بے انتہا خوبصورت کاتا کی دکھ بھری کہانی
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
کاتالونیا نہ تو کوئی فرضی
داستان ہے اور نہ ہی کوئی فرضی وجود ہے، بے انتہا خوبصورت کاتالونیا کے
وجود کو تسلیم کیا جانا ہی حقیقت کا آغاز ہے ۔یہ کہانی ہے سات سمندر پار
رہنے والی کاتا لونیا CATALONIA کی جس کے پاس ضروریات زندگی کی ہر چیز
موجود ہے ، بے انتہا مال و دولت ہے مگر کاتا کو اپنے بارے فیصلے کرنے کا
اختیار نہیں ہے۔ اسے استحصال کا سامنا ہے۔ وہ چاہتی ہے اس کا مال و دولت اس
کی مرضی سے اس پر خرچ ہو ، اسے آزادانہ فیصلے کرنے کے لیے مرضی کا اختیار
بھی چاہیے ۔ جس کے پاس مال و دولت سمیت ہرچیز ہو اس کا کسی دوسرے کے ساتھ
نباہ آسان نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ نباہ مشکل ہو جاتا ہے۔اب کاتا کی
بغاوت بھی بڑھ رہی ہے۔ لگتا ہے وہ وقت آگیا ہے جب بندھن ٹوٹ جا ئیں گے ،
راستے جدا ہو جائیں گے ۔ کاتولونیا کی وجہ شہرت مال ودولت ہی ہے پھر بھی
کاتالونیا کو استحصالی رویے اور آزادانہ فیصلے نہ کر سکنے کی شکایت تھی۔
شکایت بڑھتے بڑھتے علیحدگی کے فیصلے پر منتج ہونے والی ہے۔ کاتالونیا نے
فیصلہ کر لیا ہے کہ اب اسے علیحدہ ہونا ہو گا۔ اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔
اپنا مال و دولت دوسروں کے بجائے اپنے اوپر خرچ کرنا ہو گا۔ اسے کسی دوسرے
سے تجارتی معاملات کرنے،تعلقات رکھنے پر کوئی روک ٹوک نہیں لگا سکے گا ۔کاتا
کی علیحدگی کا فیصلہ ہونا ہے اور اسی سال ہونا ہے۔ علیحدگی کو طلاق کا نام
دیں خلع کا نام دیں یا پھر کوئی اور اب نباہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی ۔
باخبر لوگ بتاتے ہیں کہ کاتالونیا نے بغاوت کا فیصلہ دراصل قریبی پڑوسیوں
کے ساتھ تجارتی تعلقات میں رکاوٹیں آنے پر کیا ہے۔ آپ کو پریشان ہونے کی
ضرورت نہیں کاتا لونیا کو ئی استحصال زدہ عورت نہیں ہے۔کاتالونیا ایک ایسی
ریاستی حقیقت ہے، جس کو نہ تو بھلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسکا انکار ممکن
ہے۔ حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ خود ایک حقیقت ہے۔کاتالونیا کوئی فرضی حد
بندی نہیں یورپ کی ایک نیم خود مختار ریاست ہے ۔ سپین کے وفاق میں شامل اس
ریاست کا رقبہ 12399 مربع میل ہے۔ آبادی صرف 7 لاکھ 56 ہزار ہے ۔ کاتا
لوانیا 718 عیسوی میں اندلس کا حصہ رہی ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت تھی۔
سپین حکومت نے بعد ازاں 1979 میں اس علاقے کو نیم خود مختاری کا درجہ دے
دیا تھا۔ اب یہ علاقہ مکمل خود مختاری کی طرف گامزن ہے ۔9نومبر 2015 کو
کاتالونیا کی علاقائی پارلیمنٹ نے سپین سے علیحدگی اور آزاد ریاست کے قیام
کی منظوری دے دی ہے ۔ کاتالونیا خود مختیار ریاست کے قیام پر عمل درامد
2017 میں شروع ہوگا علاقائی پارلیمنٹ نے آزادی کے رود میپ کی بھی منظوری دی
ہے ۔ ادھر سپین نے اس عمل کو سپین کے آئین کی خلاف ورزی قراردیتے ہوے
کاتالونیا کو علیحدگی سے روکنے کے لیے ہرممکن اقدام کا اعلان کیا ہے ۔ اس
سے قبل 2014 کوکا تا لونیا کے عوام نے ایک وسیع تر ریفرنڈم میں اپنی قسمت
کا فیصلہ کرنا تھا مگر سپین نے ریفرنڈم نہ ہونے دیا ۔سپین میں کاتالونیا کے
صدر آرٹر ماس نے 9 نومبر2014 کو اس بارے میں ایک عوامی ریفرنڈم کے انعقاد
کا باقاعدہ اعلان کر دیا تھا۔ عوامی ریفرنڈم کا انعقاد ہو جاتا تو ممکن
تھادنیاکے نقشے پر ایک اور اآزادملک ابھر جاتا۔ سال پہلے ریفرنڈم کا سوال
یہ تھا کہ آیا سپین کے اس امیر ترین خطے کو ایک آزاد ریاست ہونا چا ہیے؟۔
کاتالونیا کے صدر آرٹر ماس نے اعلان کیا تھاکہ اس خطے کی باقی ماندہ اسپین
سے ممکنہ آزادی کے لیے عوامی ریفرنڈم9 نومبر کو کرایا جائے، سپین حکومت نے
اس اعلان کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی دیر نہ کی تھی کہ ایسا کوئی
بھی اقدام غیر آئینی ہو گا۔ حکومت نے واضح کر دیا تھا کہ وہ کاتالونیا میں
ایسے کسی بھی ریفرنڈم کے انعقاد کی اجازت نہیں دے گی۔ سپین کی خاتون نائب
وزیر اعظم سورایا سائنز دے سانتاماریا نے تو خبردار کرتے ہوئے یہاں تک کہہ
دیا تھاکہ کوئی بھی ہسپانوی عوام کی قومی خواہش سے بالا تر نہیں
ہے۔کاتالونیا کے صدر آرٹر ماس نے ریفرنڈم کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے ساتھ
ہی اس بارے میں ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط بھی کر دیے تھے۔ لیکن 27ستمبر
2014 ہی کے روز سپین حکومت نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر اسپین کی آئینی عدالت
میں اس اقدام کو چیلنج کر دیا اپین کی آئینی عدالت نے کاتالونیا کے خطے کے
صدر کے حکم نامے کو غیر موثر قرار دے دیا تھا۔ خطے کاتالونیا میں آزادی کی
مہم حالیہ برسوں میں کافی زور پکڑ چکی ہے۔18 ستمبر2014 کوسکاٹ لینڈ کی
برطانیہ سے علیحدگی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا گیا لیکن ناکام رہا۔کام رہنے
والے ریفرنڈم سے6 روز قبل 11ستمبر2014کو بارسلونا میں ایک لاکھ سے زیادہ
شہریوں نے کاتالونیا کے عوام کے لیے اسی طرح کے ریفرنڈم کے حق میں ریلی
نکالی ۔ ریلی میں شامل کاتا شہریوں کامطالبہ تھا کہ کاتالونیا میں بھی
آزادی سے متعلق عوامی ریفرنڈم کرایا جائے۔صدر آرٹر ماس نے بارسلونا کے
گینیرالیٹاٹ پیلس Generalitat Palaceمیں منعقدہ ایک تقریب میں ریفرنڈم کے
انعقاد کے حکم نامے پر دستخط کرنے کے بعد کہا تھا، کاتالونیا اپنی سوچ کا
اظہار کرنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی آواز سنی جائے۔ وہ ووٹ دینا
چاہتا ہے۔ سپین حکومت نہیں چاہتی کہ مالدار خطہ کاتا لونیا سپین سے الگ ہو
چنانچہ کچھ ہی دیر بعد اسپین کی نائب وزیر اعظم سائنز دے سانتاماریا نے
میڈرڈ میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں دو ٹوک اعلان کیا تھا، اس ریفرنڈم
کا انعقاد نہیں ہو گا کیونکہ یہ غیر آئینی ہے۔دے سانتاماریا نے کہا، ہمیں
کاتالونیا کے صدر کے اس اقدام پر بہت افسوس ہے۔ ہم اسے ایک غلطی تصور کرتے
ہیں۔ اس سے کاتالان معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ پیدا ہو گی اور کاتالان باشندے
تقسیم کا شکار ہو کر یورپ سے دور چلے جائیں گے۔۔7 لاکھ 56 ہزار آبادی والا
کاتالونیا اسپین کا امیر ترین علاقہ ہے جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی
حیثیت رکھتا ہے۔ کاتالونیا سیاحوں کی ایک پسندیدہ منزل بھی ہے اور ہسپانوی
ریاست کو اس کی مجموعی آمدنی کا پانچواں حصہ اسی خطے سے حاصل ہوتا ہے۔کاتا
لوانیا کے چار صوبے بارسلونا ، جیرونا ، لیانڈا اور تارا گانا ہیں اس ریاست
کا جی ڈی پی 314.4 بلین ڈالر ہے ۔ سات لاکھ چھپن ہزار آبادی میں چھیاسٹھ
فیصد رومن کیتھولک ، سات فیصد مسلمان اور باقی دوسری اقلیتیں آباد ہیں ۔ اس
علاقے میں چھ ائیرپورٹ ، دو بندرگاہیں اور ہائی سپیڈ ریلوے نظام موجود ہے ۔
اس ریاست کے بارہ ہزار تین سے ننانوے مربع کلو میٹر رقبے کاموازنہ کشمیر سے
کیاجائے تو صرف بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا رقبہ 85 ہزار 806 مربع کلو
میٹر ہے ۔ آبادی ایک کروڑ پچیس لاکھ سے زیادہ ہے ۔ شرح خواندگی چھیاسٹھ
فیصد سے زیادہ ہے ۔ اگر صرف بارہ ہزار تین سو ننانوے مربع میل رقبے اور سات
لاکھ آبادی والا یہ علاقہ رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کے فیصلے کا
اختیار مانگ رہا ہے تو کشمیر میں ایسا کیوں ممکن نہیں ؟ مقبوضہ کشمیر آزاد
کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں بھی ایسا کوئی فیصلہ کر کے ریاستی عوام
کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دے سکتی ہیں ۔ انہیں اس کا اختیار
اقوام متحدہ نے بھی دے رکھا ہے ۔ تو پھر پاکستان اور بھارت سے ڈر کیوں ؟
|
|