روئے زمین پر کوئی بھی مملکت
اپنے نوجوانوں کو ملک کا اثاثہ سمجھتی ہے۔مہذب معاشرے میں نوجوانوں کی
صلاحیتوں کو اُجاگر کرکے اُنھیں کندن بنانے کا عمل حکومتی سطح پر بلا تعطل
جاری رہتا ہے لیکن پاکستان میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نوجوانوں کو تباہ
وبرباد کیا جا رہا ہے ۔جنرل ضیاء کے دور میں کلا شنکوف اور منشیات کا کلچر
روشناس کرا کر اس ملک کے نو جوانوں کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے کی سازش تا
حال جاری ہے فرق صرف اتنا ہے کہ منشیات کی شکل تبدیل کر دی جاتی ہے ہیروین
نے جہاں بے شمار نوجوانوں کو اپنا عادی بنایا وہیں یہ نوجوان معاشرے کا
بوجھ بن گئے ۔گزشتہ کئی برس سے ہمارے معاشرے میں تمباکو نوشی کی ایک نئی
شکل دریافت کرائی گئی جس کو شیشہ کا نام دیا گیا تمباکو نوشی کی یہ وباء
نوجوانوں میں تیزی سے پھیل رہی تھی ۔ شیشہ ایک انتہائی مضرصحت نشہ ہے بیس
سگریٹ پینے کے جو نقصانات ہیں اسکے لئے شیشہ کا ایک کش کافی ہے یا پھر اس
طرح سمجھ لیں کہ ایک گھنٹہ شیشہ پینے کا مطلب ہے دو سو سگریٹ پی لی گئی ہو
یہ گلے کی بیماری اور کینسرکا سبب بنتی ہے ۔ یہ وباء ابھی پوش علاقوں تک
محدود تھی لیکن چاروں صوبوں میں شیشہ کے بے شمار سینٹر جن کو شیشہ گھر کے
نام سے پکارا جانے لگا تھا تیزی سے روشناس کرائے جا رہے تھے یہاں پرانے حقے
کو خوبصورت شکل دے کر تمباکو کے ساتھ مختلف فلیور میں دھواں کے مرغولو ں کی
دعوت دی جاتی تھی۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ نو جوانوں کو کسی بھی نشے کی لت
سے محفوظ رکھنے کے لئے حکومتی سطح پر کسی قسم کے اقدامات نہیں کئے گئے ۔اﷲ
بھلا کرے عدالت عظمیٰ کا جنھوں نے از خود نوٹس لیا انور ظہیرجمالی صاحب کی
سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ان شیشہ گھروں کو بند کرنے کی ہدایت کرنے کے
ساتھ جلد رپورٹ کرنے کا فیصلہ دیا بلا شبہ یہ تاریخی اور قابل ستائش فیصلہ
ہے۔جس کے نتیجے میں شیشہ سینٹروں کی بندش اور گرفتاریوں کا سلسلے کی شروعات
کی خبریں نوجوانوں اور مستقبل کے تحفظ کی ضمانت ہیں۔
اسکے ساتھ ہی میں گٹکے جیسے موذی نشے کی جانب بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں جس
کا استعمال کئی برس سے سندھ اور بلوچستان میں تشویشناک حد تک پھیل چکا ہے
گٹکے کے استعمال میں غریب طبقے سے تعلق رکھے والے خواتین و حضرات کی
تعداد3کروڑ افراد سے تجاوز کر گئی ہے صرف کراچی میں 80سے زائد موت کے
سوداگروں نے فیکٹریاں قائم کر رکھی ہیں جن کے تحفظ کے فرائض پولیس اور
سیاسی جماعت کے غنڈے بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔گٹکے کے تیار کئے جانے کا عمل
انتہائی غلیظ ہے اس میں کتھا،چونا،تمباکو کے کچرے کا مرکب ہوتا ہے تینوں
اجزا کا میعار انتہائی گھٹیا ہوتا ہے گٹکے کو لیسدار کرنے کے لئے اسمیں
اسفغول،گوند کے بجائے گائے کا تازہ خون ،کلف پاوڈر،ملتانی مٹی اسکے علاوہ
سری لنکا سے درآمد کردہ چھالیہ کی ایک ممنوعہ قسم کا سفوف ڈالا جاتا ہے
حیران کن بات یہ ہے کہ گٹکے میں بیٹری کا پانی اور افیم بھی استعمال ہوتا
ہے 2روپے کی پُڑیا میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کے مجموعے کو زہر کہا جا نا
غلط نہیں ہو گا۔ پھر اسکے ساتھ ہی مین پوری ، ماوا،پان پراگ بھی اس کے
اقسام ہیں ۔حالیہ دنوں میں تقریباً 500افراد کے منہ بند ہوگئے ہیں ان کامنہ
ایک سینٹی میٹر سے بھی کم کھلتا ہے جناح ہسپتال کراچی کےENTوارڈ میں روزآنہ
دو سے تین منہ کے کینسر میں مبتلا افراد نظر آتے ہیں دیگر علاقوں کی
صورتحال اس بھی زیادہ ہولناک ہے ۔ ایک مقا می ڈاکٹر کے مطابق ہر سال کم سے
کم 40ے50افراد کی اموات گٹکا کھانے کے سبب ہوتی ہے جب کہ ہر سال اس میں
اضافہ ہی ہورہا ہے اس خوفناک صورتحال اور اعداد و شمار کے باوجود اس زہر کو
کھانے کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور آگے مزید بڑھنے کے امکان ہیں ،کیونکہ
نہ خود گٹکا کھانے والوں کو اپنی صحت کی فکر ہے اور نہ ہی محکمہ صحت کواور
نہ ہی حکمرانوں کو ۔یوں تو ہر شے جو نشہ بن جائے وہ مہلک بیماریوں کو دعوت
دیتی ہیں لیکن گٹکا ہماری نسل کی تباہی کا سامان اور درد سر بنی ہوئی ہیں
متعلقہ ادارے فیکٹریاں بند کروانے سے قاصر ہیں اور دعوؤں کے باوجود اسکی
فروخت بند نہیں کروائی جاسکی۔
چونکہ گٹکا ایک سستہ نشہ ہے جبکہ شیشہ مہنگا ،اس لئے گٹکے کے استعمال کا
رحجان غریب طبقے میں اپنی جڑوں کو مضبوط کر کے غریبوں کی جڑوں کو کھوکھلا
کرنے کا سبب بن گیا ہے ۔شیشہ پر پابندی ایک بہترین قدم ہے لیکن کیا ہم یہ
سمجھیں کہ ہر اقدام کیا امیروں کا استحقاق ہے غریبوں کی کوئی شنوائی نہیں ؟
اس سوال کا جواب ہم خود دے دیتے ہیں کہ نہیں جی! انصاف سب کے لئے خواہ امیر
ہو یا غریب،لیکن جب ہم غریبوں کی فریاد کو عدالتی نظام کے بوجھ تلے دبا ہوا
دیکھتے ہیں تو ہمارا جواب غلط ثابت ہوتا نظر آتا ہے غریبوں کی رسائی عدالت
تک نہ ہونے کا اقرار گزشتہ دنوں چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی صاحب نے
اپنی سیر حاصل تقریر میں کیا تھاپھر ہم مطالبہ کرتے ہیں صوبائی حکومت سے جو
اپنی پارٹی کو غریبوں کی پارٹی کہلاتی ہے عدالت عظمیٰ کے اس دلیرانہ قدم کے
بعد آپ ہی اگلا قدم اُٹھاتے ہوئے گٹکے کی بیخ کنی کا جراتمندانہ فیصلہ کر
ڈالیں اور نوجوانوں کو نشے کی لت سے چھٹکارہ دلانے کے لئے جہاد کا عزم کر
ڈالیں قبل اس کے کہ سندھ ہائی کورٹ میں گٹکے کے خلاف جاری سماعت کا فیصلہ
صادر ہو ، تب ہی آپ غریبوں کی پارٹی کہلانے کے حق دار ہونگے ورنہ ہماری یہ
جہادی خواہش عدالت عظمیٰ کی جانب متلاشی نظروں سے گٹکے کے خلا ف جہادی
فیصلے کی منتظر ہو گی۔ |