عوام کی حکمرانی کا خواب
(Sarwar Sidduiqi, Lahore)
بلدیاتی انتخابات بھی کیسے
الیکشن تھے بکری جیسے امیدواروں کو ن لیگ کا ٹکٹ ملا تو وہ بھی شیر بن گئے
تحریک ِ انصاف کے بلندوبانگ دعوے سب ہوا ہوگئے اور ہرطرف شیر ۔۔شیرہوگئی
لاہورمیں شیرکا نشان ملنے کے باوجود الیکشن ہارجانے والا بدقسمت ٹھہرا ملک
میں پہلی بار جماعتی بنیادوں پر ہونے والے لوکل باڈیز الیکشن میں شیرکا
نشان انتہائی اہمیت کا حامل رہا عوام نے یہ نہیں دیکھا امیدوارکون ہے دھرا
دھڑ شیرکے نشان پر مہر لگاکر فتح سے ہمکنارکیا اتنے ووٹ ملنے کی امید
امیدواروں کو کیا خود حکومت کو بھی نہیں تھی جو پابندی کے باوجود گلی محلوں
میں ترقیاتی کام تواتر سے کرواتی رہی اس الیکشن میں سب سے براحال تحریک ِ
انصاف کے امیدواروں کا ہوا جو زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے ویسے
ایک بات ہے تحریک ِ انصاف کی انتخابی کمپین میں شور و غوغا بہت ہوتاہے جب
رزلٹ آتا ہے تو ٹائیں ٹائیں فش ۔جیسا معاملہ ہوجاتاہے یہ بھی شنیدہے کہ
بلدیاتی انتخابات میں لاہور میں تحریک ِ انصاف کی بدترین شکست پر ابھی تک
سیاسی مبصرین تبصرے کررہے ہیں جبکہ درجنوں امیدوار سکتے کی کیفیت سے باہر
نہیں نکلےPTIکے اکثرو بیشتر امیدوار اس شکست کی ذمہ داری عمران خان کی طرف
سے ریحام خان کو طلاق دئیے جانے پر ڈال رہے ہیں یہ بات کسی حدتک سچ بھی ہے
بلدیاتی انتخابات کے کلائمیکس پر اچانک ریحام خان کو طلاق دینے کی خبرنے
بجلی گرادی خصوصاً خواتین نےPTIکے امیدواروں کو ووٹ نہیں دئیے جس سے
انتخابی صورت ِ حال کا پانسہ پلٹ گیاجبکہ تحریک ِ انصاف اور پیپلزپارٹی کا
صفایا ہونے کی کیفیت نظر آئی لاہورمیں274یونین کونسلوں کے الیکشن میں تحریک
ِ انصاف کے12 چیئرمین کا جیتنا کوئی کارکردگی نہیں پھر بھی نتائج کے اعتبار
سے تحریک ِ انصاف دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے یارلوگ اس بات کو دل کی
بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ۔۔۔سے تعبیرکررہے ہیں۔۔۔ حالانکہ بلدیاتی
انتخابات کے آغازہی سےPTIکی جانب سے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے رہے مسلم
لیگ ن کے بعد اور آزاد امیدوار بھی کافی تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں جس سے
تحریک ِ انصاف اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں پر مایوسی چھا گئی پیپلزپارٹی
تو پہلے ہی مشکل میں تھی رہی سہی کثر بلدیاتی انتخابات میں پوری ہوگئی صرف
لکھوڈیئر سے اکلوتا چیئرمین کامیاب ہوا یہ کتنے تعجب،شرمندگی اورمکافات کی
بات ہے کہ بھٹو کی پارٹی کو لاہورمیں بلدیاتی امیدوار بھی نہ مل سکے۔۔جیالے
لیڈروں نے بھی کوئی خاص تردد نہیں کیا کہ پارٹی فنڈز سے ہی امیدواروں کو
کھڑاکردیا جاتا۔۔اس بلدیاتی انتخابات کی دو اہم خصوصیات ہیں اولاً یہ کہ
ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کروائے ماضی
میں فقط ڈکٹیٹروں نے بنیادی جمہوریت کوفوقیت دیتے ہوئے لوکل باڈیز الیکشن
کروانے میں دلچسپی لی۔ثانیاً پہلی بارہی جماعتی بنیادوں پر الیکشن ہوئے
حالانکہ جب بھی گلی محلوں میں ووٹ پڑے اس میں سیاسی جماعتیں ہر لحاظ سے’’
ملوث‘‘ ہوتی رہیں۔۔ امیدواروں کوباقاعدہ ٹکٹیں دی جاتیں۔۔سیاسی رہنما جلسوں
میں تقریریں کرنے کاشوق بھی پورا کرلیتے بہرحال اچھاہواحکومت نے پہلی
بارسہی جماعتی بنیادوں پر الیکشن کروائے اس سے کم ازکم یہ منافقت تو دور
ہوگئی۔۔۔ پاکستان میں سیاسی حکومتیں فقط نام کی جمہوری حکومتیں ہیں کوئی
بڑے سے بڑا طرم خان قسم کا سیاستدان بھی اپنے پارٹی لیڈر کے مزاج کے خلاف
بات کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا ہمارے ملک میں اس قسم کی جمہوریت بھی بس
غنیمت ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی حکومت بلدیاتی انتخابات کروائے نہ کروائے کوئی
نہیں بولتا۔۔جو بولنے کی کوشش کرے اس کی بولتی بند ہوجاتی ہے جس طرح دوسال
سے شیخ رشید کی نشست کا پارلیمنٹ ہاؤس میں سپیکر بندہے۔۔جمہوری حکومتیں سرے
سے بلدیاتی انتخابات کرواناہی نہیں چاہتیں اس کی کئی وجوہات ہیں۔۔۔ ایک تو
بڑی وجہ یہ ہے کہ ارکان ِ اسمبلی ہی نہیں چاہتے کہ بنیادی جمہوریت بحال ہو
پوری دنیا میں قومی وصوبائی اسمبلیاں اور سینٹ قانون سازی کے ا دارے سمجھے
جاتے ہیں یہاں ارکان ِ اسمبلی گلیوں،نالیوں کے کام کروانے کوہی منتخب ہونے
کا فرض سمجھ لیتے ہیں اور یہ کام وہ ذاتی دلچسپی لے کر کرواتے ہیں اور
ٹھیکیداروں سے کمیشن لے کر مال کماتے ہیں ہے نا فائدے کی بات۔۔۔ حکمران
بلدیاتی انتخابات اس لئے نہیں کروانا چاہتے کہ اس میں ان کیلئے نقصان ہی
نقصان ہے سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ وہ اختیارات کی تقسیم ہی نہیں چاہتے
جس ملک میں چپڑاسی سے کلرک اوردائریکٹر تک کی آسامیاں وزیر ِ اعلیٰ اور
وزیر ِ اعظم بقلم خود یا ان کے فیملی ممبر خود بھرتی کریں وہاں اختیارات کی
تقسیم کیونکرکی جا سکتی ہے؟۔۔۔ اور جہاں بلدیاتی اداروں کے تمام تر فنڈز
میگا پراجیکٹ میں لگادئیے جائیں وہاں حکمران کس طرح چاہیں گے کہ لوکل باڈیز
الیکشن کروائے جائیں۔۔۔ نہ جانے کتنے چیف جسٹس دہائی دے دے کر ریٹائرڈ
ہوگئے کہ بلدیاتی انتخابات کروادئیے جائیں لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔۔اب لوکل
باڈیز الیکشن مرحلہ واربھی ہورہے ہیں تو اچھی بات ہے اسے دیر آئید درست
آئید کہا جا سکتاہے بہرحال بنیادی جمہوریت کی بحالی خوش آئندہے اب گلی
محلوں کے کام پراپر چینل ہونے سے عام آدمی کو کچھ تو ریلیف ملے گا اس کا
سہرا بھی موجودہ حکومت کے سرہے کہ ملک میں پہلی بار کسی جمہوری حکومت نے
بلدیاتی انتخابات کروائے ہیں نتائج جو بھی ہوں ایک بات طے ہے کہ پبلک کے
نمائندے جیتے ہیں زیادہ تر جن کا تعلق اشرافیہ سے نہیں ہمارے گلی محلوں سے
ہے۔۔۔ موجودہ یونین کونسلوں کا سیٹ اپ ایک دکٹیٹر پرویزمشرف کی ضلعی
حکومتوں جیساہے پہلے اس میں ناظم اور نائب ناظم تھے ان کے پینل میں بھی
جنرل کونسلر،لیبرکونسلر، لیڈیز کونسلر تھے اب سیاسی سیانوں نے کیا یہ ہے کہ
ناظم اور نائب ناظم کو چیئر مین اوروائس چیئرمین کا نام دیدیاہے مشرف دور
میں تو ہر یونین کونسل کاماہانہ خصوصی فنڈز جاری کیا جاتا تھا ڈسٹرکٹ
گورنمنٹ سے ناظم اور ٹاؤن سے نائب ناظم کو الگ سے فنڈز ملتے تھے ان کے پاس
وسیع اختیارات تھے لیکن اب ایسا نہیں لگ رہا سناہے اب چیئر مین اوروائس
چیئرمین کے اختیارات محدودہوں گے اور بعض معاملات میں صوبائی حکومتوں کے
زیر ِ اثررہیں گے ارکان ِ اسمبلی کی دباؤ الگ ہوگا۔۔ حکومت نے ہمت کرکے
بلدیاتی انتخابات کروائے ہیں توحوصلہ کرکے نو منتخب کو چیئر مین،وائس
چیئرمین، جنرل کونسلر،لیبرکونسلر، لیڈیز کونسلر وں کو مناسب اختیارات بھی
دے دے اس کے بغیر عوام کی حکمرانی کا خواب شرمندہ ٔ تعبیرنہیں ہو سکتا۔ |
|