نئی عالمی صف بندی اور پاکستان

ان سالوں میں عالمی سیاست میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔پچھلی صدی میں دو عالمی جنگیں اور پھر USSRکا خاتمہ ہوا ۔امریکہ تنہاء طاقت کا مرکز بن کر ابھرا۔امریکہ کی پوری دنیا میں اجارہ داری کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ نئی صدی نئے انداز میں شروع ہوئی اور 9/11کا واقعہ رونما ہوا۔اس واقعہ نے سفارتی محاذ پر جنگ کے انداز بدل ڈالے ہیں۔نئی صف بندیاں ہوئیں ۔دوست دشمن اور دشمن دوست بننے لگے۔مفادات کا تعین از سرِ نو کیا جانے لگا۔

امریکہ نے تنہاء عراق،افغانستان ،لیبیا ،مصر میں تباہی پھیلائی اور ان ملکوں میں حکمرانوں کو تبدیل کیا ۔شام میں شورش بپا کی۔ اس نے ان علاقوں کے وسائل کو لوٹا اور جن وسائل کو لوٹ نہ سکا انہیں بے دردی سے تباہ کیا ۔مشرق اورمغرب میں خلیج گہری ہوئی لوگوں میں تعصب اور نفرت کے جذبات کو فروغ ملا۔امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے ان علاقوں میں ایسی تباہی پھیلائی کہ جس کے اثرات صدیوں تک رہیں گے۔

اس طرف چین نے امریکہ کی پیش قدمی کو روکنے کی غیر فوجی کوشش کی ہے اقتصادی میدان میں اس کا مقابلہ بھی کیا مگر وہ امریکہ کے خطے میں اثر رسوخ کو کم نہ کر سکا ۔بھارت نے بھی سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لیے بھر پور لابنگ کی دنیا کو باور کروانے کی کوشش کی کہ وہ اس طرف تنہا سپر پاور ہے مگر امریکہ اور یورپ نے اس کی اس بات کو بھی رد کر دیا ۔یہی بھارت نیوکلر میدان میں امریکہ کا اتحادی بناہوا ہے۔اور اب مکمل طور پر اسی کے بلاک میں شامل ہے اور اس کے زیرِ نگیں ہے۔ایران نے ہمیشہ امریکہ کو للکارا ہے ایٹمی پروگرام پر معاہدے کے باوجود وہ امریکہ کی اجار ہ د اری کو قبول کرنے سے گریزاں ہے۔شام میں بشار الاسد امریکہ کے خلاف بر سرِ پیکار ہے امریکہ کی لاکھ کوشش کے باوجود اس کا اقتدار قائم ہے ایران کی بھر پور فوجی اور سفارتی مدد اس کے ساتھ رہی ہے۔

اس سارے منظر نامے میں روس کے کردار کو اب نظر انداز کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔افغان وار میں امریکہ سے شکست کے بعد اس نے اب اپنے آپ کو منظم کیا ہے اور پھر سے خطے میں بھر پور کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ امریکہ کی یہاں موجودگی کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرتا ہے گزشتہ چند سالوں سے اس نے خطے کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو از سرِ نو مرتب کیا ہے۔ایران اور شام کو مکمل سپورٹ کرتا رہا ہے ۔سلامتی کونسل میں ان کے خلاف پیش ہونے والی قراردادوں کو مسترد کرتا رہا ہے۔پاکستان کے ساتھ مختلف نوعیت کے معاہدے کر کے اس بھی اپنے قریب کر لیا ہے۔

روس نے اب بشار الاسد کی فوجی مدد بھی شروع کر رکھی ہے داعش اور باغیوں پر فضائی حملوں کے بعد وہ اب اپنی زمینی فوج بھی شام روانہ کر رہا ہے یہ چیز امریکہ کے لیے کسی بڑے خطرے کا سبب بن سکتی ہے جب دو بڑی طاقتوں کے مفادات کے ساتھ ساتھ فوجیں بھی ٹکرائیں گی تو اس خطے میں شدید تباہی اور بربادی پھیلے گی۔شاہد روس نے اب یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ امریکہ کو مزید یہاں نہیں رہنے دے گا۔روس جو جنگ امریکہ سے افغانستان میں ہارا تھا اب وہ اسی کا بدلہ شام کے میدان میں لینا چاہتا ہے۔روس کو ایران اور کسی حد تک چین کی حمایت بھی حاصل ہے۔جب ایک خطے میں دو بڑی طاقتیں آمنے سامنے ہوتی ہیں تو اس خطے کے دیگر ممالک میں بھی اس کے اثرات دیکھے جاتے ہیں۔ایران کی مدد سے یمن میں حوثی قبائل پھر سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔سعودی عرب کے اندر ہلچل موجود ہے۔اس خطے میں کچھ ملکوں کا جغرافیہ اور حکومتیں تبدیل ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں۔

اس تمام تر نئی صف بندی میں پاکستان کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔اس منظرنامے میں اس کا کردار بنیادی اور کلیدی نوعیت کا ہے۔دونوں بڑی طاقتوں کی کامیابی کا انحصار پاکستان کے کردار پر ہے۔اگرچہ کہ پاکستان کا اب جھکاؤ روس کی جانب ہے مگر اسے پھر بھی اپنے کردار کو از سرِ نو منظم کرنا ہو گا ۔کسی کافریق بننے کی بجائے مصالحت کی راہ اپنانا ہو گی۔ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑنے کے بعد پاکستانی فوج اب ایک منظم اور جنگجو فوج کے روپ میں سامنے آئی ہے اس کی صلاحیتوں سے سب واقف ہیں ۔بڑی طاقتیں اور خطے کے ممالک اس کی فوج سے استفادہ کرنے کے خواں ہیں ۔پاکستانی فوج تحفظ کی ضمانت بن چکی ہے لہذا اپنی اہمیت کو سمجھتے ہوئے پاکستان کو اس تمام تر صورتحال میں فریق بننے کی بجائے مصالحت کار بننا ہو گا اور اس خطے کے عوام کو کسی بھی جنگ کی آگ سے بچانا ہو گا اگر پاکستان ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو تاریخ میں اس کا نام سنہری حروف میں چمکتا رہے گا۔
 
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 61627 views i am columnist and write on national and international issues... View More