھاندلی کے نعروں سے مکمل ہوا۔ انتخابات میں روایتی سیاست کے سارے رنگ نظر آئے کئی مقامات پر پولنگ کے دوران بد انتظامی اور گرماگرمی دیکھنے کو ملی اسی طرح بیلٹ پیپرز پر غلط انتخابی نشان بھی الیکشن کمیشن کی نااہلی کامنہ چڑاتے نظر آئے۔ پنجاب اورسندھ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر امن وامان کے حوالے سے پہلے ہی تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا ایسے میں سکیورٹی کے عمدہ انتظامات کا دعوی کیا گیا مگر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ پاکستان میں برداشت اورتحمل کی سیاست ناپید ہوچکی ہے اسی لئے تو بلدیاتی انتظامات میں مفادات عروج پررہے کہیں پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ فنکشنل کے کارکنوں کے درمیان فائرنگ ہوئی اور 11 شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو کہیں (ن) لیگ اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے آمنے سامنے نظر آئیں تاہم یہ امر قابل ذکر ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا اسی لئے کہا جا رہا کہ ٹرن آؤٹ50 فیصد سے زیادہ ریکارڈ ہوا جو ایک حوصلہ افزاء امر ہے عوام کا اپنے حقوق کے لیے باہر نکلنا خوش آئند ہے کہ وہ اب تنگ نظر سیاست سے بیزار ہوچکے ہیں پاکستانی قوم میں اب یہ شعور اجاگر ہوچکا ہے کہ انہیں اپنی قسمت خود بدلنے کیلئے کوششیں کرنا ہوں گی ۔ویسے توا بھی 10سال کے طویل عرصے بعد دو بڑے صوبوں میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ طے ہوا ہے اگر یہ دونوں صوبوں کے تمام اضلاع میں بیک وقت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوتا تو صوبوں کے میدان جنگ بن جانے کے خدشے کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا ۔بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں عدم برداشت کا کلچر اس حدتک فروغ پاچکا ہے کہ معاملات کہیں بھی سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہے اگر یہاں عوام کی بات کی جائے تووہ اپنے حالات سے اس قدر تنگ اورنالاں نظر آتے ہیں کہ انہیں سوائے اپنے کوئی دوسرا نظر ہی نہیں آتا اسی طرح اگر حکمرانوں کے طرز عمل پر نگا ہ ڈالی جائے تو وہ تو سرے سے ہی اپنے مفادات کی فکر میں %100 مگن نظر آتے ہیں اسی لیے انتخابات کے روز سینکڑوں بے ضابطگیاں دیکھنے میں آئیں اگر چہ میڈیا پر اس قسم کی خبریں رپورٹ ہونے کے بعد الیکشن کمیشن حرکت میں آیا مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی اتھارٹی کو منوانے میں تاحال ناکا م کیوں ہے 20ویں آئینی ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن کو ایک خودمختار ٗ غیر جانبدار اور مضبوط ادار ے کے طور پر سامنے آنا چاہیے تھا مگر تا حال عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام نظر آتا ہے اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ پرامن انتخابات کا انعقاد الیکشن کمشن ٗحکومت پاکستان اور سکیورٹی اداروں کی مشترکہ ذمہ داری ہوتی ہے لیکن رانی پور اور جیکب آباد جیسے واقعات کو ذاتی دشمنی کا نام دے کر کب تک دبانے کی روایت پر عمل کیا جاتا رہے گا ۔پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں جمہور یت مضبوط ہونے کے دعوے حکومتوں کی جانب سے شروع دن سے کئے جارہے ہیں لیکن اس کے بر عکس حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں تا حال حقیقی جمہوریت نام کی چیز ہی کبھی عوام کو نظر نہیں آئی اسی لئے عوام کا مزاج بھی جمہوری نہیں ہے اسی لئے عدم برداشت جیسے رویے انتہائی مضبو ط ہوچکے ہیں ۔برداشت ٗ تحمل اور صبر کے فقدان کی زندہ مثال حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے جہاں نہ صرف ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائی گئیں بلکہ اوکاڑہ میں تو ووٹ کے تقدس کی پامالی کی ایک انوکھی مثال اس وقت قائم ہوئی جب ایک نامعلو م شخص نے پولنگ ختم ہونے کے فوراً بعد بیلٹ باکس اٹھا کر سڑک پر پھینک دیا اسی طرح حریف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے پولنگ سٹیشنز کو اکھاڑ بنائے رکھا ۔دوسری طرف ہمارے سیاسی رہنماؤں کے وہی پرانے روایتی بیان سامنے آئے۔وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیاب ہونے والے مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی تاریخی فتح سے دھاندلی کے الزامات لگانیوالوں کے منہ بند ہوگئے وزیراعلی نے کہاکہ عوام نے ایک بار پھر عام انتخابات میں نام نہاد دھاندلی کا واویلا کرنے والوں کو آئینہ دکھا دیا اﷲ تعالی کے فضل و کرم اور عوام کی بے پناہ محبت سے مسلم لیگ ن کے امید واروں نے بلدیاتی الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے خدمت ، امانت ،دیانت اور شفا فیت کی سیاسست کی جیت ہوئی ہے الزام تراشی اور منفی سیاست کرنے والوں کو عوام نے بری طرح رد کردیا ہے مسلم لیگ ن کی شاندار جیت نے ثابت کردیا ہے کہ عوام پارٹی قیادت سے والہانہ محبت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے امید واروں کی بڑی تعداد میں کامیابی ثابت کرتی ہے کہ عوام وزیر اعظم میاں نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کی پالیسیوں کا تسلسل چاہتے ہیں عوام نے کامیاب ہونے والے امیدواروں پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ اس پر پورا اتریں ۔دوسری طرف شکست نے تحریک انصاف کی تنظیمی ساکھ کی جڑیں ہلا دیں بلدیاتی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو بدترین شکست ، دھڑے بندیوں اورٹکٹوں کی غلط تقسیم یا پھر منصوبہ سازی کافقدان نام کوئی بھی دیں بہر حال پی ٹی آئی بری طرح ہار گئی جس کے بعد آرگنائزر لاہو ر شفقت محمو د مستعفی ، آر گنائزر پنجاب چوہدری سرور کا ستارہ بھی گردش میں آگیا۔ بلدیاتی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب اوربالخصوص لاہور میں انتہائی مایوس کن کارکردگی نے پی ٹی آئی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا لاہور میں تنظیمی ساکھ کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں 2013ء کے عام انتخابات کے بعد سے پارٹی میں دھڑے بندیا ں اور پھر بلدیاتی انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم عبرتناک شکست کا باعث بنی ۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین اورسابق صدر آصف علی زرداری نے سندھ اورپنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیاب ہونے والوں کو مبارکباد دی اور کہا کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کی جانب ایک قدم ہے انہوں نے پیپلز پارٹی کے منتخب ہونے والے امیدواروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ پیپلز پارٹی کے بارے میں ایسے تبصرے کررہے تھے کہ پارٹی کی صورتحال نہایت خراب ہے اور پارٹی ختم ہوگئی ہے ان کی سار ی پیش گوئیاں خاک میں مل گئی ہیں ۔قارئین کرام بلدیاتی ادارے جن کے لیے انتخابات ہوئے ہیں ان کی حیثیت محض نمائشی و آرائشی ہے کیو نکہ مقامی مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس کوئی خاص اختیا ر نہیں ہوں گے یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ فوجی اور آمرانہ ادوار میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوتے رہے اورانہیں مقامی سطح پر مسائل کے حل کے لیے اچھے خاصے اختیارات بھی حاصل تھے ایوب خان کے بنیادی جمہوریتوں کے نظام نے نکاح ، طلاق ، پیدائش ، اموات اورلین دین کے چھوٹے چھوٹے تنازعا ت کے لیے لوگوں کو تھانہ کچہریوں میں دھکے کھانے سے بڑی حد تک نجات دلا دی تھی۔ پرویزمشرف دور کے بلدیاتی ادارے اس لحاظ سے منفرد تھے کہ انہیں بیورو کریسی پربالا دستی حاصل تھی ضلع ناظم بڑے وسیع اختیارات کے حامل تھے اور اس دو رمیں با صلاحیت ، دیانتدار اور عوام دوست ضلع ناظموں نے عوامی خدمت او رتعمیر و ترقی کے شعبے میں ناقابل فراموش کارنامے سرانجام دیئے دراصل فوجی حکومتیں کسی نہ کسی حد تک عوام کو اقتدار میں شریک رکھنے کے قائل تھی جبکہ جمہور ی حکومتیں عوام کو اقتدار میں شریک کرنے سے خوفزدہ رہتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے ارکان بلدیاتی اداروں کے ارکان کو حریف سمجھنے لگتے ہیں کیونکہ ان کی موجودگی میں انہیں ترقیاتی فنڈز سے محروم ہونا پڑتا ہے یا اس میں انہیں شریک کرنا پڑتا ہے یوں وہ بلدیاتی اداروں کے ارکان کو اپنی مقبولیت بلکہ اپنی چودھراہٹ کے لیے چیلنج سمجھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی چار دفعہ اقتدار میں آئی لیکن ایک دفعہ بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے مسلم لیگ ن نے بھی اپنے اقتدار کے تین ادوار میں اب بمشکل دوسری دفعہ الیکشن کرائے مشرف دور کے بلدیاتی ادارے ، 2009ء میں پیپلز پارٹی کے دورمیں معطل کر دئیے گئے تھے اصولا اس وقت نئے سرے سے انتخابات ہونا چاہئیے تھے لیکن پی پی پی حکومت نے اپنی آئینی مدت توپور ی کرلی لیکن بلدیاتی انتخابات نہ کرائے2013 ء کے عام انتخابات کو ڈھائی سال ہونے والے ہیں اب جاکر ، سندھ اور پنجاب میں لوکل باڈیز کے انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا وہ بھی اعلی عدلیہ کی بار ہا مداخلت کے بعد ورنہ ہمارے نام نہاد سیاستدان اس میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے عوام اور سیاسی جماعتیں سب سے پہلے یہ طے کرلیں کہ وہ وطن عزیز میں جمہوریت کو فروغ دینا چاہتے ہیں یا نہیں کیونکہ بلدیاتی انتخابات میں لڑائی جھگڑے کے جو مکروہ مناظر دیکھنے کو ملے اس کے باعث انتخابی عمل تو سرے سے سکیورٹی رسک ہی نظر آتا ہے۔البتہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ جمہور یت کے نام پر لڑائی جھگڑوں ٗعدم برداشت کے رویوں کو فروغ دیا جائے اس حوالے سے سیاسی جماعتیں بھی خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتیں کیونکہ کارکنوں کی تربیت سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے یہ سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کوآزاد ی اظہار کے احترام کا درس دیں اور ووٹ کے تقدس کو پامال ہونے سے بچانے کے لیے آگے آئیں اسی طرح امید واروں ٗ چاہے وہ جیتنے والا ہو یا ہار نے والا دونوں کو اپنے جذبات پر کنٹرول کرنا چاہیے کیونکہ اگر پاکستا ن میں جمہوریت کو چلانا مقصود ہے تو عدم برداشت کے رویوں کو ختم کرنا ہوگا یہی وقت کاتقاضا ہے ۔
Hafiz Ishaq Jilani
About the Author: Hafiz Ishaq Jilani Read More Articles by Hafiz Ishaq Jilani: 19 Articles with 19336 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.